برطانیہ کے یوروپین یونین سے علٰحیدہ ہونے
کے فیصلے نے مغرب میں ایک سیاسی زلزلہ برپا کردیا۔ اس استصواب رائے سے
یوروپ میں خوشحالی ،رواداری اور مساوات کے سرخیل برطانیہ کا چہرا بے نقاب
ہوگیاہے۔عظیم برطانیہ مختلف زاویوں سےٹوٹا پھوٹا دکھائی دیتا ہے ۔ نوجوان ،تعلیم
یافتہ اور معاشی طور سے خوشحال طبقہ یونین میں شمولیت کا حامی تھا جبکہ کم
پڑھے لکھے ، بدحال عوام اورعمررسیدہ وظیفہ یافتہ لوگوں نے مخالفت کی ،
نتیجے نے واضح کردیا کہ اکثریت میں کون ہے؟ اس تفریق کی وجہ صاف ہے ۔
یوروپی یونین میں شرکت سے اول الذکر طبقے کا فائدہ ہوا اور مؤخرالذکر
خسارے میں رہا۔ خودغرضی کے دورمیں ہر ایک نے اپنے مفادات کے پیش نظر فیصلہ
کیا نہ تو نوجوانوں نے بزرگوں کی رائے کا احترام کیا اور نہ بزرگوں نے اپنی
آئندہ نسل کے روشن مستقبل کیلئے قربانی دینے کی ضرورت محسوس کی۔
اس استصواب نے یہ بھی ظاہر کردیا کہ عوام کا اعتماد بڑی سیاسی جماعتوں کے
اوپر سے اٹھ گیا ہے۔ وہ شدید مایوسی کا شکار ہیں ۔ ان کو اپنی ملازمت کا
خوف ستا رہا ہے اسی لئے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت کے باوجود
علٰحیدگی کو ترجیح دی گئی۔ اتحاد کی حمایت وزیراعظم سمیت سارے بڑے رہنما
کررہے تھے جبکہ اس کی مخالفت کرنے والوں میں برطانیہ کے ڈونالڈ ٹرمپ کہلانے
والے لندن شہر کے سابق مئیر بورس جانسن اور انتہا پسند جماعت یوکے ایل پی
پیش پیش تھی ۔ عوام کی اکثریت نے نام نہاد سلجھے ہوئےروایتی رہنماوں کے
دلائل کو مسترد کرکےعدم روداری کو ترجیح دی۔
اس استصواب نے عظیم برطانیہ کی جغرافیائی تانے بانے کے بھی بخیے ادھیڑ دئیے۔
برطانیہ دراصل لندن، ویلش ، اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کا دفاق ہے ۔ ان چار
میں سے دو اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کی اکثریت نے اتحاد کے حق میں رائے دی
۔ اسکاٹ لینڈ کے عوام اور رہنما یوروپی یونین کے ساتھ اتحاد کو اس قدر
اہمیت دیتے ہیں کہ وہ اس کیلئے برطانیہ سے ناطہ توڑنے کیلئے تیار ہیں۔اس
لئے اسکاٹ لینڈ کی علٰحیدگی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ سال آئر لینڈ نے
ایک نہایت مہین فرق کے ساتھ برطانیہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن
یوروپی یونین کے ساتھ تعلق کی بابت یہ فرق بہت واضح ہوگیا۔ یہ صورتحال خارج
ازمکان نہیں ہے کہ اس فیصلے کے سبب برطانیہ نہ صرف یوروپی یونین کی رکنیت
سے محروم ہوجائے گااسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
یوروپی ممالک صدیوں تک آپس میں برسرِ پیکار رہے ہیں ۔ جس قدر خون خرابہان
لوگوں نے کیا ہے اس کی مثال تاریخ کم ہی ملتی ہے۔باہمی جنگوں کے خاتمے
کیلئے وقتاً فوقتاً اتحاد کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں لیکن وہ دیر پاثابت نہیں
