ایران کی جانب سے مہیا کردہ سفری دستاویزات
پر سفر کرتابھارتی ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری پاکستان اور ایران
تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ کا سبب بنا۔اس کے علاوہ پاکستان کے مختلف
مقامات سے بھارتی را ایجنٹ گرفتار کئے گئے۔سیکورٹی فورسز نے یوم دفاع کے
موقع پر صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے ایک دہشت
گرد کو گرفتار کرکے اس کے قبضے سے دیسی ساختہ بم ،6کلو دھماکہ خیز مواد اور
نٹ بولٹس بر ٓامد کئے۔اور6ستمبر2015کے یوم دفاع کے موقع پر پہلے سے نصب،
ریموٹ کنٹرول مواد بھی ناکام بنا دیا گیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق را ایجنٹ
نے بھارتی خفیہ ایجنسی کے ساتھ روابط کا اعتراف کیاتھا۔حساس اداروں نے
واہگہ بارڈر کے قریب بسیم نامی گاؤں میں کاروائی کرتے ہوئے را کیلئے جا
سوسی کے الزام میں الیاس نامی سابق پولیس اہلکار کو گرفتار کیا ۔ الیاس پر
الزام ہے کہ وہ پاکستان آرمی اور پولیس حکام کے حوالے سے ہندوستانی خفیہ
ایجنسی ’ را ‘ کو معلومات فراہم کرتا تھا۔ ملزم پنجاب پولیس کے محکمہ
اسپیشل برانچ کا اہلکار تھا اور10سال تک وی وی آئی پیز پروٹیکشن یونٹ میں
تعینات رہا۔ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے ٹھٹہ میں کاروائی کرتے ہوئے ‘ را ‘
کے دو ایجنٹ ماہی گیروں کو گرفتار کیا، گلشن اقبال ، مدینہ کالونی سے
گرفتار ان ماہی گیروں کا تعلق بھی را سے نکلا ، ایس ایس پی ٹی ڈی نوید
خواجہ کے مطابق گرفتار دونوں ملزمان صدام حسین اور بچل را کو مدد فراہم
کرتے تھے۔ محمد خان نامی ’ را ‘ ایجنٹ ان کو بھارت لے گیا اور تربیت دلوائی
۔ حساس اداروں نے حال ہی میں کاروائی کرتے ہوئے کراچی کے علاقے جمشید روڈ
سے ایک اور بھارتی ایجنٹ کو گرفتار کیا ، گرفتار ایجنٹ ارشد پاکستان
سے6مرتبہ مختلف ممالک جاچکا ہے۔کراچی میں ایک کاروائی میں کاونٹر ٹیررزم
ڈیپارٹمنٹ نے بھارتی خفیہ ایجنسی ‘ را ‘ کا ایجنٹ صفدر ڈان کو گرفتار کیا ۔
ایس ایس پی کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ نوید خواجہ نے بتایا کہ کراچی میں اس
وقت بھی را کے ’ سیلپرز سیل ‘ کام کر رہے ہیں ، واٹر بورڈ ، لوکل گورنمنٹ ،
پاسپورٹ اور نادرا کے محکموں میں سیلپرز سیل موجود ہیں ۔اس کے علاوہ اجمل
پہاڑی ، صولت مرزا ، جاوید لنگڑا ، کاشف ڈیوڈ ، رئیس مما ، منظور لمبا،
اسلام فوجی ، کامران مادھوری سمیت متعدد ایسے دہشت گردہیں ، جن پر بھارتی
خفیہ ایجنسی ‘ را ‘ کا الزام ہے۔ را ایجنٹس کی گرفتاری کے حوالے سے متحدہ
قومی موومنٹ کے کارکنان کی تعداد سب سے زیادہ ہے ، جسے متحدہ کی جانب سے
میڈیا ٹرائل قرار دیا جاتا ہے۔ وہ ان تمام الزامات کو یکسر رد کرتے ہیں اور
اسے اسٹیپلشمنٹ کی سازش قرار دیتے ہیں۔گو کہ ان کے قائدین کے بیانات اسکاٹ
لینڈ کے پاس موجود ہیں ، جس میں را سے فنڈز لینے کے اعترافات شامل
