"ارمغانِ امجدی" پر ایک نظر

معروف مصنف و شاعر و محقق جناب ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔصاحب رضوی کا ارمغانِ امجدی پر تبصرہ ڈاکٹر مشاہدرضوی آن لائن ٹیم
حضرت مولانا مفتی مشتاق احمدقادری مد ظلہٗ العالی جامعہ اہل سنت صادق العلوم ، ناسک کے مسندِ درس و افتا کی زینت ہیں ۔ ایک اچھے عالم ، مفتی ، خطیب ، واعظ اور مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین نثر نگار اور قادرالکلام شاعر بھی ہیں ۔ 2008ء میں "نغماتِ قادری" کے ذریعہ میدانِ شعر اودب میں نعت و منقبت اور نظموں کے ایک خوب صورت اور فکر و آگہی سے بھرپور شعری مجموعہ کے ذریعے اپنا مقام بنانے میں کام یاب ہوچکے ہیں ۔ موصوف درس و تدریس، افتا اور امامت و خطابت کی ذمہ داریوں کو بہ حُسن و خوبی نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنی کارگاہِ فکر میں نعت و مناقب، سلام و منظومات کے اشعار بہتر طور پر ڈھالنے میں بے طرح کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ "نغماتِ قادری " کے حوالے سے اپنی نسبتِ قادریت کے اظہاریے کے بعد اب مفتی مشتاق احمد قادری کا ذوقِ شعری "ارمغانِ امجدی" کے ذریعہ اپنی نسبتِ امجدیت کا والہانہ بیان دنیاے ادب کوتحفہ دینے کے لیے بالکل تیار ہے۔

"نغماتِ قادری" اور "ارمغانِ امجدی " کے مطالعے کے بعد "شعرِ مرا بمدرسہ کہ برد؟"کی صداقت کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے ۔ اردو شاعری کو مدارس کے پروردہ علما نے کس طرح لسانیات ، ادبیات اور شعریات سے مالامال کیا ہے ، صرف اس موضوع پر اگر قلم اٹھایا جائے تو ایک بسیط مقالہ تیار ہوسکتا ہے ۔ امام احمدرضا ، استاذِ زمن مولانا حسن رضا ، مولانا جمیل الرحمن ،محدث اعظم ہند ،صدرالافاضل، مفتی اعظم، برہانِ ملت،سید آلِ مصطفیٰ سید میاں، مولوی اسماعیل میرٹھی، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ضیا ء القادری بدایونی، وغیرہ وغیرہ کہاں تک نام لیا جائے یہ سب مدارسِ اسلامیہ کے خوشہ چین ہی ہیں جنھوں نے شعر و ادب کو اپنی اعلیٰ فکری صلاحیتوں سے خوب خوب نوازا۔ ہمارے ناقدین ادب کو علما کے شعری اثاثے اور دواوین پر بھی تو جہ دینے کی ضرورت ہے۔

مفتی مشتاق احمد قادری کے پیش نظر مجموعۂ کلام" ارمغانِ امجدی" میں حمد ونعت، مناقب و سلام ، قطعاتِ تاریخ ،تضمین، دعائیہ نظم اور دیگر منظومات کے علاوہ بعض عربی اشعار کے منظوم اردو تراجم بھی شامل ہیں ۔