ہوتیں ۔ ۱۹۱۰ میں اس طرح کی ایک کوشش ہوئی تھی اور اس بات کی امید کی
جارہی تھی کہ اب جنگ نہیں ہوگی لیکن پھر یکے بعد دیگرےدو عظیم جنگوں میں
لاکھوں جانیں تلف ہوئیں ۔ اس کے بعد تھکے ہارے یوروپ نے ۱۹۴۵ میں اقوام
متحدہ کے ذریعہ امن قائم کرنے کی کوشش کی اور پھر آگے بڑھ کر یوروپی یونین
بنا کر معاشی خوشحالی کا خواب دیکھا لیکن وہ شرمندۂ تعبیر ہوتا دکھائی
نہیں دیتا۔
جنگ عظیم کے بعد یوروپ یہ ضرور ہوا کہ موروثی بادشاہوں کی جگہ جمہوری اشراف
نے لےلی مگر عوام بدستور جبر استحصال کی چکی میں پستے رہے ۔عالمی کھلی منڈی
نےسرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ میں اضافہ کیا اور نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے غم
وغصہ کا اظہار نہ صرف اس طرح کے استصواب بلکہ قومی انتخابات میں بھی ہورہا
ہے ۔جذباتی استحصال کرنے والےروشن خیال رہنماوں کی چکنی چپڑی باتوں سے عوام
بیزار ہو چکے ہیں۔اس لئے سیاست اور سرمایہ داری کی سانٹھ گانٹھ نے ان کا
جینا دوبھر کردیا ہے۔ مغرب کے علمبرداروں کا ہر بین الاقوامی اتحاد عدم
مساوات کاشکار رہا۔ اقوام متحدہ میں مٹھی بھر ممالک ویٹو کی مدد سے اپنی من
مانی کرتےہیں ۔ یوروپی یونین میں جرمنی اور فرانس جیسے خوشحال ممالک اپنی
مرضی کے مطابق ایسےمعاشی اصلاحات دیگر ارکان ممالک پر تھوپتے رہے جس سے ان
کا فائدہ اور دوسروں کا نقصان ہوتا ہے ۔ اس مسلط شدہ معاشی غلامی کی زد میں
کمزور طبقات آئے اورانہوں نعرہ لگایا ’’ہمیں اپنا ملک واپس چاہئے‘‘ نیز
کامیابی کے بعد اسے ’’برطانیہ کی آزادی‘‘ سے موسوم کیا۔
مغربی حکمرانوں کے ذریعہ بلند کئے جانے والے فلاح وبہبود اور مساوات و
خوشحالی کے خوشنما نعرے اس لئے کھوکھلے ٹھہرتے ہیں کہ ان میں اخلاص کے
بجائے مفاد پرستی ہوتی ہے۔ سیکولرزم کے ان حامیوں کے اندرخدا خوفی کا فقدان
ہوتا ہے اس لئے یہ موقع پاتے ہی استحصال میں جٹ جاتے ہیں ۔ ان کے پاس
الہامی معیار حق نہیں ہوتا اس لئے ابن الوقتی کے تحت نت نئے ضابطے تشکیل
وضع کر کے اپنے گھناونے مقاصد کو حاصل کیا جاتاہے۔عوام کی حق تلفی روکنے
والا آخرت کا عقیدہ معدوم ہونے کے سبب یہ بگ ٹٹ تباہی و بربادی کی راہ پر
دوڑتے چلے جاتےہیں ۔ یہ لوگ دوسرے ممالک کا استحصال کرتے کرتے خود اپنی
عوام کو بھی نہیں بخشتے۔بریکزٹ اس رویہ کے خلاف ظاہر ہونے والا ردعمل ہے۔
ماہ اپریل میں آسٹریا کے اندرصدارتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس کے پہلے
دور میں انتہا پسند دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی کے امیدوار ہوفر نے
زبردست کامیابی درج کراتے ہوئے سب سے زیادہ ۳۵ فیصد ووٹ حاصل کئے۔ دوسرے
نمبر پرگرین نام کی نئی جماعت کے امیدوار بیلن کو ۲۱ فیصد ووٹ ملے۔ ایک
