کاروانِ حیات ایسی خاردار وادیوں سے گزرتا ہے جو دامن
زیست کو تار تار کردیتی ہیں۔ زندگی درد، کڑھن، تکلیف، الم اور مصائب کی منہ
بولتی تصویر ہے جہاں انسان جہد مسلسل سے تھک کر چور ہوجائے تو ہوجائے مگر
شکوہ کناں ہونا جرم، اسکی آنکھوں سے بہتے آنسوہی اس کی آبلہ پائی کے
مرہم ہوتے ہیں نہ کوئی علاج غم ہے نہ اس کشمکش سے کوئی فراز اور نجات بس
دوڑتےرہئے اور تقاضائے حیات کی جستجو میں منہمک رہئے، جس کی ترجمانی فیض
احمد اس طرح کرتے ہیں:زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہےجس میں ہر گھڑی درد کے
پیوند لگے جاتے ہیںیہی فلسفہ حیات ہے،یہی زندگی کی تصویر کشی،عکاسی اور
ترجمانی ہے۔ہر ذی شعور اس کے تقاضوں سے باخبر ہے، ان تقاضوں کو اپنے دامن
میں رکھنے کے باوجود مسکراہٹ کا تصور جرم سا لگتا ہے، ہاں اگر کبھی کبھی یہ
خیالات آزادی دیں تواس جرم کا ارتکاب کیا جائے مگر تیزیسے گردش کرتی نبض
حیات اس کی مہلت کم ہی فراہم کرتی ہے اور کم ہی ایسے مواقع میسر آتے ہیںجب
انسان فکرِ حیات کو قہقہوں میں اڑا رہا ہو، ان تمام جھمیلوں کے ذہن پر سوار
ہوتے ہوئے قہقہہ لگانا بڑا مشکل امر ہے اور قہقہہ بار مجالس کا قیام یہ تو
حقیقتاً دلاوری ہی ہے جس کو کوئی بہادر اور دلاور ہی سر انجام دےسکتا ہے
اور دے گیا ہے، دلاور فگار نے جس خوبی و خوبصورتی سے یہ عظیم کارنامہ انجام
دیا ہے وہ تصور سے پرے ہے، بہت ہی کم افراد ہیں جو اس خوبی سے اس صنف سخن
کے نوک و پلک سنوار سکے اور سسکتے تڑپتے مسائل کے بوجھ میں دبے افراد کو
قہقہوں کا تحفہ عنایت کرسکے۔طنز ومزاح کے عظیم شاعر دلاور فگار جنہوں نے
اردو ادب کو اس صنف میں اکبر الٰہ آبادی کے بعد سنجیدگی عطا کی ان کی خوبی
یہ ہے کہ وہ معاشرہ کے چبھتے مسائل کو قہقہوں کا لباس عطا کرتے ہیں اور
اپنے طنزیہ تیروں سے گھایل کردیتے ہیں، بلاشبہ مزاح نگاری ایک عظیم فن ہے
جہاں ذرہ برابر چوک کی گنجائش نہیں، گویا کہ پل صراط پر چلنے کےمترادف اور
آگ کے دریا کو ڈوب کر پار کرنے کے برابر ہے جہاں ہلکی سی کوتاہی انسان کی
بیوقوفی کی دلیل بن جاتی ہے اور ذرہ برابر خامی کی بھی کوئی گنجائش نہیں،
اس خاردار زمین میں قدم رکھنا اور اس خوبی سے نبھانا کہ اپنا پرایا ہر کوئی
ان کے فن کا معترف ہوجائے بڑی بات ہے جس کو دلاور فگار نے چھوٹی ثابت کردیا،
ان کی مزاحیہ شاعری فحش کلمات سے پاک ہے، وہحساس مسائل کا مذاق اڑانا بھی
جانتے ہیں اور معاشرہ کی ہر کمی اور کوتاہی پر طنز کرنا بھی نہ کوئی جھجھک
ہے، نہ خوف اور نہ لحاظ، یہ شخص اردو کا بے لوث خادم ہے اور اکبر ثانی
کہلانے کا مستحق اور حقدار بھی اور بھی لوگوں نے طنزیہاور مزاحیہ شاعری کی
مگر جو فکر، جو لہجہ برجستگی دلاور کے یہاں ہے، وہ دوسروں کے یہاں نہیں ہے
بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس عہد میں اکبر نے دم توڑتی اس صنف
سخن میںروح پھونکنے کی کوشش کی اور وہ اس میں ایک حد تک کامیابی بھی رہے
مگر یہ بدقسمتی ہے کہ اردو شاعری کو دوسرا اکبر تو بڑی عرق ریزی کے بعد مل
ہی گیا مگر دوسرا دلاور نہ ملا اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس کی امید
بھی دم توڑ چکی ہے، چند افراد وہ ہیں جنہوں نے ابھی قریبی زمانے میں بھی اس
فن کا بھرم رکھنے کی کوشش کی لیکنوہ دلاور کے مقام کو نہ پاسکے، وہ نابغہ
روزگار اور یگانہ زمانہ ہے، آج ہمجس معاشرہ میں زندگی گذارتے ہیں ایسالگتا
ہے کہ مزاحیہ شاعری وفات پاچکی اور چند ایک اس پر ماتم کر رہےہیں اور اس کی
حالت زار کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب تو ہنسنے ہنسانے کے
لئے فحش گوئی کا سہارا لینا پڑتا ہے اور صرف شاعری ہی نہیں بلکہ جو قہقہوں
کے سامان ہوسکتے تھے یا مجالس ہوتی ہیں وہ بھی فحاشی اور عریانیت کا مظہر
بن چکے، ایسا لگتا ہے کہ مسکراہٹ بغیر اس طریقۂ کار کے متصور ہی نہیں۔ یہ
