سحر وافطار (لغات واصطلاحات)

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور سحر وإفطار
سوال: ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پچھلے کئی سالوں سے سحر وإفطار کا پروگرام کرتے ہیں،ان کو دیکھ کر مختلف چینلوں پر اس طرح کی نشریات ہوتی ہیں،آپ اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟( جاوید الرحمن خٹک،کراچی)۔
جواب:حقیقت یہ ہے کہ ہماری دانست میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے ان پروگراموں سے إفطار وسحر کو خوب متعارف کرایا،ایک اسلامی ملک میں اس طرح کی نشریات کا اہتمام بہت ضروری تھا،جسے ڈاکٹر عامر نے فرضِ کفایہ سمجھ کر نبہایا،برگر فیملیز میں رمضان اور اس سے متعلقہ عبادٍات کو اجاگر کرایا،ان کے پروگرام سے روزہ،سحری اور إفطار کو ان لوگوں میں پذیرائی ملی ،جو ان مبارک لمحات کی عبادتوں اور ریاضتوں سے کماحقہ واقف نہیں تھے،اس مبارک ماہ میں ایک اسلامی کلچر یا روایت کو اتنے بڑے پیمانے پرمشتہر کرنے کا کریڈٹ ان ہی کو جاتاہے،اسی کے ذریعے انہوں نے لاتعداد بندگانِ خدا کو رب العالمین اور رحمۃ للعالمینﷺ سے ملایا،نیز عالم ٓن لائن کے ذریعے سے بھی انہوں نے ہر مکتبۂ فکرکےعلماء کو ٹی وی کی وساطت سے عوام کے ساتھ جوڑدیا،ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر تنگ نظری کا کوئی لیبل نہیں لگایا،ان کو نبی اکرم ﷺ ،ازواجِ مطہرات،آل رسولﷺ صحابہ ٔکرامؓ اور حرمین شریفین سے بے پناہ محبت ہے،وہ ان کاہی گُن گاتاہے،وہ مسلکوں کے بکھیڑوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں،اس کے مزاج میں پیارہی پیار اور محبت ہے،ان کادرس قرآن بھی کسی نہ کسی تفسیر کے تناظر میں ہوتاہے،ان کی قوتِ گویائی اور ان کے سٹمنے نے اُن کے پروگراموں میں رونق دوبالا کی ہوئی ہے،عربی زبان وادب میں ان کی رغبت اور کوشش بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے،ان کے لئے اگر نیک لوگ دعائیں کریں،تو وہ اس میدان میں مزید بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں،وہ ایک مثالی محنتی شخص ہیں،اسی لئےان کی بات سنی جاتی ہے،کروڑوں لوگ ان سے مستفید ہورہے ہیں،سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے آپ کو ہماری طرح شیخ الإسلام یا عقلِ کل نہیں سمجھتے ،بلکہ برملا وہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ میں تو ایک طالب ِ علم ہوں،یہی وجہ ہے ‘‘العلم من المھد إلیٰ اللحد’’کو سامنے رکھ کر وہ سیکھتے ہوئے اَپ گریڈہوتے جارہے ہیں ،میری دعاء ہے کہ باری تعالیٰ انہیں استقامت علیٰ الدین وفی الدین وللدین نصیب فرمائے۔

سوال: سحر وإفطار کے بارے میں ذرہ تفصیل سے سمجھایئے گا۔(عبد اللطیف معتصم، کراچی)۔
سحری یا سحور :ایک اسلامی اصطلاح ہے جس میں مسلمان روزہ رکھنے کے لیے فجر سے قبل کھانا کھاتے ہیں۔ مختلف ممالک میں انتہائے سحور کا وقت مختلف ہے۔ سحری کھانا مستحب ہے، اگر نہ کھائی تب بھی روزہ ہوجائے گا۔
إفطاری: رمضان میں غروب آفتاب کے فوری بعد روزہ داروں کا کھانا پینا، یا کھانے پینے کے وقت کا شروع ہونا، وقت افطار کہلاتا ہے۔روزے کے لئے سحری کھانا مستحب اور باعثِ برکت ہے،اس سے روزے میں قوّت رہتی ہے۔ اور سحری کھاکر یہ دُعا پڑھنی چاہئے: “وبصوم غد نویت من شھر رمضان” لیکن اگر کسی کو یہ دُعا یاد نہ ہو، تب بھی روزے کی دِل سے نیت کرلینا کافی ہے۔