اس مجموعہ میں شامل نعتیہ کلام نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت و عقیدت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک خوب صورت گل دستہ اور مناقب کے باب میں اپنے ممدوحین کے تئیں شاعر کی محتاط محبت و ارادت کا اظہاریہ ہے ۔ جس کے ایک ایک شعر سے شاعر کا والہانہ خلوص، فداکارانہ عقیدت ، شریعتِ مطہرہ کا التزام ، الفاظ کا مناسب رکھ رکھاو اور شعریت کے حُسن کی جھلکیاں صاف طور پر نماں نظر آتی ہیں۔ مفتی مشتاق احمد قادری نے اپنی تقدیسی شاعری کو جن لفظیات سے آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے ، اُس میں دل کشی بھی ہے اور تازگی و طرفگی بھی۔"نغماتِ امجدی" سے چند لفظی ترکیبیں ملاحظہ کریں تاکہ شاعر کی زباں دانی کا ایک ہلکا سا اشاریہ سامنے آجائے :
’’حیطۂ عقل /اَفلاکِ تقرّب/خوشبوے بدن / دماغِ گُلاب / نسیمِ خوشی / ستم کے شعلے / مکانِ احسان / اشجارِ ثنا / شفقت کے نور / جبین ظلمت / گلشن آیات / عروجِ قدرِ مسلسل / چشمانِ ایماں / گرویدگی کا خمار / خنک شام /تمغۂ اوج / جوہرِ عشق وایماں/انعامِ تشنگی/ تیرِ شقاوت/درختِ آئینِ وحدت/زوالِ آئین و دستور/ فردِ یکتاے رحماں / رشکِ طور وغیرہ وغیر ہ۔
"ارمغانِ امجدی" میں شامل جملہ کلام کا جائزہ لینے پر یہ مترشح ہوتا ہے کہ شاعرِ موصوف نے ہر صنف کا استعمال اس کے آداب اور تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کیا ہے ۔ نعت کے جملہ لوازمات کی پاس داری ان کے یہاں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے ۔ چوں کہ موصوف نہ صرف ایک بہترین عالم ہیں بل کہ ایک مشّاق مفتی بھی ہیں اس وجہ سے ان کے کلام میں افراط و تفریط اور بے جاخیال آرائیاں نظر نہیں آتیں۔ موضوع روایات اور من گھڑت واقعات کے بیان سے بھی ان کا کلام یک سر پاک و منزہ ہے۔ حسبِ روایت "ارمغانِ امجدی" کا دروازۂ سخن بھی حمدِ باری سے وا ہوتا ہے ۔ اس مجموعۂ کلام میں شامل حمد باری صنعتِ توشیح پر مبنی ہے۔ فی زمانہ سہل انگاری کے سبب اکثر شعرا صنائع و بدائع کے استعمال سے صرفِ نظر کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مفتی مشتاق احمد قادری کے موے قلم سے نکلی ہو ئی اس حمدیہ نظم کے علاوہ مزید 5 منظومات بھی صنعتِ توشیح میں "ارمغانِ امجدی " کے صفحات پر جلوہ گر ہیں۔توشیح اُس صنعت کو کہتے ہیں کہ نظم کے ہر مصرع کے شروع میں آنے والے حرف کو ملانے سے کوئی عبارت ، نام یا لفظ بن جائے۔ ارمغانِ امجدی" میں شامل ان منظومات کے مطالعےسے قارئین بخوبی اس صنعت سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

حمد باری کے بعد شاعر کی عقیدت و محبت کا اظہاریہ بارگاہِ نبوی علیۃ التحیۃ والثناء کی طرف پرواز کرتا ہے ۔ نعت گوئی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں یہ فن انھیں خوش نصیب حضرات کے حصے میں آتاہے جن پر اللہ کا خاص فضل اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ التفات ہوجاتی ہے ۔ بہ قول سید محمد اشرف میاں قادری برکاتی مارہروی:" فنِ نعت کسبی نہیں وہبی ہے ،یہ صرف عطاے الٰہی سے حاصل ہوتاہے۔ (مکتوب بنام راقم23 ستمبر2001ء) مفتی مشتاق احمد قادری انھیں خوش نصیب افراد میں سے ایک ہیں۔ آپ کی نعتوں میں عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عقیدت و احترامِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خوب صورت روشنیاںپھوٹتی ہیں اس سے تاریک دلوںمیں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جگمگاہٹ پیدا ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ آپ کے کلام میں عقیدت کے ساتھ ساتھ عقیدے کا بیان بھی مکمل طور پرموجود ہے اورساتھ ہی ساتھ عقائدِ باطلہ کی تردید بھی، کہ یہ بھی نعت کے موضوعات ہی کا ایک حصہ ہے۔ "ارمغانِ امجدی" سے چند اشعار خاطر نشین کیجیے ؂
اشجارِ ثنا اپنی زبانوں پہ لگا کر
ہم فیضِ رسالت کا ثمر ڈھونڈ رہے ہیں
شباب پر تھے ستم کے شعلے مکانِ احسان جل رہے تھے
تو آبِ وحد ت سے سرد کرنے جہاں میں خیرالانام آئے
دوجہاں جگمگانے لگے
جب و ہ تشریف لانے لگے
دوریاں ، نفرتیں ، فاصلے
نور میںسب نہانے لگے
اُنس و الفت وفا کے دئیے
ظلمتوں کو ستانے لگے
اُن سے مشتاق جنّ و بشر
تمغۂ اوج پانے لگے

