من پسند الیکشن کمیشن قو می و صوبائی
اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو ہر صورت اپنے ذاتی
اثاثے ظاہر کرنے ہو تے ہیں وہیں اپنی بیوی ،خاندان و دیگر لواحقین کی بھی
ملکیتی جائیداد کا گوشوارہ فارم نامزدگی میں پر کرنا لا زم و ملزوم ہوتا
ہے۔الیکشن کمیشن کی نا اہلی کی وجہ و چیک و بیلنس کے فقدان الیکشن کمیشن کے
نامزدگی فارموں میں نوازشریف نے بطور سابقہ امیدوار قومی اسمبلی کے الیکشن
میں مبینہ ذرائع سے ملنے والی اطلا عات کے مطابق اس کا ذکر تک کرنابھی
مناسب نہیں سمجھا ۔حقائق چھپا کر خود کو جھوٹا کر دیا میرے خیا ل کے مطابق
آئین کے آ رٹیکل ٹو میں ملک پاکستان کا آئین کہتا ہے امیدوار امیدواری سے
ہی نااہل ہو جاتا ہے لیکن ہمارے وزیر اعظم اپنی پوری ظفر فوج کے ساتھ تما م
جھوٹے کر توت کر نے کے باجود ڈٹے ہو ئے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان
لمبی مہلت حاصل کرنے کے بعد اب ٹی آر او کا مسئلہ بھی کھو ہ کھاتے پڑتا نظر
آرہا ہے اور خود کو نااہلی سے بچانے کے لیے طرح طرح کے ڈرامے رچائے جا رہے
ہیں۔ا ہم سیاسی راہنما تجزیہ نگار سمیت پوری قوم ایسے کسی نام کے ٹی آ ر او،
نام نہاد کمیشن کے بنائے جانے کو مسترد کرچکی تھی اب نا م نہا د ٹی آر او
کو بھی اسی طرح مسترد کر رہی ہے۔خود ساختہ ٹی آر اوکا جو نتیجہ نکلے گا وہ
سبھی کو معلوم ہے۔تقریباًپوری دنیا میں کرپشن کرنے والے حکمران سزاء پا تے
ہیں اورپاکستانی حکمرانوں کی طرح کرپشن ،منی لانڈرنگ اور بیرون ممالک کے
بنکوں میں ا ربوں ڈالر مدفون کرنے اور آف شور کمپنیاں بنانے میں شہرت یافتہ
ہیں ۔جس کی زندہ مثال شہنشاہ ایران بھاگا تو کسی ملک میں جائے پناہ بھی نہ
مل سکی حتیٰ کہ مدفون ہونے کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی۔ جب شریف بردرز کی
حکومت کا ڈکٹیٹر جنر ل مشرف نے تختہ الٹا تو شریفوں کے پاکستان سے خودکو
سعودی عرب شفٹ ہونے پر ائیر پورٹ پر الوداع کہنے کو بھی کوئی نہ تھا
حالانکہ اب جتنے بھی موجودہ حکومت میں اہم وزارتوں پر فائز ہیں جن میں مشیر
وزیر اعظم امیر مقام بھی شامل تھے سب ڈکٹیٹر کی چھتری تلے نواز شریف کو
چھوڑکر چلے گئے تھے تقریبا ایک سو سے زاہد قومی و صو بائی اسمبلی کے اس وقت
کے ممبران تھے چوہدری برادران سمیت جن میں کچھ آج بھی یوٹرن لے کر میاں صا
حب کے ساتھ حکومتی اقتدارکے مزے لے رہے ہیں چڑھتے سورج کے پو جا ری بنے ہو
ئے چشم طوطہ حکمران کل کے وآج کے ناا ہل وزیر اعظم کو غلط مشور ے کل بھی
اور آج بھی دے رہے ہیں ۔پاکستان ہزاروں ما ؤں،بہنوں ،بیٹیوں کی قربانیوں
اور شہادتوں سے بننے والا دنیا کا واحد نظریاتی ملک ہے جس کو کلمہ کے نام
سے آ زاد کروایا گیا۔اسلئے جب بھی اس ملک کا کسی طرح نقصان یا رسوائی ہوتے
دیکھتے ہیں تو سبھی پاکستانی خون کے آنسو روتے ہیں اور سخت کو فت میں مبتلا
ہو جاتے ہیں ۔اب پانامہ لیکس کے انکشافات اور پھر سوئس بنکوں میں اربوں
ڈالر ،منی لانڈرنگ ، پاکستانی حکمرانوں اور ان کے جمع ہونا عوام میں سخت
تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ہوش اور عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔جذباتیت اور
اقتدار ی خواہشات کی غلامی کرتے ہوئے ہم نے آدھا ملک بنگلہ دیش کی صورت
گنوا ڈالا تھا مرحوم بھٹو صاحب کو تو سلامتی کونسل میں پاکستانی نمائندہ
نامزد کرکے بھیجا گیا تھا یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھارتی فوجیں مشرقی
پاکستان کا بارڈر کراس کرکے اندر داخل ہو چکی تھیں اور جنگ آخری مراحل میں
تھی مگر انھوں نے پو لینڈ کی قرارداد جس میں جنگ بندی کا فوراً اعلان مقصود
تھا۔وہ پھاڑ کر جذباتی انداز میں کہ ہم واپس جائیں گے اور جنگ جاری رکھیں
گے۔ اور کسی بحث و تمہیض میں حصہ لیے بغیر اجلاس سے باہر نکل پڑے ۔ اور
واپس پاکستان آگئے ۔ یہ سارا ڈارمہ دراصل یحییٰ بھٹو معاہدہ پر عمل در آمد
کے لیے ہی تھا۔اس وقت تک مسٹر بھٹو در پردہ یحیٰی خان سے اس کی صدارت اور
اپنے لیے مغربی پاکستان میں مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لیے کمپرو مائز کرچکے
تھے۔پی پی پی والے کھلم کھلا کہتے پھر رہے تھے کہ بنگالیوں سے جان چھڑاؤ
اور یہاں پورا اقتدار حاصل کرو۔اگر ملک متحد رہتا تو ہر صورت وزیر اعظم
مجیب الرحمٰن ہوتے اور بھٹو کواپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پڑتا۔قرارداد پھاڑ
کر واپس آجانے کے چند ہی روز بعد اٹھانوے ہزار مسلم سپاہ نے ڈھاکہ کے پلٹن
میدان میں ہتھیار ڈال دیے۔ہندو قابض ہو گیا۔جو مال لوٹ کر خزانوں کی
خوردبرد کرکے بیرون ممالک جمع کروائے بیٹھے ،پلازے فلیٹس تعمیر کیے ہوئے
اور آف شو کمپنیوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں وہ پاکستانی معاشرے کے انتہائی
غلیظ ترین افراد ہیں ان کی سرکوبی کی جانی اور لوٹا ہوا مال واپس ملک میں
لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنی ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ۔اگر پاکستانی سیاسی
و قومی ،صوبائی اسمبلی سمیت ،پارلیمنٹ کے جنگل کی صفائی ستھرائی نہ کی گئی
اور اقتدار پھر سامراجی سرمایہ داروں ،لوٹ کھسوٹ میں ملوث ،سود در سود لینے
والے اور کئی گنا ہ زیا دہ منافع وصول کرنے والے کرپٹ صنعتکاروں ،ظالم
وڈیروں ،بد کردار جاگیرداروں میں ہی گھومتا نظر آرہا ہے۔تو پھر ہمیں تو
اپنے کیے کی سزا ضرور مل کر رہے گی۔سیاسی میدان میں موجود کرپٹ ،ذاتی جیلیں
اورذاتی فوجیں رکھنے والوں اور سرکاری خزانہ کو شیر مادر سمجھ کر پی جانے
والوں کا قلع قمع ضروری ہے جس کے لیے ہماری ایجنسیوں کے پاس بے شمار ثبوت
موجود ہی ہیں۔اور بیرونی میڈیا اور ایجنسیاں بھی ہماری بھرپور مدد کر رہی
ہیں اور ایسے افراد کی فہرستیں شائع کرتی رہتی ہیں ۔مگر نہ سمجھ میں آنے
والی بات صرف یہ ہے کہ جو بھی نئی پارٹی ابھرتی ہے وہ خواہ عمران خان کی ہو
یا کوئی دوسری وہ انھی وڈیروں اور کرپٹ صنعتکاروں کو گلے لگا لیتی ہے جس پر
ان کے کالے دھن کو پھر سہارا نصیب ہو جاتا ہے اور وہ پارٹی پر خرچہ کرکے
قابض ہو جاتے ہیں ۔ پوری قوم امید کرتی ہے کہ ٹی آر او اپوزیشن و سپریم
کورٹ کی سربرائی میں بنا کر وسیع اختیارات نیب اور راحیل شریف کو دیے جائیں
تو پاکستانی خونخوار سیاسی جنگل کوصاف کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے
تاکہ2018کے آمدہ انتخابات تک ان کا وجود ہی ختم ہو جائے |