کچھ ہی دن ہوئے‘ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے اٹھ کر
دروازہ کھولا۔ دو بڑے ٹوہری آدمی دروازے پر کھڑے تھے۔
انہوں نے تقریبا با بارعب آواز میں کہا: بڑے میاں‘ مقصود حسنی صاحب گھر پر
ہیں۔
میں نے جھک کر عرض کیا: حضور تشریف رکھیے اور خود اندر چلا گیا۔
اندر بیٹھی ایک بوڑھی خاتون سے پوچھا: بڑی بی‘ مقصود حسنی صاحب گھر پر ہیں۔
بڑی بی نے گھور کر میری طرف دیکھا‘ پھر یہ گل افشانی فرمائی: تمہارا دماغ
تو نہیں چل گیا۔
اصل میں وہ لفظ بڑی بی پر سیخ پا ہوئی تھی۔ میرا دماغ نہیں چلا؛ میرے ساتھ
اتنا فرینک ہونے کی ضرورت نہیں‘ میں ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں‘ جو پوچھا ہے‘
پہلے اس کا جواب دو۔ بیٹھک میں بارعب شخصیات تشریف فرما ہیں‘ جو حسنی صاحب
سے ملنے کی خواہش مند ہیں۔
اب کہ اسے یقین ہو گیا کہ میں یادداشت کھو بیٹھا ہوں۔ زور زور سے اور زار و
قطار رونے لگی۔ اس کی آواز کافی بلند تھی۔ میں نے جعلی حیرت دکھاتے ہوئے
کہا: بڑی بی کیا ہو گیا ہے‘ میں نے تو آپ کو کچھ نہیں کہا۔ آپ خواہ مخواہ
رونے لگی ہیں۔ اس کی آواز اور بلند ہو گئی۔ میں نے دوبارہ سے کہا: رو بعد
میں لینا‘ پہلے میرے سوال کا جواب دے دیں۔
تم کون ہو‘ خود اپنا ہی پوچھ رہے ہو۔
اچھا تو میں ہی مقصود حسنی ہوں۔ پھر میں نے اپنی بساط اور اوقات کے مطابق
قہقہ لگایا اور واپس بیھٹک میں آ گیا۔
جب میں دوبارہ سے بیٹھک میں آ گیا‘ تو انہوں نے میری جانب سوالیہ نطروں سے
دیکھا۔ میں فخریہ سا مسکرایا‘ کیوں کہ مجھے کامل یقین ہو گیا تھا کہ میں ہی
مقصود حسنی ہوں۔ بظاہر معمولی بات ہے‘ لیکن اپنی اصل میں‘ یہ معمولی بات
نہیں۔ شخص‘ ہزاروں سال سے اپنی کھوج میں ہے۔ اس کی شخصیت تو شاہوں کی تجوری
میں مقید چلی آتی ہے۔ بلا شبہ یہ خوش نصیبی کی بات تھی‘ کہ مجھے خود کو
جاننے میں‘ ہزاروں سال نہیں لگے۔
پھر میں نے ان سے کہا‘ جناب میں ہی مقصود حسنی ہوں۔
ہر دو حضرات نے میری طرف دیکھا۔
سچ کہہ رہا ہوں‘ میں ہی اصلی مقصود حسنی ہوں۔ وہ بھی سچے تھے کہ آج اصل اور
نقل کی پہچان‘ تقریبا دم توڑ گئی ہے۔ انہوں نے پوچھا: یہ آپ پہلے ہی بتا
سکتے تھے۔ میں تصدیق کرنے گیا تھا۔ بلکھڑ سا بندہ ہوں‘ بیگم نے تصدیق کر دی
ہے کہ تم ہی مطلوبہ شخص ہو۔ انہیں میرے انداز اور طور طریقے پر حیرت ہوئی۔
ہونی بھی چاہیے تھی۔ بیشک یہ خبطیوں کی یا کی سی حرکت تھی۔
سر سید احمد خان افسر تھے‘ وہ بھی حاضر سروس۔ میں حاضر یا غیرحاضر سروس
افسر نہیں تھا‘ جو لباس بدل کر آتا۔ اسی پرانے لباس میں واپس آ گیا تھا۔
سر سید احمد خاں کا بہت پہلے سے ذکر سنتا آ رہا تھا‘ حیران تھا کہ وہ بیک
