جب سے پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی راہداری کا
معاہدہ ہوا ہے تب سے دشمن اپنے تمام حربوں کے ساتھ میدان میں ہے اور اس
منصوبے کے خلاف مختلف قسم کے شکوک و شہبات پیدا کیے جا رہے ہیں ۔ پہلے
صوبوں کے درمیان اختلافات پیدا کیے گئے اب دشمن اس منصوبے کی پاکستان کے
لیے افادیت کے بارے بھی سوال اُٹھانے کی کوشش کر رہا ہے ساتھ ہی وہ یہ بھی
باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ منصوبہ قابل عمل نہیں اور چین اس پر عمل
نہیں کرے گا اور ایساکرنے کے لیے وہ مختلف اطراف سے مختلف لوگوں کو استعمال
کر رہا ہے مثال کے طور پر ’’سیتھ اولڈ سبکسن‘‘ نے اپنے مضمون میں بہت سارے
خدشات کو بہت سارے لوگوں کے زبانی بیان کیا ہے۔امریکہ میں پاکستان کے سابق
سفیر حسین حقانی چونکہ آج کل فارغ ہیں لہٰذا اُنہوں نے اس منصوبے کو چنا
اور اس کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی اور اس کو ایک ناکام منصوبہ ثابت
کرنے کی کوشش کی۔عاصمہ جہانگیر کو تو ظاہر ہے کہ اس منصوبے میں سو ہزار
کیڑے نظر آئیں گے اور وہ آرہے ہیں اسی ذہنیت کے کچھ دوسرے لوگ بھی میدان
میں ہیں جو اس منصوبے کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے میں مصروف ہیں۔در اصل
پاکستان اور چین کی دوستی اور دوستانہ منصوبوں سے دنیا کے کچھ ممالک شدید
طور پر خائف ہیں جن میں اگر مغربی ممالک بھی شامل ہیں تو سب سے زیادہ خوف
زدہ بھارت ہے جس نے اس کے خلاف فوری طور پر عملی اقدامات کیے اور اس معاہدے
پر دستخط ہونے سے بہت پہلے جب گوارد کی بندرگاہ پر چین کی مدد سے کام شروع
کیا گیا جو دنیا کی تیل کی مرکزی گزر گاہ ہرمزسے صرف 400 سو کلو میٹر کے فا
صلے پر ہے تو بھارت نے ایران کی بندر گا چا بہار کو گوادر کے مقابلے پر
ترقی دینے کا منصوبہ بنایا اُس نے اس بندرگاہ سے ایک سڑک افغانستان تک
تعمیر کی جسے دل آرام زرنج روڈ کہا جاتا ہے یہ سڑک زابل تک جاتی ہے اور
زابل چا بہار سے بذریعہ سڑک منسلک ہے یوں دراصل اس بندرگاہ کو وسط ایشیا سے
براستہ افغانستان ملادیاگیا۔ایک اور منصوبہ 900کلو میٹر ریلوے لائن ہے جو
چابہار سے شروع ہو کر افغانستان کے صوبے بامیان تک پہنچے گی بامیان میں
موجود لوہے کے ذخائر پر بھی یقیناًاُس کی نظر ہو گی تاہم مقصد ایران کے
راستے افغانستان تک اپنا تجارتی مال پہنچانا ہے اور اسی راستے وسط ایشیائی
ریاستوں تک رسائی حاصل کر نا ہے۔یہ سب تو ہے لیکن بھارت کا اصل مقصد گوادر
کی بندرگا ہ کو نقصان پہنچانا ہے اور اب جب پاک چین راہداری منصوبے پر
دستخط ہو چکے ہیں تو اس کے خلاف باقاعدہ طور پر پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا
ہے اور اس میں پاکستان سے بھی آوازیں شامل ہو گئیں یہ وہ لوگ ہیں جو بڑی
آسانی سے پاکستان مخالف بیانات دے دیتے ہیں۔ دراصل ایک تو اس منصوبے کے حجم
اور اس سے ہونے والے متوقع معاشی فائدے نے ان لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے
اور دوسرے اگر اس منصوبے پر درست عملدرآمدہوا اور اس کے طے شدہ پروجیکٹس
ایمانداری سے مکمل کیے گئے اور پاکستان تیل والے ملکوں ،چین،وسطی ایشیا اور
اسی راستے آگے یورپ تک کی گزر گاہ بن گیا تو خطے میں طاقت کا توازن بھی بدل
سکتا ہے۔گوادر سے سینکیانگ تک یہ گزر گاہ جس حجم اور مقدار کی تجارت کرے گی
اُس سے پاکستان کے جی ڈی پی میں 2030تک 15%تک اضافہ متوقع ہے۔اگر چہ بھارت
نے چا بہار کے لیے 85ملین ڈالرمنظور کیے ہیں لیکن اپنے اس منصوبے کو عملی
جامہ پہنانے کے بعدبھی بھارت اس سے وہ تجارت نہیں کر سکتا جو گوادر سے ہو
گی کیونکہ اول تو خود بھارت کی معیشت کو چین کے برابر آنے کے لیے پچاس سال
درکار ہیں جو ضروری نہیں کہ ہو بھی جائے اس لیے اگر وہ اپنے معاملات پر
توجہ دے تو شاید اس کے لیے زیادہ بہتر ہو گا اور اگر اپنے کارندوں کو اس
پروپیگنڈے کے لیے استعمال نہ کرے تو بھی اس کے حق میں بہتر ہو گااور یہ
کارندے جن میں زیادہ تر پاکستانی ہیں اور امریکہ اور بھارت کے لیے زیادہ
خوش ہو کراور زیادہ تندہی سے کام کرتے ہیں وہ اگر اپنی مٹی کا حق ادا کرنے
کی کوشش کریں تو بھی اُن کے حق میں زیادہ اچھا ہو گا۔حسین حقانی نے اگر
پاکستان کے لیے کچھ اچھا نہیں کیا نہ ہی اس نے کسی وفاداری کا ثبوت دیا ہے
تو انہیں پاکستان کے معاملات میں اپنی رائے دینے کا حق بھی نہیں ہے۔آزادی
اظہار کے نام پر اپنے ہی ملک کے خلاف بولنا کو ئی آزادی نہیں دراصل یہ
دوسری طاقتوں کی پابندی کی وجہ سے ہوتا ہے۔خامیوں اور برائیوں کی نشاندہی
اور چیز ہے لیکن اپنے ملک کے فائدے کو داؤ پر لگانااور اس کی ترقی کو روکنے
کی سازشوں میں دشمن کا شریک ہو نا صاف صاف ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے
اور ہمارے خود کو نا بغہ اور لیڈر کہلانے والے چند لوگ اگر یہ کام چھوڑ دیں
تو انہیں بین الاقوامی طور پر ملنے والے ایوارڈز، انعامات، شہرت و عزت سب
ختم ہو جائے گی لیکن وہ اپنے ملک کی خاطر یہ قیمت ادا کرنے کو کسی طور تیار
نہیں کیونکہ یہ سب انہوں نے اسی ملک کی قیمت پر ہی کمایا ہے۔ بہر حال خود
ہمارے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کو ترقی کی بجائے تنازعات کی وجہ بنانا چھوڑ
دیا جائے تو تب ہی ہم ترقی کے زینے پر چڑھ سکتے ہیں ورنہ کوئی دوسرا ہماری
اُنگلی پکڑ کر چلانے سے ہمیں کسی مقام پرنہیں پہنچا سکتا۔ |