اگر آپ نے صبحِ صادق سے لے کر غروب تک کچھ نہیں کھایا پیا اور گیارہ بجے (یعنی شرعی نصف النہار) سے پہلے روزے کی نیت کرلی تو آپ کا روزہ صحیح ہے، قضا کی ضرورت نہیں۔

سحری میں دیر اور اِفطاری میں جلدی کرنی چاہئے۔نیزسورج غروب ہونے کے بعد روزہ اِفطار کرنے میں تأخیر نہیں کرنی چاہئے، آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: “میری اُمت خیر پر رہے گی، جب تک سحری کھانے میں تأخیر اور (سورج غروب ہونے کے بعد) روزہ اِفطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔” (مسندِ احمد ج:۵ص:۱۷۲)۔ایک اور حدیث میں ہے: “لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ روزہ اِفطار کرنے میں جلدی کریں گے۔” (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰة ص:۱۷۵)۔ایک اور حدیث میں ہے: “اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو اِفطار میں جلدی کرتے ہیں۔”(ترمذی، مشکوٰة ص:۱۷۵)۔ایک اور حدیث میں ہے: “دین ہمیشہ غالب رہے گا، جب تک کہ لوگ اِفطار میں جلدی کریں گے، کیونکہ یہود و نصاریٰ تأخیر کرتے ہیں۔”(ابوداوٴد، ابنِ ماجہ، مشکوٰة ص:۱۷۵)۔مگر یہ ضروری ہے کہ سورج کے غروب ہوجانے کا یقین ہوجائے تب روزہ کھولنا چاہئے۔کیونکہ روزہ صبحِ صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے، پس صبحِ صادق سے پہلے پہلے کھانے پینے کی اجازت ہے، اگر صبحِ صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ نہیں ہوگا۔

سحری کے وقت نہ اُٹھ سکے تو بغیر کچھ کھائے پیئے روزے کی نیت کرلے۔سونے سے پہلے روزے کی نیت کی اور صبحِ صادق کے بعد آنکھ کھلی تو روزہ شروع ہوگیا، اب اس کو توڑنے کا اختیار نہیں۔ اگر رات ہی کو روزے کی نیت کرکے سوجائے، کیونکہ اس کو اندیشہ ہے کہ سحری کے وقت اس کی آنکھ نہیں کھلے گی تو اس کا روزہ ہوجائے گا۔اگر صبحِ صادق ہوجانے کے بعد کھایا پیا تو روزہ نہ ہوگا، خواہ اذان ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو، اور اذانیں عموماً صبحِ صادق کے بعد ہوتی ہیں، اس لئے اذان کے وقت کھانے پینے والوں کا روزہ نہیں ہوگا عموماً مسجدوں میں اوقات کے نقشے لگے ہوتے ہیں، ابتدائے فجر کا وقت دیکھ کر اس سے چار پانچ منٹ پہلے سحری کھانا بند کردیا جائے۔

اُصول یہ ہے کہ روز ہ رکھنے اور اِفطار کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں آدمی روزہ رکھتے اور اِفطار کرتے وقت موجود ہو، پس جو شخص عرب ممالک سے روزہ رکھ کر کراچی آئے اس کو کراچی کے وقت کے مطابق اِفطار کرنا ہوگا، اور جو شخص پاکستان سے روزہ رکھ کر مثلاً: سعودی عرب گیا ہو، اس کو وہاں کے غروب کے بعد روزہ اِفطار کرنا ہوگا، اس کے لئے کراچی کے غروب کا اعتبار نہیں۔

سوال: طیارے میں روزہ اِفطار کرنے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ طیارہ ۳۵ہزار فٹ کی بلندی پر محوِ پرواز ہو اور زمین کے اعتبار سے غروبِ آفتاب کا وقت ہوگیا ہو، مگر بلندیٴ پرواز کی وجہ سے سورج موجود سامنے دِکھائی دے رہا ہو، تو ایسے میں زمین کا غروب معتبر ہوگا یا طیارے کا۔

جواب:روزہ دار کو جب آفتاب نظر آرہا ہے تو اِفطار کرنے کی اجازت نہیں ہے، طیارہ کا اعلان بھی مہمل اور غلط ہے، روزہ دار جہاں موجود ہو وہاں کا غروب معتبر ہے، پس اگر وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس بلندی سے غروبِ آفتاب دِکھائی دے تو روزہ اِفطار کرلینا چاہئے، جس جگہ کی بلندی پر جہاز پرواز کر رہا ہے وہاں کی زمین پر غروبِ آفتاب ہو رہا ہو تو جہاز کے مسافر روزہ اِفطار نہیں کریں گے۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878234 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More