موجودہ الیکشن ایک خطرہ اور ایک چیلنج۔ قسط سوئم
(Mian Karim Ullah Qureshi, )
اس ضمن میں بہت ہی دلچسپ اور تاریخی واقعات
جو روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ 28 ستمبر 1996 کے شمارے میں چھپے راقم الحروف کے
مضمون بعنوانی ’’لداخ ہل کونسل کا قیام---- تقسیم کشمیر کی ایک سازش‘‘ ذیل
میں درج اقتباسات میں ملاحظہ فرمائیں۔
’’لداخ بدھ ایسوسی ایشن‘‘ کو دہلی والوں کی آشیرباد حاصل تھی اس نے لداخ
میں بھی ہڑتال اور مظاہروں سے روز مرہ کی زندگی کو مفلوج کر دیا اور بالآخر
ہڑتالوں اور مظاہروں نے فرقہ وارانہ فسادات کا روپ دھار لیا جس کے نتیجے
میں سیکڑوں مسلمان شہید ہواور ہزاروں زخمی ہو گئے۔ ہزاروں مسلمان اپنے ہی
وطن میں بے گھر ہو گئے جو اس وقت تک مہاجروں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔
چنانچہ مسلمانوں نے وقتی ضرورت کے پیش نظر ’’لداخ بدھ ایسوسی ایشن‘‘ کے
مقابلے میں ’’لداخ مسلم ایسوسی ایشن‘‘ جس کا قیام پہلے ہی عمل میں لایا جا
چکا تھا کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیئے آواز بلند کی
اور اس طرح ہر دو تنظیموں کے جلسے اور جلوس 1989 تک جاری رہے۔
1989 کے اواخر میں بھارتی حکومت نے مداخلت کر کے مقبوضہ کشمیر کی حکومت اور
’’لداخ بدھ ایسو سی ایشن‘‘ کے مابین ایک معاہدہ طے کرایا جس کے تحت لداخ کے
عوام کو متعدد دیگر اہم مراعات دیئے جانے کے علاوہ اس خطہ کو ’’دار جیلنگ
گورکھہ ہل کونسل‘‘ کے خطوط پر ایک خود مختار ضلعی کونسل کا درجہ دینے کا
وعدہ کیا گیا۔ اس معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلہ میں جنوری 1990 میں بھارت کے
وزیر داخلہ مسٹر بوٹا سنگھ کی سربراہی میں ’’لداخ بدھ ایسو سی ایشن‘‘ اور
مقبوضہ کشمیر کی حکومت کے مابین بات چیت ہوئی جو ناکام ہو گئی۔ کچھ عرصہ یہ
معاملہ کھٹائی میں پڑا رہا لیکن جونہی مقبوضہ ریاست میں جاری آزادی کی
موجودہ جدوجہد نے طوفانی شکل اختیار کرتے ہوئے بین الاقوامی حیثیت اخیار کی
تو بھارتی بنیئے نے اقوام عالم کی توجہ اس بین الاقوامی مسئلے سے ہٹانے اور
ریاست پر اپنا ناجائز قبضہ جمائے رکھنے کے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی
خاطر تحریک آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیئے ہر محاذ پر سازشوں کا حال بچانے
کے ساتھ ساتھ خطہ لداخ میں دوبارہ فسادات شروع کر دیئے۔ اس طرح ’’لداخ بدھ
ایسو سی ایشن‘‘ نے فروری 1991 سے بھارتی جنتا پارٹی کی شہ پر لداخ کو دہلی
کی زیر کمان دینے کا اپنا مطالبہ منوانے کے لیئے پھر بڑے پیمانے پر ہڑتالوں
اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا لیکن اب کے شروع ہونے والے یہ مظاہرے
1980 کی دبائی سے اس لیئے مختلف اور زہر آلود تھے کہ اب کے ’’بدھ ایسوسی
ایشن‘‘ کے سابقہ نعروں میں ایک اور نعرے کا اضافہ کیا گیا تھا وہ یہ کہ جس
طرح آزاد کشمیر کی حکومت اپنے محدود وسائل اور مخصوص جغرافیائی حالات کے
باعث گلگت بلتستان کے عوام کے مفادات کو بہتر طور نہیں دیکھ سکتی جس کے پیش
نظر وہ خطہ براہ راست پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا ہے اسی طرح سری نگر کی
حکومت بھی لداخیوں کے مفادات کو صحیح اور منصفانہ طور پر نہیں دیکھ سکتی
لہذا لداخ کو براہ راست دہلی کے کنٹرول میں دیا جائے۔ چنانچہ اس موضوع پر
لداخ بدھ ایسوسی ایشن کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی
لیڈروں نے بھی عوامی اجتماعات میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔
معروف روزنامے ’’ہندوستان ٹائمز مورخہ 18 فروری 1991‘‘ کے مطابق ’’بھارتیہ
جنتا پارٹی‘‘ کے وائس پریذیڈنٹ مسٹر کرشن لال شرمانے 24 فروری 1991 کو
’’لداخ بدھ ایسوسی ایشن‘‘ کی ریلی سے اپنے خطاب میں بھارتی حکومت کو تجویز
دی کہ لداخ کو فوری طور پر یونین ٹیریٹری قرار دیا جائے خواہ اس کے لیئے
آئین کے دفعہ 170 میں جس کی رو سے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے
ترمیم ہی کیوں نہ کرنی پرے۔ مسٹر شرما نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس سے بیشتر
کہ یہ بھی کشمیریوں کی طرح ہاتھ میں بندوق اٹھا لیں حکومت کو لداخیوں کا
مطالبہ مان لینا چاہیے۔
اسی اثناء میں ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ نے لداخ بدھ ایسوسی ایشن سے ان کے
مطالبے کے لیئے جموں شہر میں احتجاجی مظاہروں اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ
شروع کرا دیا جس میں جموں کے ڈوگرے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے اور ایک
موقع پر انھوں نے بھی جنتا پارٹی کے جھانسے میں آ کر اور لداخیوں کے دیکھا
دیکھی ’’جموں ہل کونسل‘‘ کا مطالبہ شروع کر دیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں جموں
شہر میں لداخیوں اور ڈوگروں کے کئی مشترک جلسے ہوئے بلکہ متعدد مرتبہ سول
سیکرٹریٹ جموں کے سامنے دھرنے دیئے گئے اور بھوک ہڑتال کی گئی۔ لداخیوں کے
جذبات ابھارنے کے لیئے ان کی حمایت میں جنتا پرٹی کے لیڈر خصوصاً مرلی
منوہر جوشی اور بال ٹھاکرے 2 مارچ 1963 کے پاک چین سرحدی معاہدے کے حوالے
سے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین پر بھی پھبتیاں کستے رہے۔ جنتائی لیڈروں کو
ڈوگروں اور لداخیوں پر اس قدر مائل بہ کرم دیکھتے ہوئے جموں اور دہلی کے
کیمپوں میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ایگ گروپ نے بھی لوہا گرم دیکھ کر ’’پُنن
وطن‘‘ یعنی اپنا وطن کے نام سے مقبوضہ وادی میں پنڈتوں کے لیئے براہ راست
دہلی کے زیر انتظام ’’سیفٹی زونز‘‘ کے قیام کے مطالبہ شروع کر دیا۔ چنانچہ
کشمیری پنڈتوں کی ’’پُنن وطن‘‘ کی یہ تحریک جسے بھارتیہ جنتا پارٹی اور
دوسری شدت پسند ہندو جماعتوں کی آشیرباد حاصل ہے اب بھی زور و شور سے جاری
ہے۔ اس سلسلہ میں کشمیری پنڈتوں نے گزشتہ نو سال سے دہلی اور جموں میں کئی
جلسے جلوس اور مظاہرے کیئے ہیں اور متعدد مرتبہ بھوک ہڑتال بھی کی ہے لہذا
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بھارتی بنیا مقبوضہ ریاست میں اس قسم کی لسانی،
علاقائی اور مذہبی منافرت ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت پھیلا رہا ہے تا کہ
مستقبل قریب میں جب کسی فورم پر تنازعہ کشمیر کے تصفیہ کی بات چلے تو وہ اس
قسم کی تحریکوں کو اتمام حجت کے طور پر استعمال کر سکے۔
شاید اسی صورتحال سے متاثر ہو کر بی بی سی نے 13 نومبر 1991 کو اپنی شام کی
اردو نشریات میں ریاست کے چاروں خطوں جموں، وادی کشمیر، لداخ اور گلگت
بلتستان پر اپنے مفصل تبصرے میں کہا تھا کہ ان چاروں خطوں کی زبان تہذیب و
تمدن پیداوار اور آب و ہوا ایک دوسرے سے الگ ہے۔ بی بی سی نے اپنے اس تبصرے
میں ریاست کے اس علاقے سے متعلق جو مارچ 1963 کے پاک چین سرحدی معاہدے کے
تحت چین کے قبضے میں ہے کہا تھا کہ چین کے لیئے اس علاقے کی اہمیت جہاں
شاہرائے قراقرم تعمیر کی گئی ہے اسی طرح ہے جس طرح اسرائیل کے لیئے گولان
کی پہاڑیوں کی اہمیت ہے کیونکہ وہاں سے چین اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاً روس
اور افغانستان پر براہ راست نظر رکھ سکتا ہے۔ (جاری ہے)
|
|