آپ نے سنا ہو گاکہ موسیقی روح کی غذا ہے۔
لیکن بعض موسیقی روح، جسم اور دماغ کے لئے سزا بھی ہو سکتی ہے۔ پچھلے دنوں
اُبھرتے ہوئے ستارے ، شہرت یافتہ گلوکار طاہر شاہ کے گانے ـ’’اینجل ‘‘نے
لوگوں کے دلوں، اور سماعتوں کو جنجھور کر رکھ دیا ۔ میوزک کی دنیا میں یہ
شاہکار گانا ملکوں ملکوں دھوم مچا رہا ہے۔ طاہر شاہ شہرت کی بلندیاں تب ہی
پار کر چکے تھے، جب اُن کا پہلا گا نا ’آئی ٹو آئی ‘‘ مارکیٹ میں آیا تھا۔
جس میں شاہ صاحب نے اپنی آنکھوں کی جادو گری سے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا
لیا تھا۔ شائقین اُن کے دوسرے گانے کا بیتابی سے انتظار کر رہے تھے۔ آخر کا
اُن کا دوسرا گا نا بھی منظر عام پر آیا، اور لاکھوں لوگ اب تک اس گانے کو
انٹرنیٹ پر دیکھ چکے ہیں۔
چونکہ یہ گانا سماعت کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اس لئے لوگ اسے سننے سے زیادہ
دیکھتے ہیں۔ لیکن خبردار، اس گانے کو چھوٹے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں،
کیونکہ اُن پر اس گانے کہ مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔جو بچے یہ گانا دیکھ چکے
ہیں، وہ بڑی مشکل سے بچے ہیں۔ ان بچوں کہ ذہنوں میں جو خاکہ فرشتوں اور
پریوں کا ان کے ماں باپ نے بنا یا تھا، وہ سب جھوٹ کاپلندا نکلا۔ پہلے یہ
کم سن بچے پریوں اوراینجل کی کہانیاں سنے بنا سوتے نہ تھے۔ اب یہ اینجل سے
اس قدر ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں، کہ ماں اینجل کا نام لیتی ہے، تو ساتھ ہی وہ
انگھنے لگتے ہیں۔ اب تو اگر کوئی بچہ سو نہ رہا ہو ، ماں کہتی ہے ،ـ’’سو جا
ورنہ اینجل آجائے گا،‘‘ اور بچہ رونے لگ پڑتا ہے، اور روتے روتے سو جاتا ہے۔
اگر یہ گانا جسے گانا کہتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔ خیرجب گانے والے کو گاتے
ہوئے شرم نہیں آئی، تو مجھے اسے گانا کہنے میں کیسی شرم۔ آج کل ویسے بھی
پاکستان میں بجلی، گیس، صاف پانی اور شرم کی قلت ہے۔ تو میں کہہ رہ رہا تھا،
کہ اگر یہ گانا انگلش کی بجائے اُردو میں گایا جاتا، تو مولوی حضرات اب تک
شاہ صاحب کہ خلاف فتویٰ جاری کر چکے ہوتے، ـ’’ کافر، فرشتوں کو بدنام کرتا
ہے‘‘۔ طالبانوں کو بھی دلی صدمہ پہنچتا، کہ اگر فرشتے طاہر شاہ جیسے ہوئے،
تو حوریں بھی ویسٹ انڈیز کی ہوں گی۔ البتہ اس گانے سے اہل مغرب ضرور مرغوب
ہوئے ہیں۔ عنقریب وہ طاہر شاہ کو کنسر ٹ وغیرہ کے لئے بھی مدعو کریں گے۔
تاکہ وہ انھیں جیل میں ڈال سکیں۔ وہ اس لئے نہیں، کہ طاہر شاہ نے یہ گانا
گا کر انگریزی زبان اور انگریزی بولنے والوں کے جذبا ت کو ٹھیس پہنچائی ہے،
بلکہ اس لئے تاکہ وہاں کے قیدیوں کو اس گانے سے ٹارچر کر سکیں۔ اس گانے سے
دیا جانے والا ذہنی تشدد بڑے سے بڑا مجرم بھی نہیں جھیل سکتا۔ چنانچہ اصل
ٹیلنٹ کی قد ر تو انگریز ہی کرتے ہیں۔ ہم توسونے کو بھی پتھر سے تولتے ہیں۔
یہ انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لوگ گھر رہنے سے زیادہ فیس بک پر
رہتے ہیں۔ چنانچہ آج کل سستے لوگوں کے لئے سستی شہرت کمانا کوئی مشکل کام
نہیں۔ آپ کے پاس انٹرنیٹ کی فروانی اور غیرت کی کمی ہونی چاہئے۔ شہرت آپ کے
قدم چومے گی۔ آپ جیسی چاہیں، اُٹ پٹانگ وڈیو، بنا کر اُن لائن، اَپ لوڈ کر
دیں۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں ، فرصت کہ رات دن کاٹنے والے صارفین آپ کی وڈیو کو
پسند نہیں، تو ناپسند تو ضرور کریں گے۔ اگر کسی با احساس آدمی کو آپ کی
وڈیو سے کوئی دکھ ، یا تکلیف پہنچے، تو وہ اپنی رائے بھی دے سکتا ہے۔ طاہر
شاہ کے اینجل گانے پر بھی عوام الناس نے دل کھول کر اپنی رائے دی ، ایک
صاحب کا وڈیو دیکھنے کہ بعد کہنا تھا، کہ ’’مجھے یقین ہو گیا ہے، کہ قیامت
دور نہیں ـ‘‘
ایک نے لکھا کہ ،’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے، کہ میں اب مریخ پر چلا جاوٗں
گا،ــ‘‘
ایک نے گا نا سُن کر طاہر شاہ سے کہا،’’تیری تو فرشتے خوب واٹ لیں گے،‘‘
ایک حضرت لکھتے ہیں کہ،’’ شیطان نے تو ابھی تک خود کشی کر لی ہوگی،ــ‘‘
البتہ ہزاروں صارفین نے اپنے تاثرات ظاہر کئے ، جن کا یہاں لکھنا کچھ مناسب
نہ ہوگا، کیونکہ اُ ن میں زبان کا لغو استعمال حد سے زیادہ ہے۔ جس سے معلوم
ہوتا ہے کہ اس گانے نے سننے والوں کی عزت نفس کو کس قدر مجروح کیا ہے۔ لیکن
میں سمجھتا ہوں، کہ یہ لوگوں کی جیلسی اور موسیقی سے نا واقفی کا نتیجہ ہے۔
ورنہ طاہر شاہ میں ہنر موسیقی کوٹ کوٹ کر بھر اہے۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے
نوری پہ روتی ہے،
تب جا کر کہیں طاہر شاہ جیسا گلوکار دنیا میں پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر اگر
پاکستان میں ، ایک شاہ شاعر ی کر سکتا ہے، ڈاکڑ مذہبی رہنما بن سکتا ہے،
پروفیسر کر کٹ کھیل سکتا ہے، اور بھانڈ سیاست دان بن سکتا ہے، تو پھر کیوں
ایک سنکی گلوکا ر نہیں بن سکتا؟ یہی تو جمہوریت کا حسن ہے۔ آپ کو مکمل
آزادی ہے، کہ آپ کے دل میں جو آئے آپ کریں، لکھیں، گنگنائیں، یا کھیلیں،
کوئی آپ کو نہیں پوچھے گا، بشرطیکہ آپ کہ پاس ٹیلنٹ کے فقدان کے ساتھ پیسہ
کی زیادتی ہے۔ |