آزاد امیدوارگریس ۱۹ فیصد ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر آیا اور گزشتہ
ساٹھ سالوں سےادل بدل کر اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے والے سوشیل ڈیموکریٹک
اور پیوپلس پارٹی کے امیدواروں کو ۱۱ فیصد پر اکتفاء کرنا پڑا۔ آسٹریا کے
دستور میں صدارتی امیدوار کیلئے ۵۰ فیصد سے زائد ووٹ لازمی ہوتے ہیں اس لئے
دوسرے دور میں صرف پہلے دو امیدوار میدان میں تھے ۔ مئی کے اندر ہونے والے
دوسرے دور میں بھی پہلے ہوفر کو ۹ء۵۱ فیصد ووٹ ملے لیکن جب پوسٹل ووٹ شمار
کئے گئے تو بیلن کے ۳ء۵۰ ہوگئے اور وہ ۶ء۰ فیصد کے فرق سے کامیاب ہوگئے ۔
اس طرح یوروپ پہلے انتہا پسند دائیں بازو کے سربراہ سے بال بال بچ گیا۔
آسٹریا میں رائے دہندگان کی تقسیم بالکل برطانیہ کی مانند تھی ۔ کم پڑھے
لکھے، مفلوک الحال اور دیہات کے لوگ ہوفر کے ساتھ تھے اورشہروں میں رہنے
والا آسودہ حال تعلیم یافتہطبقہ بیلن کے ساتھ تھا۔ عوام کی معاشی محرومی
کو فی الحال قوم پرست دائیں بازو کی جماعتیں اپنے حق میں استعمال کررہی ہیں
اور انہیں کامیابی ملنے لگی ہے۔ ہوفر بھی یوروپی یونین سے متنفر ہے۔ وہ
مہاجرین کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور اسلام کے خلاف زہر اگلتا ہے ۔ وہ عوام
کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کی بیروزگاری کیلئے مسلم مہاجرین ذمہ
دار ہیں ۔ حالانکہ عالمی منڈی جب سے کھول دی گئی صنعت و حرفت کی پیداورا
چین اورکوریا جیسے ممالک کی جانب منتقل ہوگئی اس سےیوروپ اور امریکہ میں
بیروزگاری آئی ۔اس حقیقت کو تسلیم کرنا چونکہ سرمایہ دارسرپرستوں کےخلاف
ہے اس لئے قومی تشخص کا شور مچا کر ایک فرضی دشمن کے خلاف عوام کو بھڑکا یا
اور گمراہ کیا جاتا ہے۔
فریڈم پارٹی جیسی جماعتیں یوروپ کے مختلف ممالک مثلاً جرمنی ، فرانس ،
نیدرلینڈ وغیرہ میں بھی پیر پھیلانے لگی ہیں اور سبھی کے طریقۂ کار میں
بلاکی یکسانیت ہے اس لئے ان کا مقصدونظریہ مشترک ہے۔ ویسے امریکی انتخاب
میں ڈونالڈ ٹرمپ کی روز افزوں مقبولت بھی اسی سبب سے ہے ۔ وہ بھی پہلے
امریکہ پھر عالمی مفادات کا نعرہ لگاتا ہے۔ مسلمانوں بلکہ میکسیکو
کےمہاجرین کے خلاف بھی آئے دن عوام کے جذبات سے کھیلتا ہے لیکن چینی
مصنوعات کے خلاف زبان نہیں کھولتا اس لئے کہ وہ خود سرمایہ دار ہے اور
جانتا ہے کہ پانی کہاں مرتا ہے۔ اسی ہفتہ فلپائن کے اندر اقتدار پر فائز
ہونے والے ڈیوٹرٹےکا بھی یہی حال ہے۔ ڈیوٹرٹے اس سے پہلے دوائے نامی شہر کا
۲۰ سالوں تک مئیر تھا اور اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا اپنانجی گروہ
تھا جو اسمگلرس کو عدالتی فیصلے بغیرموت کے گھاٹ اتار دیتا تھا ۔ دیوٹرٹے
نے اعلان کیا ہے کہ وہ نشیلی اشیاء کے اسمگلرس کی معلومات فراہم کریں یا