ہیں۔بھارت، جہاں پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹ کے ذریعے بد امنی اور پاکستان
کی معیشت کو عدم استحکام کا شکار بنانے کی سازشیں کرتا رہا ہے ، تو اس کا
ایک اور مکروہ کردار طور خم بارڈر پر کابل انتظامیہ کی فوجیوں کے ساتھ ملکر
پاکستانی افواج پر فائرنگ میں ملوث ہونا بھی سامنے آیا۔ یہ بات تو کسی سے
بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے ۔وہ پاکستان کو غیر
محفوظ بنانے کیلئے ہر قسم کے اقدمات اٹھا سکتا ہے ۔ لیکن یہاں عوام میں ایک
بے چینی سی پائی جاتی ہے کہ پاکستانی معیشت کہ شہ رگ کراچی کو کاٹنے کی
کوشش کرنے والے ، بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازش کرنے والے ،
خیبر پختونخوا اور افغانستان کے پختون عوام کے درمیان دشمنیاں پیدا کرنے
والے ، ان بھارتی ایجنٹوں کی گرفتاریاں اور ان کے مذموم عزائم کے بے نقاب
ہونے کے بعد بھی کیا جواز رہ جاتا ہے کہ بھارت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات
رکھے جائیں ، کرکٹ ہو یا ان کی فلمیں ، ان سے تعلقات کی خواہشات ، ان کی
کشمیر میں مسلم عوام پر ظلم و ستم کے بعد ہمارے پالیسی ساز ادارے کس قسم کے
معجزے کی توقع رکھتے ہیں کہ را کے ایجنٹ پکڑے بھی جائیں ، اور ہم ان کو گلے
بھی لگائیں ۔بھارت کیلئے کام کرنے والے لیڈر آزاد ہیں ، مظاہرے ، احتجاج ،
قتل عام کرتے اور علیحدگی کے نعرے لگاتے ہیں ، ان کے عسکری ونگز نامعلوم
نہیں رہے ۔ لیکن انھیں مکمل سیاسی آزادی ہے ، حکومت کے ایوانوں میں ، حساس
کمیٹیوں میں ،پارلیمانی امور میں ان کا کوئی نہ کوئی نمائندہ ضرور ہوتا ہے
۔ حکومت کا کوئی راز ،راز نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ ملک دشمن جماعت ،
گروہ ، تنظیم ریاست کے ان ہی لوگوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھی ہے ، جو انھیں ملک
دشمن بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ جمہوریت کا ڈسکولا کب تک اُس پاکستان میں چلتا
رہے گا ، جیسے اسلام اور دو قومی نظریہ کے نام پر حاصل کیا تھا۔ نام بدل کر
، نقاب پلٹ کر پاکستان کی رگوں میں نفرت ،عدوات ، تعصب ، لسانیت ، فرقہ
واریت کا زہر کب تک اتارا جاتا رہے گا۔سندھ کے وزیراعلی طویل خواب کے بعد
جب بیدار ہوتا ہے تو اپنی سیاسی تاریخ کی سب سے پر جوش و تین گھنٹے کی طویل
تقریر بھی خود ان کے اپنے ضمیر کو جگانے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔ایک حتمی
فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا کہ یا تو بھارت نواز ہو یا پھر پاکستان دشمن
ہو۔شناختی کارڈ تو پاکستان کی اساس پر قائم رہنے والوں کے چیک کئے جا رہے
ہیں، لیکن جو پاکستان کی اساس کو جڑ سے کاٹے جا رہے ہیں ، انھیں سرکاری
مراعات ،فنڈز اور حکومت کی جانب سے تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے ، یہ کس قسم
