لاٹھی سے ہانکنا
(Tariq Hussain Butt, UAE)
ٹی آر اوز کے جھمیلے میں کئی ہفتوں سے
مصروف رہنے کے بعد پی پی پی نے پارلیمانی کمیٹی سے خود کو علیحدہ کر کے
عدالتی راہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک مستحسن اقدام ہے۔یہ ایک ایسا لا
ئحہ عمل ہے جس میں انتشار کی بجائے آئینی راستے پر عمل پیرائی کا عندیہ مل
رہا ہے۔وطنِ عزیز پچھلی کئی دہائیوں سے سیاسی کشمکش کا شکار رہا ہے اور اسی
کشمکش میں اس نے اپنا ایک بازو بھی علیحدہ کٹوا لیا تھا ۔یہ سچ ہے کہ اس
میں غیروں کی ریشہ دوانیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے جمہوری رویوں کا بھی ہاتھ
تھا ۔اگر ہم میں جمہوری روایات پر پاسداری کی مضبوط روائت موجود ہوتی تو
تحریکِ پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والا اور قیامِ پاکستان
کے لئے بے پناہ قربانیاں دینا والا مشرقی بنگال پاکستان کہ دو لخت کرنے کا
سبب کبھی نہ بنتا ۔ جب انھیں کمتر اور بے وقعت سمجھا گیا تو ان عناصر کو جو
پاکستان کے وجود کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانا چاہتے تھے کھل کر اپنا کھیل
کھیلنے کیلئے ایسی بنیاد میسر آگئی جس پر وہ اپنی خواہشوں کے محل تعمیر کر
سکتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی بنگال کے عوام پاکستان کے نام سے بے
پناہ محبت کرتے تھے کیونکہ پاکستان کے قیام میں ان کا لہو شامل تھا۔۲۳مارچ
۱۹۴۰ کی قرار داد جس میں علیحدہ ریاستوں کی ضمانت دی گئی تھی مشرقی
پاکستان کے قائدین کے اصرار پر ۱۹۴۶ میں مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے سالانہ
اجلاس میں ایک وطن (پاکستان)کے قیام کی قرار داد کی صورت میں پیش کی گئی
تھی جسے متفقہ طور پرسب نے تسلیم کر لیا گیا تھا اور یوں علیحدہ ریاستوں کی
بجائے ایک پاکستان سب کی منزل قرار پایا تھا ۔یہ جوہمارے چند قائدین وقفوں
وقفوں سے پانچ قومیتوں کا نعرہ بلند کرتے رہتے ہیں تو اس کی بنیاد بھی وہی
۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کی قرار داد تھی جس میں آزاد ریاستوں کے قیام کا وعدہ کیا
گیا تھالیکن جب اسی قرار کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے ایک علیحدہ وطن (پاکستان)کی
قرار داد سے بدل دیا تھا تو پھر پانچ قومیتوں کا وجود خود بخود ہی مٹ چکا
تھا اور اس کی جگہ ایک وفاق کے اندر صوبوں کا قیام حتمی فیصلہ قرار پایا
تھا جس کی وجہ سے ان صوبوں کی زبانوں کو قومی زبانوں کی بجائے صوبائی
زبانیں قرار دیا گیا تھا جبکہ اردو پاکستان کی قومی زبان قرار پائی تھی۔اب
قومیوں کی بجائے صوبے ہیں اور پاکستان ایک فیڈریشن ہے۔جس طرح سے فیڈریشن کو
۷دسمبر ۱۹۷۰ کے انتخابات کے بعد شدید خطرات لا حق ہو گئے تھے بالکل اسی
طرح فیڈریشن ایک دفعہ پھر شدید خطرات کی زد میں ہے۔پانامہ لیکس سے شروع
ہونے والا تنازعہ دھیرے دھیرے ملکی سلامتی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ دھشت گردی
نے اس ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ خوف کا ایک آسیب ہے جس نے پوری قوم
کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔امجد فرید صابری کی دھشت گردوں کے ہاتھوں
حالیہ موت نے کئی سوال کھڑے کر دئے ہیں۔دھشت گردوں کی اس کاروائی سے فوج کے
سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے امن قائم کرنے کے دعووں کو شدید زک پہنچی
ہے۔ضربِ عضب نے جس طرح دھشت گردوں کو نیست ونا بود کرنے کا عزم کیا تھا وہ
ابھی تک تشنہ تکمیل ہے ۔ یہ سچ ہے کہ فوجی جوانوں نے اپنی لہو سے وطنِ عزیز
سے محبت کی داستانیں رقم کی ہیں اور اپنی بے پناہ قربانیوں سے اس کے وجودکو
قائم رکھنے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود
ہم اس امن سے کوسوں دور ہیں جس کا خواب ہر پاکستانی اپنی آنکھوں میں سجائے
بیٹھاہے۔شہید ہونے والے پاک وطن کے بیٹے ہیں اور ہمارے ہی جسم کا حصہ ہیں
اور شائدیہی وجہ ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔جو
جان قربان کرتا ہے اسے علم ہوتا ہے کہ وہ کتنی بڑی قربانی دے رہاہے کیونکہ
جان قربا ن کرنا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہو تا ہے۔ میرے وطن کے فوجی
جوان اس مشکل ترین کام کو ہماری آئیندہ آنے والی نسلوں کے لئے سر انجام دے
کر ہمیں سرخرو کر رہے ہیں لہذا ہم ان کی قربانیون کو سلام پیش کرتے ہیں۔
یہ کس نے ہم سے پھر لہو کا خراج مانگا۔،۔ ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سر خرو
کر کے
