یوں تو دنیا ایک گلوبل ویلج ہے اور اسی
گلوبلائزیشن کی وجہ سے ایسی ریویلیوشن نے جنم لیا کہ دنیا کا نقشہ ہی بدل
کر رکھ دیا ہے۔دنیا نے ہر میدان میں ترقی حاصل کی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ
جب سرحدیں ہی ختم ہو جائیں گی ۔ہم ٹی وی کے ذریعے دوسرے ملکوں کی گھر بیٹھے
سیر کر سکتے ہیں ،موبائل فونز کے ذریعے ہزاروں میل دور اپنے چاہنے والوں سے
بات کر سکتے ہیں اور لاکھوں میل دور انٹرنیٹ کے ذریعے دیکھ بھی سکتے ہیں
اور اپنے دکھ سکھ بانٹ سکتے ہیں لیکن ان سب چیزوں تک رسائی ہر ایک شخص کے
اختیار میں نہیں کیونکہ ہر ملک میں سبھی لوگ ایک جیسے بینک بیلنس کے مالک
نہیں ہوتے ۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کیلئے حکومت آسائشیں پیداکر
دیتی ہے کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح یہ تمام اشیاء بلا امتیاز حاصل کر
سکیں لیکن بعض ممالک ایسے ہیں جو یا تو نہایت پسماندہ ہوتے ہیں یا ان کے
حکمران ہمیشہ عوام سے لوٹ کھسوٹ کرتے رہتے ہیں انہیں چند ممالک میں ایک نام
پاکستان کا بھی ہے جس کے حکمران اتنے امیر ہیں کہ ان کیلئے سرحدی خطوط کوئی
معنی نہیں رکھتے اور اس گلوبل ویلج کو اچھے طریقے سے انجوائے کر رہے ہیں۔
لیکن اپنی ان آسائشوں اور راحتوں کا بوجھ عوام کے کندھوں پر پھینکتے ہیں ۔
تعلیم ،صحت ،خوراک ،بجلی،پانی جیسی بنیادی سہولیات عوام تک پہنچانا حکومت
پر آئینی حق بنتاہے لیکن اگر حکومت نہ دے پائے او ر عوام خود اپنی بساط کے
مطابق حاصل کرے تو حکومت کا حق بنتا ہے کہ وہ اس تک رسائی کیلئے عوام کا ہر
ممکن ساتھ دے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں اس کے برعکس بے جا ٹیکسوں کی مد
میں عام آدمی کو اچھی طرح لوٹا جاتا ہے مطلب یہ کہ لوگ غلامی بھی کرتے ہیں
اور اس غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں ۔پاکستان میں بجلی کا شارٹ فال اول
دن سے ہی ہے اور اس کا ازالہ ملک کے بچے بچے کو پتہ ہے!! لیکن پاکستان کی
اسی فیصد سیاست اسی معاملے پر ٹکی ہے کہ کالاباغ ڈیم بنانے سے پہلے ہماری
نعشیں بچھانی پڑیں گی!! قابل افسوس بات یہ کہ عوام بھی ان سیاسیوں کا
بھرپور ساتھ دیتی ہے ۔پاکستان ایک واحد ایسا ملک ہے جس میں ہر طرح کی
معدنیات اور وسائل ہیں جبکہ اس خطے میں موسم بھی چاروں ملتے ہیں جسکی وجہ
سے ہم فصل خریف اور فصل حریف بھی آسانی سے کھاتے ہیں۔ جیسا نام پاک ستان
ویسے ہی اﷲ تعالیٰ نے اس مٹی کو تمام تر معدنیات و وسائل سے مزین کیا ہے
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ غلامی ہمارے خون سے نصف صدی گزرنے کے بعد بھی
نہیں نکل سکی ۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے اور اب
انگریز غلام ذہنوں کی غلامی کرتے ہیں ۔اس پاک سرزمین پر حکومت کرنے والا ہر
شخص اور ہر سیاسی پارٹی نے عوام اور ملک کو خوب کھایا ہے کبھی ٹیکسوں کی