مفتی مشتاق احمد قادری بنیادی طور پر امام احمد رضا محدث بریلوی کے نظریات کے پیروکار اور اس کے مبلغ و داعی ہیں۔اور آپ کی نعتیہ شاعری سے کافی متاثر بھی۔ ایک مقام پر کیا خوب کہا ہے ؂
موج زن سیکڑوں بحرِ نعتِ نبی
اعلیٰ حضرت بریلی کے سینے میں ہیں

اس مجموعے میں شامل ایک نعت امام احمد رضا کے ایک مشہورشعر کے مصرعۂ اولیٰ پر ہے جو فکر و فن اور جذبہ وتخیل کے اعتبار سے لائق تحسین ہے ؂
پیدا کوئی حضور کے جیسا ہوا نہیں
اُن سے بڑا مقام کسی کو ملا نہیں
ان کو تُو اپنے عشق کا کعبہ بنا کے دیکھ
"اے شوقِ دل یہ سجدہ گر اُن کو روا نہیں"

شعری اظہار میں تضمین ایک خاصا مشکل کام ہے ۔ کیوں کہ شاعر جس شاعر کے کلام پر تضمین کررہا ہے ۔ اس کی لفظیات ، استعارات ،اسلوب اور موضوعات سے تضمینی اشعار میں ہم آہنگی ضروری ہے وگرنہ ناقدِ فن تضمین نگار کی محنت کو مخمل میں ٹاٹ کی پیوند کاری سے تعبیر کرنے میں ذرّہ بھر تامل نہیں کرے گا۔ مفتی مشتاق احمد قادری کے پیش نظر مجموعۂ کلام میں ایک تضمین حضرت سعدی شیرازی علیہ الرحمہ کےشہرۂ آفاق بند "بلغ العلیٰ بکمالہٖ" پر اور 6تضمینی کلام حسان الہند امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی نعتوں پر ہیں۔مفتی مشتاق قادری کی کارگاہِ فکر میں ڈھلی ہوئی تضمینوں کے مطالعہ کے بعد بے ساختہ سبحان اللہ !! کی داد نہاں خانۂ دل سے ابھرتی ہے ۔ موصوف نے بڑی فن کارانہ مہارت اور شاعرانہ حُسن و خوبی کے ساتھ تضمین نگاری کا حق اداکرنے کی نہ صرف بھرپور کوشش کی ہےبل کہ اس میں کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں ۔"بلغ العلیٰ بکمالہٖ" اس مصرع پر تضمین ملاحظہ کیجیے ؂
قسمت جگی ہے عرش کی
سطحِ فلک ہے فرش سی
طلب بجوشِ دنا بڑھی
ساعت لقا کی آگئی
ذاتِ حق سے نظر ملی
"بلغ العلیٰ بکمالہٖ"

امام احمد رضا کی نعتوں پر لکھی گئی تضمینوں سے چند منتخب بند نشانِ خاطر کرتے ہوئے تضمین نگار کی علمیت اور شعری و فنی لیاقتوں کوسلام کیجیے ؂
ضعفِ ایمانی کو رخصت کیجیے
نافرِ آقا سے نفرت کیجیے
الاشداء سے حجت کیجیے
"دشمنِ احمد پہ شدت کیجیے
ملحدوں کی کیا مروت کیجیے"
خانۂ کعبہ کی عظمت کا مطاف
خوب چشمانِ بصیرت پر ہے صاف
کس لیے پھر برزباں عرض معاف
"بے خودی میں سجدۂ در یا طواف
جو کیا اچھا کیا پھر تجھ کو کیا"
۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے آلام کس کو بتلاؤں
کس سے خیرات شفا کی پاؤں
نام تیرا ہی زباں پر لاؤں
"میرے عیسیٰ تیرے صدقے جاؤں
طَور بے طَور ہیں بیماروں کے"
۔۔۔۔۔۔۔
ہے کہیں یٰسٓ کہیں ہے والضحیٰ
اور ہے واللیل در زلفِ دوتا
مرتبہ ایسا عظیم الشاں ملا
"حیّ باقی کرتا ہے جس کی ثنا
مرتے دم تک اس کی مدحت کیجیے"
۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھتے اٹھتے نبی کانام لو
عقل کے بازو سے اپنا کام لو
خالی دامن بھر کےصبح و شام لو
"سائلو! دامن سخی کا تھام لو
کچھ نہ کچھ انعام ہوہی جائے گا"