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ضربِ عضب نے دھشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر
کے انھیں محدود کر دیا تھا لیکن لگتاہے وہ ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ان
کی حالیہ کاروائیاں ان کے متحرک ہونے کی گواہی دے رہی ہیں۔امجد فرید صابری
کی ٹارگٹ کلنگ نے پورے ملک میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی ہے اور لوگ
ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہم دھشت گردوں کو شکست دے سکیں گئے یا
بے رحم موت ہی ہماری آئیندہ نسلوں کا مقدر ہو گی؟امجد فرید صابری کی موت
دھشت گردی کے خلاف ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے کیونکہ اس نے پوری قوم کو ایک بار
پھر یکجا کر دیا ہے۔ آنسوؤں کی لڑیوں کا پیغام یہی ہے کہ ہم دھشت گردوں کا
مکمل صفایا کرنے کے لئے اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔اس میں کوئی دو
رائے نہیں کہ فوج اس آسیب سے ملک و ملت کی جان چھڑانا چاہتی ہے اور دھشت
گردوں کا مکمل صفایا کرنا چاہتی ہے لیکن کچھ سیاسی جماعتوں کے اندر پلنے
والے گروہوں کی حکومتی پشت پناہی اس خواہش کو کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے
دے رہی ۔اگر ہم سیاسی جماعتوں کا بغور جائزہ لیں کو تقریبا ہر سیاسی جماعت
میں عسکری ونگ موجود ہیں جن کا واحد مقصد اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانا
ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم اس میں سرِ فہرست ہے۔پی پی پی کا لیاری گینگ اور مسلم
لیگ (ن) کی پروردہ سپاہِ صحابہ اور اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے بہت سے
دوسرے عسکری ونگ مسلم لیگ (ن) کی پشت پناہی سے قائم و دائم ہیں۔بہر حال ایک
زنجیر ہے جس کے ساتھ بے شمار نام منسلک ہیں جو پاکستان میں دھشت گردوں کا
صفایا کئے جانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ جب تک سیاسی حکومتیں فوج کو مکمل
اختیار نہیں سو نپتیں دھشت گردی کا قلع قمع ممکن نہیں ہے ۔اب کون سا ایسا
قائد ہو گا جو ایسے عناصر کو فوج کی تحویل میں دینے کا خطرہ مول لے جو بعد
میں اسے ہی موردِ الزام ٹھہرا کر پھانسی گھاٹ تک لے جائے ۔ ڈاکٹر عاصم حسین
اور عزیر بلوچ کے حالیہ بیانات اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ایسے
کتنے نام ہیں جو اندر ہی اندر اپنا کام دکھا تے رہتے ہیں اور سیاسی جماعتوں
کی ساکھ کو تباہ کرتے رہتے ہیں لیکن ہر حکومت ان کے خلاف قانونی پیروی سے
اغما ز برتتی ہے کیونکہ اس سے اس کے خود ننگا ہو جانے کے واضح امکانات
موجود ہوتے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر ہم واقعی دھشت گردی کاخاتمہ
چاہتے ہیں تو پھر ہمیں فوج اور سول انتظامیہ کے درمیان جو گہری خلیج قائم
ہو چکی ہے اسے ہر حالت میں پاٹنا ہوگا۔کچھ مفاد پرست لوگ اس خلیج کا فائدہ
اٹھا کر پورے جمہوری نظام کی بساط ہی لپیٹ دینا چاہتے ہیں تا کہ کسی نہ کسی
طرح سے ان کے اقتدار کی راہیں کھل جائیں ۔فوجی قیادت کو شب خوب پر ابھارنے
والے اور جمہوری بساط کو لپیٹ دینے والے عناصر کی آواز دن بدن مضبوط ہوتی
جا رہی ہے کیونکہ ملکی خلفشار ایک ایسی ڈگر پر جا رہا ہے جہاں پر جمہوری
حکومتیں قابو پانے میں بے بس نظر آتی ہیں ۔ کرپشن کی ہوش ربا داستانیں اور
دھشت گردی کی کھلی وارداتیں جمہوری نظام کیلئے مسلسل خطرہ ہیں اور اس خطرے
سے موجودہ جمہوری حکومت کا بچ نکلنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔عوام کو
اپنی حکومت سے امن وامان اور روزگارکی فراہمی کی امید ہوتی ہے لیکن اگر
حکومت ان دو بنیادی عوامل سے ہی اپنے عوام کو محروم رکھنے کی قسم کھا لے تو
پھر جمہوری حکومتوں کے قیام کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔جب دھشت گردی اور
ٹارگٹ کلنگ کا ہر سو راج ہواور لوگوں کو دن دھاڑے بے رحمی سے قتل کیا جاتا
ہو تو پھر ایسی جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کا کس کو افسوس ہو گا؟ہمارا ماضی
بھی اس بات پر گواہ ہے کہ جب جمہوری حکومتوں کا واحد مقصد کرپشن اور دولت
کا حصول قرار پایا تھا تو پھرفوجی شب خون کو روکنا کسی کیلئے ممکن نہیں رہا
تھا۔ اس وقت تو شائد کرپشن اس طرح حدود نا آشنا نہیں ہو ئی تھی جیسی اب ہے
کیونکہ اب تو جسے دیکھو کرپشن کے سمندر میں غوطے کھا رہا ہے۔۔کرپشن جب اس
حد تک ہمارے لہو میں شامل ہو جائے تو پھر قوم ایک ہجوم کی شکل اختیار کر
لیتی ہے جسے آئین و قانون کے زور پر نہیں بلکہ بلکہ لا ٹھی کی طاقت سے ہی
ہانکا جاتا ہے ۔۔،،۔۔ |
|