کی جمہوریت ہے کہ جس میں دہشت گرد ، ووٹ لیکر آیا تو وہ معزز کہلایا ، قابل
مراعات ہوا ، سرکاری فنڈز و تنخواہوں کا حقدار و مستحق ٹھہرا۔یہ کس قسم کی
جمہوریت ہے کہ پاکستان کو ختم کرنے کی سازش کرنے والوں کو اسی پاکستان کے
قانون نافذ کرنے والے ادارے تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں ۔فول پروف سیکورٹی بھی
ملتی ہے تاکہ وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے رہیں ۔پاکستان کی اساس اور اس
کے وجود کو ختم کرنے کے درپے رہیں ۔یہ پاکستان ہی ہے جہاں پاکستان کو دو
لخت کرنے والوں کے سر پر سونے کا تاج پہنایا جاتا ہے۔ یہی پاکستان ہے جہاں
دھماکے کرنے والوں کے گلے میں ہار ڈالے جاتے ہیں ، یہی پاکستان ہے جہاں
علیحدگی پسند اپنے ایجنڈے نیوز چینلز اور اخبارات کے ذریعے عوام کے اذہان
کی برین واشنگ میں جتے ہوئے ہیں۔یہ پاکستان کا قصور ہے ، کہ یہاں پاکستانی
کہلانے والے کا قصور ہے۔؟یا پھر پاکستانی بننے والوں کا قصور ہے؟؟۔عوام تو
صرف ایک بات جانتی ہے کہ جب ثابت ہو گیا کہ یہ ملک دشمن ہے ، غدار وطن ہے ،
ملک کی ساالمیت کے درپے ہے تو انھیں سولی پر سر عام کیوں نہیں لٹکایا جاتا
، ان سانپوں کو دودھ دیکر ڈسنے کے لئے آزاد کیوں چھوڑا ہوا ہے ۔ کچھ تو غلط
ہے ، یا میں غلط ہوں یا تم غلط ہو۔ملک دشمن عناصر سے سرزمین پاک کو صاف
کرنے کیلئے لاکھوں افراد کو اپنے وطن میں ہجرت پر مجبور ہونا پڑتا ہے ، ان
کے گھروں کی چھتیں ہٹنے سے ، چار دیواری کا تقدس نہیں رہتا ، جدید ترین
اسلحوں سے ، طیاروں سے ، ٹینکوں سے بمباریاں کرکے صدیوں کی ثقافت اورمحبت
کی امین سر زمین میں بارود بھر دیا جا تا ہے ، لیکن جویہی عمل کراچی ، سندھ
، بلوچستان میں ہو تو انھیں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ میڈیا میں ان کا رونا
دھونا دکھایا جاتا ہے ۔ کیا شمالی مغربی سرحدوں پر رہنے والوں کا گناہ اتنا
بڑا ہے کہ ان پر قیامت پر قیامت ڈھائیں جا رہی ہیں ، ایک ایف 16کراچی ان
دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر پر بھی گزارا جائے جہاں سے پاکستان کے دشمن را
ایجنٹ ائیر کنڈیشن کمروں میں عیاشی کرتے ، منصوبے سازی کرتے ہیں ، ان پر
ایک بار میزائل تو داغا جائے ، ان کے مکانات کی چھتوں کو بھی ختم کیا جائے
تاکہ ہیلی کاپٹر کی نگرانی میں دیکھا جاسکے کہ کوئی غدار وطن تو گھر میں
موجود نہیں ہے ،بلوچستان کے غداروں کو ناراض دوست کہنا کا سلسلہ ختم کرکے
شمالی وزیرستان، سوات کی طرح ایک آپریشن کیا جائے۔یہ کہاں سے ناراض لوگ بنے
پھرتے ہیں ، غدار وطن کا وہی انجام ہو جو فاٹا میں ، وزیر ستان میں سوات
میں کیا گیا۔ بلوچستان کے وہ غدار جو پاکستان کو دو لخت کرنا چاہتے ہیں ،
ان کے وجودوں کو عبرت کا نشان کیوں نہیں بنایا جاتا ۔یاد رہے ، انصاف اگر
ایک جیسا نہیں ہوگا ، تو امن بھی ایک جیسا نہیں ہوگا ۔ امن قائم کرنا ہے تو
انصاف بھی یکساں فراہم کرنا ہوگا۔ |