پاک چین ایٹمی معاہدے پر بھارتی اور امریکی مروڑ

گزشتہ دنوں پاکستان نے بھارت کے اُس مطالبے کو مسترد کر دیا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان چین کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے کی وضاحت کرے، پاکستان نے پاک چین سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی تعاون کے بارے میں بھارت اور امریکی تحفظات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین کے مابین یہ تعاون بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے جس پر کسی کو تحفظات نہیں ہونے چاہئیں، دوسری طرف چین نے بھی امریکہ اور بھارت کے اعتراضات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اِن ملکوں کے پاس پاکستان کے ساتھ سول جوہری معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی جواز موجود نہیں، کیونکہ پاک چین معاہدہ عالمی توانائی ایجنسی کے قوانین کے مطابق ہے، چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ اور بھارت کے تحفظات کے باوجود پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 650 میگاواٹ نیوکلیئر پاور پلانٹ تعمیر کریگا، اِس سلسلہ میں چین کی جانب سے گزشتہ روز نیوزی لینڈ میں نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے اجلاس میں باقاعدہ طور پر آگاہ بھی کردیا گیا اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ امریکہ خود بھارت سے اِس نوعیت کا ایٹمی معاہدہ کر چکا ہے، اِس لئے وہ چین پر دباﺅ نہیں ڈال سکتا، ایک بھارتی اخبار کے مطابق چین کی آرمڈ کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ ایسوسی ایشن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل زی وی کوانگ نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ چین پاکستان کو سول نیوکلیئر پاور پلانٹ کے سلسلہ میں تعاون فراہم کریگا اور دو ایٹمی ری ایکٹروں کی تعمیر کیلئے پاکستان کی مالی معاونت بھی کی جائیگی۔

حقیقت یہ ہے کہ عوامی جمہوریہ چین پاکستان کا بہترین ہمسایہ ہی نہیں، ایسا قابل اعتماد دوست ہے جو آزمائش کے ہر مرحلے میں دوستی کے معیار پر پورا اترا ہے، اُس نے پاکستان کیلئے جو کہا، وہ کر کے بھی دکھایا، اِسی وجہ سے پاک چین دوستی کے ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھا ہونے کی جو مثالیں دی جاتی ہیں، وہ غلط نہیں، چین نے ہر فیلڈ میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بے لوث تعاون کیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی مصلحتوں اور مجبوریوں کے تحت چین کے بے لوث تعاون کے باوجود ہمیشہ امریکہ کی کاسہ لیسی کی، حالانکہ امریکہ نے دوستی کا معیار مقرر کرتے وقت دفاعی تعاون، مشترکہ جنگی مشقیں، ایٹمی ٹیکنالوجی کا تبادلے اور تجارتی تعاون میں ہمیشہ پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی، جو شروع دن سے پاکستان کی سلامتی کے درپے اور مشرقی کی علیحدگی سے لے کر بلوچستان اور آزاد قبائلی علاقوں میں خانہ جنگی تک پاکستان کی آزادی و خودمختاری کیخلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہے۔

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بھارت خطے میں تھانیداری کے جنون میں مبتلا ہے، اُس کے توسیع پسندانہ عزائم آج کھل کر دنیا کے سامنے آچکے ہیں، اِس تناظر میں اگر پاکستان اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو بھارت شور مچاتا ہے کہ پاکستان کو روکا جائے، اسی وجہ سے اب بھارت کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے کہ پاک چین سول ایٹمی معاہدہ کیوں ہوا، جبکہ خود بھارت امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور اسرائیل سمیت متعدد ممالک کیساتھ دفاعی اور ایٹمی تعاون کے اب تک 130 معاہدے کر چکا ہے، اِس وقت اسکی دفاعی صلاحیت اور جنگی سازوسامان میں پاکستان کے مقابلے میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہے، جس کی بنیاد پر وہ ہمیں محض دھمکیاں ہی نہیں دیتا، بلکہ ہماری سالمیت کیخلاف مسلسل سازشوں میں بھی مصروف ہے، جبکہ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر ہماری سرزمین کے اندر حملہ آور ہونے کے حوالے سے اُس کے عزائم کا اظہار بھی بارہا ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود آج تک امریکہ نے بھارت کے جنگی جنون، تخریبی سرگرمیوں اور توسیع پسندانہ عزائم کا نہ تو کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی کبھی تشویش کا اظہار کیا، دوسری طرف پاکستان چین دفاعی تعاون کے معاہدوں پر امریکہ اور بھارت کے پیٹ میں بیک وقت مروڑ اٹھ رہے ہیں اور امریکہ کی جانب سے باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ خطہ میں امن و امان کے حوالے سے پاکستان چین سٹرٹیجک تعاون کے معاہدوں کا سنجیدگی کیساتھ جائزہ لے رہا ہے۔

پاکستان کے بارے میں مغرب کے دوہرے معیار کا اندازہ اِس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایٹمی عدم پھیلاﺅ کے جس معاہدے پر دستخط کرنا اور عملدرآمد کرنا خود امریکہ نے کبھی ضروری نہیں سمجھا اور بھارت اور اسرائیل کو بھی اس معاہدے کی روح کے منافی ایٹمی سرگرمیوں کی کھلی چھوٹ دی، پاکستان چین ایٹمی تعاون معاہدے کے بعد امریکہ، برطانیہ، بھارت اور یورپی یونین کو بڑی شدت سے احساس ہونے لگا کہ پاکستان چین ایٹمی تعاون کا معاہدہ آئی اے ای اے کے قوانین کے مطابق ہونا چاہئے، گزشتہ دنوں برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے بھی اسلام آباد میں صدر زرداری اور اپنے ہم منصب وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے دوران پاکستان کو یہی باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ چین سے ایٹمی تعاون کے بارے میں پاکستان عالمی قوانین کی پاسداری کرے، جبکہ دو سال قبل جب امریکہ نے بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اُس کے ساتھ ایٹمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا۔