وقت سید بھی ہیں اور خان بھی۔ جب بڑا ہوا ہوش آیا‘ ہوش سے مراد عقل نہ لی
جائے۔ عقل آئی ہوتی تو اس جہنمیوں کی آئی جی سے شادی کیوں کرتا۔ نومبر میں
اسے گرمی لگتی ہے۔ بجلی چلی جائے تو میرا اگلا پچھلا سب پن کر رکھ دیتی ہے۔
انہوں نے خان بہادری کے اظہار کے لیے‘ نام کے ساتھ لفظ خاں کا لاحقہ سجا
کر‘ سید ذات کو لیک لگائی۔ یہ ہی ایک خطاب نہیں‘ انہیں اور بھی چٹا بہادر
کی طرف اسناد ملیں۔ کتنی عجیب بات ہے‘ ہم سچ بول ہی نہیں سکتے‘ بل کہ کوئی
بھی بول نہیں سکتا۔ جو سچ بولے گا‘ پولے کھائے گا۔ سچ بولنے والے‘ ہمیشہ سے
پولے کھاتے آ رہے ہیں۔
چٹا ساب‘ بہادر کب تھا‘ یہ لفظ محض ٹی سی کی غرض سے‘ اضافی استعمال میں کیا
جاتا رہا ہے۔ بہادری کی بات ہے‘ تو سکندر ایسا یودھا‘ یہاں سے چھتر کھا کر
گیا‘ چٹا ساب کیا تھا۔ وہ تو برا ہو دھرتی کے غداروں کا یا بٰیڑا غرق ہو‘
چٹا ساب کی عیاری کا۔ دھرتی کے غداروں کا شروع ہی سے یہ ہی چالا رہا ہے۔
یہاں کے مقامی سربراہان‘ نالائق اور عیاش رہے ہیں‘ ورنہ برصغر کے لوگ بلا
کے ذہین اور محنتی ہیں۔ نالائق اور عیاش قیادت کے باعث نقصان کم زور عوام
کو ہوتا رہا ہے۔ تگڑا ہی تحت پر بیٹھتا آیا ہے‘ جمہوریت یا اور کوئی نطام‘
محض دیکھاوا ہی رہے ہیں۔
دوسرا میں بھی تو پرانا اور بوسیدہ ہو چکا ہوں۔ اب کوئی پہچان لے تو اس کی
مہربانی‘ ورنہ گلہ شکوہ کیسا اور کیوں۔ یہ شو شا اور ٹہوہر ٹپا امیر‘ افسر
اور چلتے پرزوں کے لیے ضروری ہے۔ گریب گربا اپنی اصل میں‘ ہی بھلے لگتے
ہیں۔ اپنی عزت کی برقراری کے لیے دانستہ یہ بات نہیں کی‘ کہ ان میں سے ایک
کے منہ سے نکل گیا تھا: ایسے ہوتے ہیں مقصود حسنی۔ ایسی باتیں اس لیے چھوڑ
دیتے ہیں‘ آخر بھرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
میں اپنی بات نہیں کرتا‘ میں بےچارا کیا ہوں‘ یہاں سوچ سے بھی بڑے لوگ ہو
گزرے ہیں لیکن صاحب جاہ کی پہچان میں نہیں آ سکے۔ ماڑے‘ ڈر کے مارے کسک بھی
نہیں سکے۔ تگڑا اپنے سوا‘ کسی کو تگڑا نہیں سمجھتا‘ اوپر سے پھٹا پرانا اور
گریب ہو۔ رشوت نہیں لے گا‘ کم زور کا حق نہیں دبائے گا‘ لوٹ کھسوٹ کا بازار
گرم نہیں کرے گا‘ تو تگڑا کیسے ہو گا۔ تگڑا نہیں ہو گا تو عزت کیسے پائے
گا۔ یہ نقطہ بڑی دیر بعد میری سمجھ میں آیا ہے۔
یقین مانیے‘ اب مجھے اپنے ماڑے ہونے کا رائی بھر دکھ نہیں۔ میں سوا لاکھ
لعنت بھیجتا ہوں‘ ایسے تگڑے ہونے پر‘ دو نمبر کی جی حضوری سے‘ یہ رنگ روپ
بھلا۔ میں اپنے لیے سید کے ساتھ خان کا سرکاری لاحقہ لگانے سے‘ بےلاحقی
زندگی کو ہزار گنا اچھا اور بہتر خیال کرتا ہوں۔ |