دہشت گردی کے خلاف عالمی،علاقائی
صورتحال،مسئلہ افغانستان،پاکستان بھارت کشیدگی کے جلتے موضوعات کے باوجود
مسئلہ کشمیر پر ایک بار پھر عالمی توجہ مرکوز ہوئی ہے اور اس مسئلے پر
امریکہ اور اقوام متحدہ کو بات کرنا پڑی ہے۔چند ہی روز قبل بھارتی مقبوضہ
کشمیر کے ضلع اننت ناک(اسلام آباد) کے زعفرانی علاقے پامپور میں انڈین
سینٹرل ریزرو فورس(CRPF) کے ایک قافلے پر کشمیری فریڈم فائٹرز کے ایک حملے
میں بھارتی نیم فوجی دستے کے 8اہلکار ہلاک اور بیس زخمی ہوئے۔گھات لگا کر
حملے میں فورسز کی بس کو نشانہ بنایا گیا اور اس موقع پر بھارتی فوج کے
آپریشن میں دو مسلح فریڈم فائٹرز ہلاک ہوئے۔ظاہر یہی ہوتا ہے کہ امریکہ اور
اقوام متحدہ کی طرف سے یہ بیانات مقبوضہ کشمیر کے پامپور علاقے میں مسلح
کشمیری فریڈم فائٹرز کے ایک حملے میں متعدد بھارتی نیم فوجی دستے کے
اہلکاروں کی ہلاکت کے تناظر میں سامنے آئے ہیں تاہم ان دونوں بیانات سے یہ
بات بھی صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے
کشمیریوں کی اپنے حق خود ارادیت کے لئے بھارت کے خلاف جدوجہد آزادی کو کسی
طور بھی دہشت گردی قرار نہیں دیا ہے۔قابل غوربات ہے کہ امریکہ نے مقبوضہ
کشمیر کے پامپور علاقے میں ہوئے بھارتی فورسز پر ہوئے کشمیریوں کے حملے سے
متعلق ’’تشدد‘‘ کے الفظ کا انتخاب کیا ہے،دہشت گردی کا نہیں۔ امریکہ نے
مسئلہ کشمیر کے حل کے طریقہ کار پر زور دیا ہے اور اس حوالے سے اپنی ’’ مدد‘‘
بھی ظاہر کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ’’ کشمیر میں
تشدد کی تازہ لہر انتہائی باعث تشویش ہے، تشدد آمیز واقعات جہاں بھی رونما
ہوتے ہوں باعث تشویش ہوتے ہیں ، اوباما انتظامیہ کشمیر سمیت تمام مسائل کو
حل کرنے کے لئے باہمی طور پر مسائل کو ایڈریس کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہے
تاکہ اگر دونوں ممالک یقینی طور پر مسئلہ کشمیر پر امریکہ کی براہ راست مدد
لینا چاہئیں گے تو امریکہ اس کے لئے بھی تیار ہو گا ، امریکہ پاکستان اور
بھارت دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔اقوام متحدہ
کی طرف سے بھی کشمیریوں کے بھارتی فورسز پر حملے کے حوالے سے ’’تشدد‘‘ کا
لفظ استعمال کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کے ترجمان نے
کشمیر میں تشدد کی تازہ لہر پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تشدد سے کچھ
حاصل نہیں ہو گا لہذا دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تمام باہمی
مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہو گی ۔انہوں نے واضح کیا دونوں ممالک کو
آپسی طور پر مسئلہ کشمیر کا حل نکالنا ہوگا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ دونوں
ملکوں کی درخواست پر ہی اقوام متحدہ کوئی ثالثی کر سکتا ہے۔ ترجمان نے کہا
کہ اگر بھارت اور پاکستان اس بات کے لئے تیار ہو جائیں تو اقوام متحدہ
کشمیر مسئلے کے حتمی حل کے لئے اپنا رول ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ بھارت
اور پاکستان کے درمیان جاری تنا ؤکی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
کہا ہے کہ نئی دلی اور اسلام آباد کو فوری طور ایسے اقدامات اٹھائے جانے
چانے چاہیں جن سے تنا کی صورت حال کا خاتمہ ہو۔ بات امریکہ اور اقوام متحدہ
