مسجد ِ نبوی کے قریب حملہ۔۔۔مسلمان کب جاگیں گے؟؟
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
خلیفہ ِ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے دور ِ حکومت میں جب باغی مدینہ منورہ تک پہنچ گئے تو ایسے نازک
حالات میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
سامنے تین تجویزیں پیش کیں ۔ ان میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ آپ جہاد کا حکم
دے دیجیے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ برد بار اور حلیم الطبع تھے ۔آپ نے
فرمایا :"مجھے یہ منظور نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ
ہوکر امت کا خون بہاؤں ۔میں وہ خلیفہ نہیں بنوں گا ، جو امت ِ محمدیہ علیٰ
صاحبہا الصلوۃ والسلام میں خون ریزی کی ابتدا کرے ۔"یہ واقعہ مجھے مسجد ِ
نبوی کے قریب ہونے والے حالیہ خود کش دھماکے پر یاد آیا۔ جس میں چار لوگ
شہید ہوگئے ۔ یہ کون لوگ ہیں ، جو سرکار ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی
آخری آرام گاہ کے قریب خود کش دھماکے کرنے سے نہیں چوکتے ۔ بے شک یہ اندوہ
گیں واقعہ تما م عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کے لیے لمحہ ِ فکریہ ہے۔ ایک
ایسا مقام جس کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے مجھ ایسے ناتواں اور عاصی شخص کے
لفظوں کا ذخیرہ ختم ہوجائے ، لیکن عظمت ختم نہ ہو ۔ ایک ایسا مقام جہاں
بادشا ہ ، فقیر بن جاتے ہیں ۔ جہاں رحمۃ اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم محو ِ استرا حت ہیں ، ایسے پر عظمت مقام پر حملہ کرکے مسلمانان ِ عالم
کو کیا بتانے کی کوشش کی جارہی ہے ؟فارسی کا ایک شعر اس پر عظمت مقام کی
بہترین منظر کشی کرتاہے ۔
ادب گاہیست زیر ِ آسماں از عرش ِ نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا
علامہ اقبال نے کہا تھا:
خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
جی ہاں ، میرے آقا علیہ السلام کا روضہ ِ اقدس بڑا پر سکون مقام ہے ۔ وہاں
خاموشی اور ادب و احترم کو محبت کا سب سے بڑا قرینہ سمجھا جاتا ہے کہ کہیں
آقا علیہ السلام کے آرام میں کچھ خلل نہ آجائے ۔ ہم نے وہاں بادشاہوں اور
تونگروں تک کو خاموش اور نظریں جھکائے دیکھا ہے ۔ نہ شور نہ شرابا ، سکوت
ہی سکوت ۔۔ سکون ہی سکون ۔مگر یہ خود کش بم بارکون تھا ، جو مسجد ِ نبوی کے
اندر داخل ہونا چاہتا تھا ۔ جو ہمارے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری آرام
گاہ تک پہنچ کر حملہ کرنا چاہتا تھا ۔ جو ہمارے شیخین حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو پریشان کرنا چاہتاتھا ۔ بے شک
میرا رب سب سے بڑا حفاظت کرنے والا ہے ۔ جس طرح اب حفاطت کی ، ان شاء اللہ
پھر بھی اسی طرح اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ ِ اقدس کی حفاظت
کرے گا۔
لیکن امت کو اب جاگ جانا چاہیے ۔ دہشت گردی پوری مسلم دنیا سے ہوتی ہوئی
ہمارے لیے محبوب ترین شہر مدینہ منورہ تک پہنچ گئی ہے ۔ کچھ دن پہلے بغداد
کو خون میں نہلا دیا گیا ۔ وہاں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 165 لوگ شہید
ہوچکے ہیں ۔ زخمیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے ۔ اس سے پہلے بنگلہ دیش کے
حالات خراب تھے ۔ پھر اس سے پہلے ترکی کے ایک ہوائی اڈے کو ، جو دنیا کا
تیسرا مصروف ترین ہوائی اڈا تھا ، نشانہ بنایا گیا ۔ عید الفطر قریب ہے ۔
لیکن امت سوگ وار ہیں ۔ نہ جانے یہ عید کیسے گزرے گی ؟ حالات نازک سے نازک
تر ہوتے جارہے ہیں ۔ مگر امت خواب ِ غفلت میں سوئی ہوئی ہے ۔ وہی فرقہ
واریت ، وہی نا اتفاقی اور انتشار ۔