"ارمغانِ امجدی " میں نعتیہ کلام کی بہ نسبت مناقب کی تعداد زیادہ ہے ۔ اس کی وجہ میر ےنزدیک یہ ہوسکتی ہے کہ جامعہ اہل سنت صادق العلوم میں بزرگانِ دین کے اعراس کے موقع پر منعقدہ محافل کے لیے مفتی صاحب نے یہ منقبتیں تحریر کی ہوں گی اور جسے ان کے تلامذہ نےگنگنائے ہوں گے۔ بہ ہرکیف! یہ منقبتیں شاعر کی اپنے ممدوح کے تئیں والہانہ لیکن محتاط عقیدت و وارفتگی کا ایک خوب صورت گل دستہ اور بے پناہ خلوص و محبت کی آئینہ دار ہیں ۔ کہیں بھی اغراق و غلو کا شائبہ نظر نہیں آتا ۔ موصوف نے بزرگانِ دین کے مراتب و مناصب کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنا نذرانۂ محبت بڑی کامیابی سے شعر ی و فنی محاسن کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جن میں ترکیب سازی ، پیکر تراشی، استعارات، اختصار، صنائع لفظی و معنوی اور دیگر شعری محاسن موجود ہیں۔ حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ،حضرت سیدنا غوث اعظم ، حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز ، حضرت سیدنا مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی، حضرت صدرالشریعہ ، حضرت مفتیِ اعظم ، حضرت محدث اعظم ، حضرت مجاہدِ ملت ، حضرت سرکارِ کلاں ، حضرت زینت الاتقیا مفتی زین الدین نعیمی علیہم الرحمۃ کی شان میں لکھی گئی منقبتیں اس مجموعے میں شامل ہیں۔ ان مناقب کے علاوہ دو قطعۂ تاریخ بروفات حضرت زینت الاتقیا مفتی زین الدین نعیمی اشرفی اور حضرت مولانا حافظ محمد فیضان رضا "ارمغانِ امجدی" کی زینت بنے ہوئے ہیں۔علاوہ ازیں نظموںمیں جبّہ شریف ، ٹیپو سلطان ، طنزیہ کلام ، نظمِ جامعہ اہل سنت صادق العلوم ناسک، وغیرہ بھی لائق مطالعہ ہیں ۔ مجموعہ کے اخیر میں شامل دعائیہ نظم بڑی متاثر کُن اور شاعرِ محترم کی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں مخلصانہ محبت و عقیدت کا خوب صورت اشاریہ ہے۔ بارگاہِ رب العزت جل و عُلا میں دعا کا یہ انداز یقیناً ہر خوش عقیدہ مسلمان کے دل کی آوازیں ہیں ؂
وقفِ نعتِ حضور کر یارب
زندگی رشکِ طور کر یارب
ہر سخن نعت کا بنے عنواں
ایسا شرحِ صدور کر یارب
شاہِ عالم کو جو نہیں بھاتی
ایسی عادت سے دور کر یارب
عشقِ طیبہ پہ جن سے آنچ آئے
ہم کو اُن سے نفور کر یارب

راقم نے مناقب اور نظموں کے اشعار بہ طور مثال پیش کرنے سے اس لیے گریز کیا ہے کہ آپ براہ راست"ارمغانِ امجدی " کا مطالعہ کریں اور حضرت مفتی مشتاق احمد قادری کی شاعرانہ ریاضتوں کو سلام پیش کریں ۔

ناچیز بارگاہِ رب العزت میں رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل دعا گو ہے کہ اللہ رب العزت حضرت مفتی مشتاق احمد قاری صاحب کی اس کاوش کو شرف قبول بخشے اور ان کے لیے توشہ آخرت بنائے
(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم )
 
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646654 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More