صورت میں تو کبھی کرپشن کی صورت میں رواں مالی سال کے بجٹ میں ہر سال کی
طرح پھر سے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا ہے لیکن یہ ٹیکس اس لئے قابل
قبول نہیں کہ بلا وجہ اور بے مقصد نافذ کیا جا رہا ہے۔ پچھلے 69 برس سے
پاکستانی عوام نے جتنا ٹیکس دیا ہے اس شرح میں اگر دیکھاجائے تو ملک میں اس
وقت ایک بھی غریب باقی نہ رہتا لیکن اس کے برعکس آئے روز گدا گروں کی تعداد
میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور غربت میں بھی۔ ملک کی کرنسی کافی حدتک ناکام
ہو چکی ہے اور ان پالیسیوں سے پاکستان دیوالیہ ہورہا ہے ۔آئی ایم ایف سے
پھر قرض وصول کیاگیا ہے وہ بھی انہیں ٹیکسوں کے لاگو کرنے کی بنیاد پر سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک میں تمام تر کام اورملک کا بجٹ آئی ایم ایف کے
قرض پر چل رہا ہے تو عوام جو ٹیکس جمع کرواتی ہے وہ پیسہ کہاں جاتا ہے ؟سوال
یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں اتنے بڑے بڑے بزنس مین ہیں انڈسٹریز کے مالک ،ٹرانسپورٹرز
موجود ہیں وہ جو سالانہ کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ پیسہ کس کھاتے
میں پڑا ہے ؟عوام پر ٹیکس کس ایما پر لاگو کیا جا رہا ہے کہ جب لگانے والے
خود ٹیکس چور ہوں؟ہمارے ملک کے سیاستدان بھی تو کاروباری طبقہ ہیں! انہوں
نے جو سالانہ ٹیکس جمع کروائے ان سے کیا حاصل ہو ا؟خیر یہ بات تو کوئی بھی
نہیں پوچھ سکتا اور نہ ہی ان کا کوئی جواب دینے والا ہے کیونکہ یہ سیاسی
کسی کو جواب دہ نہیں سوائے اس کمیٹی کے سامنے جو ان کے ٹرمز آف ریفرنس کی
شرائط پر پوچھ گچھ کرے !!رواں مالی سال جتنے بھی پراجیکٹ بجٹ میں دئیے گئے
ہیں ان کیلئے آئی ایم ایف سے قرض وصول کر لیا گیا ہے اور اس قرض کا بوجھ
عوام کے کندھوں پر ٹیکسوں کی صورت میں گرایا جا رہا ہے ۔حضرت عمر ؓ کے دور
خلافت میں ایک وقت ایسا آیا کہ جب حکومتی خزانہ بہت زیادہ تھا لیکن زکوٰۃ
لینے والا کوئی نہیں بچا ! مطلب غریب باقی نہیں رہ گیا تھا! کیونکہ اس وقت
ڈائریکٹ ٹیکس لیا جاتا تھا لیکن ان ڈائریکٹ ٹیکس نہ ہونے کے برابر تھا ۔برونائی
میں آج بھی کسی چیز پر کوئی ٹیکس نہیں ہے اور عوام خوشحال زندگی گزارتی ہے
ایسے ہی اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ٹیکس کا نفاذ اس سے قدرے بر عکس ہے
کیونکہ پاکستان میں ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح نا ہونے کے برابر ہے جبکہ ان
ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح ہر لمحہ ہر گھڑی بڑھائی جا رہی ہے ۔یہاں پر واضح کرتا
چلوں کہ ڈائریکٹ ٹیکس وہ ہوتا ہے جو اسلامی بھی ہے اور ان صاحب استطاعت
لوگوں سے لیا جاتا ہے جن کی آمدنی ایک غریب شخص سے کئی گنازیادہ ہوتی ہے
لیکن ان ڈائریکٹ ٹیکس سے ہر طبقہ متاثر ہوتا ہے ۔
|