لفظٍ قرآن (لغات واصطلاحات)

قرآن کا لغوی واصطلاحی معنی
سوال:رمضان میں قرآن کریم سننے،پڑھنے اور اس میں غور کرنے کا موقع باربار ملتارہا،تب یہ خیال آتاتھا کہ مفتی صاحب سے پوچھوں گا کہ لفظِ قرآن کا لغوی واصطلاحی معنی کیاہے؟(بشیر احمد بلیدی)۔
جواب:لفظ قرآن کی اصل کے بارے میں لغت نویسوں کے یہاںکافی اختلاف ہے ،یہ اختلاف دو طرح کا ہے ۔
(1)ایک خیال یہ ہے کہ لفظ قرآن اللہ کی کتاب کا خاص نام ہے اور یہ کسی اصل سے مشتق نہیں ہے یعنی اپنے آپ میں یہ مستقل لفظ ہے کسی لفظ سے نکلا اور بنا نہیں ہے ۔ یہی رائے امام شافعی اور حافظ ابن کثیر کی ہے ۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح توراۃ ، زبوراور انجیل کا لفظ اللہ تعالیٰ کی کتابوں کے لئے بطور نام/علم استعمال ہوا ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے اسی طرح قرآن بھی اللہ تعالیٰ کی کتاب کے لئے بطور علم استعمال ہوا ہے اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے۔[الإتقان في علوم القرآن: للسيوطي:۲؍۳۳۹]۔
(2)دوسرا خیال ہے کہ لفظ قرآن مشتق ہے لیکن جو لوگ قرآن کو مشتق مانتے ہیں ان میں بھی اختلاف ہےکہ اگر مشتق ہے توکس اصل سے مشتق ہے؟ اس باب میں چار مختلف نظریات ہیں ۔
1:قرآن ’’قَرَأَ‘‘ کامصدرہے،جیسے’’رُجْحَان‘‘،’’رَجَحَ‘‘کا’’غُفْرَان‘‘ ،’’غَفَر‘‘ کااور فُرقان فَرَقَ کا اس نظریہ کے قائل کچھ علماءہیں۔
2:ایک جماعت جس میں امام اشعری بھی ہیں ،کا کہنا ہے کہ قرآن ’’قَرَنْتُ الشيءَ بالشيءِ‘‘ یعنی قَرَنَ سےمشتق ہے جس کا معنیٰ ہےدو چیزوں کو آپس میں ملانا۔
3:فرّا نحوی کاخیال ہےکہ قرآن ’’ قَرَائِن‘‘ سے مشتق ہے ۔ وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ قرآنی آیات بعض بعض کی تصدیق کرتی ہیں، اور بعض بعض کے مشابہ ہیں اوراسی کو قرائن کہا جاتا ہے۔[ الإتقان في علوم القرآن: للسيوطي:۲؍۳۳۹۔۳۴۰]۔
دوسرےاور تیسرے قول کےاعتبارسےقرآن کااصل’’ قَرَنَ‘‘ ہوگا اور اس کا نون اصلی ہوگا۔
4:زجاج نحوی اور دیگرعلمائے لغت کا خیال ہے کہ قرآن ’’فُعْلاَن‘‘ کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے جو’’ القرء ‘‘ سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ’’ قَرَأتُ الماءَ في الحوضِ‘‘ میں نے حوض میں پانی بھر دیا۔
ابوعبیدہ بصری اورراغب اصفہانی وغیرہ بھی اسی بات کی طرف گئے ہیں اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن بعض سورتوں کو بعض سورتوں میں جمع کر دیتا ہے۔ راغب اصفہانی آگے کہتے ہیں کہ قرآن کو قرآن اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پچھلی نازل شدہ کتابوں کے فوائد جمع کئے ہوئے ہے۔
حافظ جلال الدین سیوطی یہ سارے اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں اس مسئلہ میں سب سے اچھی بات امام شافعی کی ہے ۔ قرآن نام/علم ہے ،گویامشتق نہیں ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی کتاب کے لئے استعمال ہوتاہے ۔[ الإتقان في علوم القرآن: للسيوطي:۲؍۳۳۹]۔
اصطلاحی معنیٰ:قرآن کے اصطلاحی معنیٰ میں علماء کے الفاظ مختلف ہیں ،ان میں سے چند یہ ہیں:
1:ابو بکر باقلانی کا کہنا ہے کہ قرآن اسے کہتے ہیں جس کی تلاوت کی جاتی ہے اور وہ مصحف میں محفوظ اور لکھا ہوا ہے۔[ إعجاز القرآن: لأبي بكر الباقلاني ، ص:۱۶. ’’هو متلو محفوظ مرسوم في المصاحف‘‘.]۔
2:فخرالدین رازی لکھتے ہیں، قرآن نام ہےان تمام باتوں کا جو مصاحف کے درمیان موجود ہے ۔[ التفسير الكبير : لفخر الدين الرازي :۱؍۲۰۳]۔
3:شوکانی لکھتے ہیں، وہ کلام جو رسول اللہ ﷺ پر نازل کیاگیا ،مصحفوں میں لکھا ہوا ہے، اور ہم تک تواتر کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔[ إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول : للشوكاني:۱؍۱۶۹، “الكلام المنزل على الرسول ، المكتوب في المصاحف ، المنقول إلينا نقلا متواترا.”]۔
4:شیخ زرقانی کہتے ہیں، سورہ فاتحہ کی ابتداء سے سورۃ الناس کے آخر تک جو بھی لفظ نیعﷺ پر ناز ل ہوا قرآن ہے ۔[ مناهل العرفان في علوم القرآن: للشيخ محمد عبد العزيز الزر قاني:۱؍۲۰. ” اللفظ المنزل على النبي –صلى الله عليه وسلم – من أول سور ة الفاتحة إلى آخر سورة الناس.” ]۔
5:شیخ بکری امین کہتے ہیں : اللہ کا کلام جو محمد ﷺ پرجبریل کے واسطے سے نازل کیا گیا ، مصحفوں میں لکھا ہوا ہے اور سینوں میں محفوظ ہے ،اورجو ہم تک تواتر کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ، جس کی تلاوت عبادت ہے ، سورہ فاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور سورہ ناس پر ختم ہوتا ہے۔[ التعبير الفني في القرآن ، لبكري شيخ أمين ص:۱۲ ” كلام الله المنزل على خاتم الأنبياء والمرسلين ، بواسطة جبريل عليه السلام ، المكتوب بين المصاحف ، المحفوظ في الصدور ، المنقول إلينا بالتواتر ، المتعبد بتلاوته، المبدوء بسورة الفاتحة ، المختتم بسورة الناس”]۔
(اعتدال)
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 863963 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More