بھی ظاہر کرتا ہے کہ سادہ انداز لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنا پہاڑوں سے دودھکی
نہر نکالنے سے کم نہیں جو دلاور فگار پوری زندگی کرتے رہے۔آئیے چند نمونوں
کے ذریعہ ظاہر کیا جائے کس خوبصورت انداز سے انہوںنےمزاحیہ شاعری کے گیسو
سنوارے اور اس کے مقام کو دوچند کیا اور دیگر شعراء کو بھی نصیحت کرگئے کہ
شاعری کس طرز اور طریقے سے کرنی چاہئے۔ کہتے ہے ؎ادب کو جنس بازاری نہ کرنا
٭ غزل کے ساتھ بدکاری نہ کرنایہ ایسا طنز ہے جو غزل گو شاعروں کےلئے ایک
راہ بھی فراہم کرتا ہے جو غزل کے میدان میں ان کے آگے بڑھنے میں کیفیت کی
تعیین بھی کرتا ہے اور انہیں احساس بھی کراتا ہے کہ اس جہانِ غزل میں کتنی
حساسیتاور پاکیزہ خیالی کی ضرورت ہے،یہ دو مصرعے بتا رہے ہیں کہ فگار حق گو
ہیں یا جانب دار اور لحاظ کرنے کا فیصلہ کوئی مشکل کام نہیں بلکہ ہر ذی
شعور اور ادنیٰ طالب علم بھی انکے اس طنز میں ان کی حق گوئی کو دیکھ سکتا
ہے اور وہ نظم جس نے دلاور فگار کو شاعری کے بام عروج پر پہنچایا اور طنزیہ
و مزاحیہ شاعری کے آسمان پر وہ مثل ماہتاب چمکے وہہے عظیم شاعر جو اسم
بامسمی ثابت ہوئی اس کے کچھ اشعار نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ فگار
کےفن کااندازہ ہوجائے اور یہ الفاظ جو ان کے لئے کہے گئے محض الفاظ نہ گمان
کئے جائیں بلکہ یہ الفاظ ان کے فن کے سامنے بونے ثابت ہوں، حاضر خدمت ہے
مثال، شاعر اعظم دلاور فگار ؎کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیںکہنے لگے کہ
آئو ذرا بحث ہی کریںکرنے لگے یہ بحث کہ اک ہندو پاک میںوہ کون ہیں کہ شاعر
اعظم کہیں جسےمیں نے کہا ’جگر‘ تو کہا ڈیڈ ہو چکےمیں نے کہا کہ ’جوش‘ کہا
قدر کھوچکےمیں نے کہا ’ساحر‘ و ’مجروح‘ و ’جاں نثار‘ہوئے کہ شاعروں میں نہ
کیجئے انہیں شماراس طویل نظم میںجس کے میں نے چند اشعار نقل کئے بلا کی
ظرافت ہے، ہرشخص کے وہم و گمان میں بھی اس طرح کی چیزیں نہیں آسکتیں، یہی
وہ کلام ہے جس نے دلاور فگار کی شہرت کو سرحدوںکی قیود سے آزاد کردیا اور
وہ بین الاقوامی شاعر قرار پائے اور ان کی بلندی افکار اور مزاحیہ شاعری کا
ڈنکا پوری اردو دنیا میں بجا۔ اکبر ہندوستان میں مردم خیز سرزمین بدایوں ۸؍جولائی
۱۹۲۹ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم بدایوں میں حاصل کی، اس کے بعد آگرہ
یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ایم اے انگلش و ایم اے معاشیات کی ڈگریاں بھی
حاصل کیں۔ بدایوں کی زمین نےاور بھی بہت سے اردو زبان و ادب کے خادم پیدا
کئے، خود دلاور فگار نے اردو ادب کی عظیم خدمات انجام دیں،اگر چہ وہ مزاحیہ
شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے مگرا نہوں نے غزلیں بھی کہیں اور ان کی غزلوں
کا مجموعہ 1954ء حادثہ کے نام سے شائع ہوا، جب ان کا تخلص شباب ہوا کرتا
تھا، جس کے اثرات ان کی غزلوںمیں نمایاں ہوتے ہیں۔ پھر انہوں نے تخلص بدلا،
طرزِ شاعری بدلا اور طنز و مزاح نگاری کی سخت زمین پر کاشت کی جو ان کی
عبقریت کی ضامنہوئی اور ان کی خدمات لازوال ہیں جو ہمیشہ سراہی جاتی رہیں
گی اور قدرومنزلت انہیںنصیب ہوتی رہے گی۔اس کے علاوہ وہ ایک نقاد اور محقق
بھی تھے اور بحیثیت لیکچرار عبداللہ ہارون کالج میں خدمات انجام دیں، ہمہ
جہت شخصیت کے مالک تھے، زندگی کا ایک حصہ پاکستان میں گذرا اور ان کا دوسرا
مجموعہ ستم ظریفیاں جوان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری پر مشتمل تھا 1963ء زیور
طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا اور زندگی بھر ہنسانے، گدگدانے والا
اپنے مخصوص لہجہ، طرز اور الفاظ سے معاشرہ کی خامیوں کو اجاگر کرنے اور
ہمیں ہر تکلیف سے بے خبر کرنے والا 25جنوری 1998ء کو اس دارِ فانیسے رخصت
ہوا اور اپنے چاہنے والوں کو رنجیدہ کر گیا، آج کی یہ تاریخ اس عظیم شخصیت
کی یاد دلاتی ہے۔ |