کے ان بیانات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے پاکستان اور بھارت کے
حکام کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے جس میں دونوں طرف سے مسئلہ کشمیر پر
کوئی ’’کمپرومائیز‘‘ نہ کرنے کی بات کی گئی ہے۔یوں پاکستان اور بھارت کے
بیانات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق عالمی سطح پر سرگرمیاں
جاری ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے ’’ بی بی سی‘‘ نے اس حملے سے متعلق اپنی
رپورٹنگ میں یہ جملہ بھی شامل کیا ہے کہ ’’جنوبی کشمیر میں گزشتہ چند سال
کے دوران پے در پے حملے ہورہے ہیں اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی
تعداد مسلح گروپوں میں شامل ہوگئی ہے‘‘۔
گزشتہ دنوں ہی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر
بھارت سے تعلقات ٹھیک نہیں ہو سکتے ،ہم بھارت کے ساتھ تمام اشوز پر جامع
مزاکرات چاہتے ہیں ،بھارت صرف دہشت گردی پر مزاکرات چاہتا ہے،ہم کشمیر اور
دوسرے متعاملات پر بات چیت چاہتے ہیں۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے اس بیان کے
فوری بعد بھارتی پارلیمانی امور کے وزیر ایم ونکیا نائیڈو نے کہا کہ’’
کشمیر کے معاملے پر کسی قسم کی ’’سودا بازی‘‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور
پاکستان کا ہر ایک معاملے کو کشمیر کے ساتھ جوڑنا ناقابل قبول ہے،کشمیر کو
بار بار تنازعہ کی شکل میں پیش کرنے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان آپسی
رشتوں میں کبھی بہتری نہیں آئے گی،کشمیر پر بات چیت میں پاکستان کے شکوک
دور کر سکتے ہیں لیکن اسے بار بار تنازعہ بنانے سے آپسی رشتوں کی بحالی میں
کسی طور بھی مدد نہیں ملے گی‘‘۔یوں بھارت کی ’’ بی جے پی ‘‘ حکومت واضح طور
پر موجودہ تقسیم کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتی ہے لیکن بھارت کے
اس دعوے کے باوجود یہ حقیقت عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ مسئلہ کشمیر اپنی
تمام تر سنگینی کے ساتھ موجود ہے، امریکہ اور اقوام متحدہ نے اپنے حالیہ
بنانات میں بھی مسئلہ کشمیر کی حقیقت تسلیم کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت پر
مزاکرات سے اس مسئلے کے حل کی پیشکش بھی کی ہے ۔یوں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے
عوام کی مسلسل جدوجہد آزادی نے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پہ بھی مسئلہ
کشمیر کی حقیقت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔بھارت بڑی جمہوریت،سیکولر ازم سمیت کئی
باتوں کا دعویدار تو بنتا ہے لیکن اس حقیقت سے آنکھیں چراتا ہوا نظر آتا ہے
کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام کو’’فتح‘‘ کرنے کے لئے بھر پور طور پر فوج
کے مستقل ظالمانہ استعمال اور کئی سازشوں کے باوجود(by hook by crook)کسی
طور بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے میں ناکام چلا آرہا ہے۔کیا ہندوستانی دماغ
مسئلہ کشمیر کو جمہوری طریقے سے حل کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کے فوجی حل
پر ہی بضد رہنے کو عقلمندی سمجھتا رہے گا؟مسئلہ کشمیر کا پرامن طور پر حل
نہ ہونا بھارت کی کامیابی نہیں بلکہ اس کی ناکامی کا عکاس ہے۔
|