اسلام کے مرکز پر اس اندوہ گیں حملے نے پوری مسلم دنیا کو مضطرب کر کے رکھ
دیا ہے ۔ کیوں کہ یہ مرکز ہے ۔ اس مرکز سے مسلمانوں کا ایسا روحانی تعلق ہے
، کہ اس پر مسلمان سب کچھ فدا کر سکتے ہیں ۔ ہاں سب کچھ ۔مال سے لے کر جان
تک ۔۔ سب کچھ۔چند مذمتی بیان یہاں درج کیے جاتے ہیں ، جس سے مسلم دنیا میں
پھیلے اضطراب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
مصر کے مفتی اعظم الشیخ شوقی علام نے کہا ہے کہ مسجد نبوی کے نزدیک دھماکا
ایک انتہائی گھٹیا حرکت ہے جس کا تصور بھی محال ہے۔ حالیہ دھماکے ہمیں دہشت
گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے سے باز نہیں رکھ سکتے۔دہشت گردوں کے
جرائم تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کا مقابلہ تمام لوگوں کی ذمہ
داری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کی حالیہ کارروائیاں سعودی عرب کی
منزل کھوٹی نہیں کر سکتے۔
عرب لیگ کے جنرل سیکرٹری احمد ابو الغیط نے کہا ہے کہ نفرت انگیز دھماکوں
نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب اور وطن نہیں
ہے۔ جن لوگوں نے یہ دھماکے کیے ہیں انہوں نے رمضان المبارک کی حرمت کو بھی
ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ عرب لیگ دہشت گردی کی مذمت کے مسلمہ موقف پر قائم ہے
اور اس کی تمام شکلوں کی واضح مذمت کرتی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے ،عالم اسلام کو
متحد ہونا ہوگا۔ مشکل کی اس گھڑی میں سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔
شہباز شریف نے دھماکوں کی مذمت کرتے کہا ہے کہ دہشت گردی جیسے ناسور سے
نمٹنے کیلئے مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ کرب کی اس گھڑی میں سعودی عرب اور عوام کے ساتھ
ہیں۔ عالمی سطح پر دہشت گردی میں تیزی باعث ِتشویش ہے ۔عالمی برادری کو
دہشت گردی کے اسباب کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا۔
چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ دہشتگردی کہیں بھی
ہو قابل مذمت ہے۔ دہشت گردوں کو وقت سے پہلے کچل دیا جاتا تو یہ واقعات نہ
ہوتے۔ دہشت گردوں کیخلاف عوام کو ایک ہونا ہو گا۔
امیر جماعة الدعوة پاکستان حافظ محمد سعید نے سعودی عرب میں ہونےو الے
دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کے روحانی مرکز سعودی
عرب میں خودکش حملے سرزمین حرمین شریفین کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی
خوفناک سازش ہے۔ ایسے خودکش حملے منظم سازشوں اور منصوبہ بندی کے تحت کیے
جا رہے ہیں۔ جو لوگ ان حملوں میں ملوث ہیں وہ یقینا دشمن کے ہاتھوں میں
کھیل رہے اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اسلام دشمن قوتیں دیگر
مسلم ملکوں کی طرح سعودی عرب میں بھی قتل و غارت گری پروان چڑھانا چاہتی
ہیں۔ مسلم ممالک کو متحد ہو کر ان سازشوں کو ناکام بنانا چاہیے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے سعودی عرب میں خود کش حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا
ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مذمتی بیان ہیں ۔ لیکن طوالت کے خوف کے سبب اسی
پر اکتفا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ بات صرف مذمتی بیان دینے تک ہی رہتی ہے یا اس
عالمی مسئلے کے حل کے لیے اقدامات بھی کیے جائیں گے ۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کرتے ہیں :
اے اللہ ! حرمین شریفین اور روضہ ِ اقدس کی حفاظت کر۔(آمین)
اے اللہ ! امت ِ مسلمہ کے حال پر رحم کر ۔(آمین)
اے اللہ ! امت ِ مسلمہ کو اس کے دشمنوں کے خلاف متحد کر ۔(آمین)
|
|