اُس وقت پاکستان چین معاہدے کے مخالفین کو یہ یاد نہیں آیا کہ یہ معاہدہ ایٹمی عدم پھیلاﺅ کے عالمی قوانین سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں، اُس وقت نہ کسی نے بھارت پر دباﺅ ڈالا اور نہ ہی امریکہ پر زور دیا کہ وہ اِس معاہدے سے اجتناب کرے، کہ اِس سے خطہ میں طاقت کا توازن مزید خراب ہو سکتا ہے اور عالمی امن کو مزید خطرہ لاحق ہو سکتے ہیں، اَمر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ ہمارے دشمن اوّل بھارت کو علاقائی تھانیدار بنانے کیلئے اُسے جدید ایٹمی ٹیکنالوجی سمیت تمام دفاعی حربی سامان سے لیس کر رہا ہے، یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ امریکہ اِس معاہدے کی بنیاد پر اب تک بھارت کو جدید ایٹمی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس کر چکا ہے، جبکہ بھارت نے امریکہ سے ہی سے نہیں، فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور اسرائیل تک سے ہر قسم کا ایٹمی تعاون حاصل کیا ہے، جس کی بنیاد پر وہ نہ صرف ہم سے چار گنا زیادہ دفاعی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ طاقت کے نشہ میں چور ہو کر وہ اب چین کو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔

اِس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ جب بھارت کھلم کھلا اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار کر رہا ہو تو پھر اپنے دفاع کیلئے چین اور پاکستان کو ایک دوسرے کے ساتھ ایٹمی تعاون کرنے کا کیوں حق نہیں پہنچتا، چین بلاشبہ پہلے بھی ہر فیلڈ میں ہمارے ساتھ بے لوث تعاون کرتا رہا ہے اور کسی بھی مشکل وقت میں اُس نے کبھی ہمیں تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا، اسی بنیاد پر پاک چین دوستی کی دنیا میں مثال پیش کی جاتی ہے جو ہمالیہ سے بھی بلند اور شہد سے بھی میٹھی ہے، آج امریکہ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے باعث خطہ میں بگڑتے ہوئے طاقت کے توازن نے اپنی اپنی سلامتی کے نقطہ نظر کے تحت پاکستان اور چین کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر دیا ہے، یقیناً اسی تناظر میں پاکستان اور چین کے مابین ایٹمی تعاون کا ایسا ہی معاہدہ روبہ عمل ہوا، جیسا امریکہ اور بھارت نے ایک دوسرے کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، اگر مغربی دنیا اور یورپی یونین امریکہ بھارت معاہدے کو نظرانداز کرتے ہوئے اِسی نوعیت کے پاک چین معاہدے پر برافروختہ ہو رہی ہے تو اِس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئی اے ای اے، این پی ٹی اور سی ٹی بی ٹی جیسے ایٹمی عدم پھیلاﺅ کے عالمی معاہدے کس کے گرد شکنجہ کسنے کیلئے تیار کئے گئے ہیں۔

اگر یہ عالمی قوانین وضع کرنے والے ہی خود کو اِن کا پابند نہیں سمجھتے تو پھر پاکستان اور چین کو اِن قوانین کی پابندی پر کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے، اِس لئے چین نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی میٹنگ میں پاکستان چین ایٹمی معاہدہ کے تحت پاکستان میں نیوکلیئر پاور پلانٹ تعمیر کرنے کا اعلان کر کے انتہائی جرات، بہادری اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے، جس کے بعد پاکستان کو بھی ایسی ہی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی مفادات کی اُس جنگ سے جس نے پاکستان کو سوائے تباہی و بربادی کے اور کچھ نہیں دیا، اپنا دامن چھڑا کر کھل کر چین کے ساتھ ہوجانا چاہئے اور امریکہ اور مغرب کی جانب دیکھنے کے بجائے چین سے اپنے تعلق اور دوستی کو مضبوط کرنا چاہیے کیونکہ یہی پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔

امریکہ نے گزشتہ آٹھ سال میں ہمارے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اُس کے بعد ہمارے حکمرانوں کو کم از کم یہ بات ضرور سمجھ لینی چاہئے کہ امریکہ کو دوست سمجھنا، اُس پر بھروسہ و اعتبار کرنا اور اُس سے خیر کی توقع رکھنا، محض خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں ہے، لہٰذا ایسی حالت میں جبکہ ہماری سلامتی کیخلاف امریکہ بھارت اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ہمیں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنے رہنے کی ضرورت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ جڑا ہوا ہے، آج ایک بار پھر چین نے ایٹمی تعاون کے حوالے سے امریکی دباﺅ کو مسترد کر کے پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعاون کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنے گرانقدر تعاون کا ایسا تحفہ پیش کیا ہے جو اِس خطے کی ہی نہیں، عالمی امن کی بھی ضمانت ہے اور جس کی مدد سے نہ صرف امریکہ جیسی سپرپاور کا زعم بھی توڑا جا سکتا ہے بلکہ طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی بھارت کا نشہ بھی ہرن کیا جا سکتا ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358361 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More