اپنی بندوق سے خود انہیں ہلاک کردیں ۔ جو اسمگلر کو مارکر آئیگا اس کو
میری جانب سے تمغہ دیا جائیگا۔ اگر اس طرح کا اعلان کوئی مسلم سربراہ کرتا
تو اسلام کو بدنا م کرنے کیلئے نہ جانے کیسا طوفان برپا کردیا جاتا لیکن
خوش قسمتی ڈیوٹرٹے جمہوریت نواز عیسائی ہے۔
مغربی جمہوریت کے تئیں عوامی بے چینی کا اظہار ساری دنیا میں ہورہا ہے۔
بریکزیٹ کے بعد نیدر لینڈ کا نیکزٹ آرہا ہے۔ اگریہ سلسلہ جاری رہا تو بہت
جلدیوروپی یونین میں ۲۸ کے بجائے ۸ ممالک باقی بچیں گے لیکن جب فرانس اور
جرمنی پر پھر سے قوم پرستی کا آسیب سوار ہوگا تو سوویت یونین کی طرح
یوروپی یونین کا جغرافیہ بھی ہوا میں تحلیل ہو جائیگا اور وہ تاریخ کا حصہ
بن جائیگا۔ یوروپ کے مختلف ممالک میں قوم پرست جماعتوں کے اقتدار سنبھالنے
کے بعد لازماً پھر ایک بار جنگ و جدال کا بازار گرم ہوجائیگا۔ خوشحالی کی
امید میں قوم پرستوں کی حمایت کرنے والے بھولے بھالے عوام کو قتل و غارتگری
کی آگ میں جھونک دئیے جائیں گے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ یوروپ کی سیاہ
تاریخ کا اعادہ ہے۔
یہ ایک عریاں حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں تمام تر خوش کن
نعروں اور دعووں کے باوجود دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں سمٹتی جارہی ہے
اور امیر و غریب طبقات کے درمیان تفاوت بڑھتا جارہا ہے۔ اس رحجان کا ردعمل
مختلف انداز میں سامنے آرہا ہے لیکن مغرب اسے مروجہ سیاسی نظام کی ناکامی
کے طور پر تسلیم کرنے سے گریز کررہا ہے۔ عوام کو قوم پرستی کا افیون پلا کر
ان کی توجہ نفسِ مسئلہ سے ہٹا ئی جارہی ہے ۔ اسلام کے خلاف اس قدر نفرت
پیدا کردی گئی ہے کہ عوام اسلام کے نظام رحمت کی جانب توجہ ہی نہیں دے
پاتے۔ اس بابت مغربی دانشوروں کی نفرت انگیزی کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کے
معاندانہ کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس ماحول نے اسلام پسندوں کے
حوصلے پست کردئیے ان کے اندر سرائیت کرنے والی خوداعتمادی کی کمی دین اسلام
کو ایک متبادل نظام حیات کے طور پر پیش کرنے میں مانع ہورہی ہے۔
مغرب کے دانشور فی الحال دوحصوں میں منقسم ہیں ۔ ایک کا رویہ ان کی جہالت
کا شاخسانہ ہے اور دوسرے تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔ اس کو مریض اور
طبیب کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ جب کوئی ڈاکٹر بیماری تشخیص کرنے میں
ناکام ہوجاتا ہے تو وہ درد مٹانے والی ادویات کا سہارہ لیتا ہے۔ ایسا کرنے
سے مرض کا علاج تو نہیں ہوتا لیکن مریض کو اپنی تکلیف کا احساس نہیں
ہوپاتا۔ وہ اس خوش فہمی کا شکار ہوجاتا ہے کہ صحتیاب ہورہا ہےجبکہ حقیقت
میں اندر ہی اندر بیماری اس کو کھوکھلا کررہی ہوتی ہے۔ جمہوری انتخاب سے فی
الحال یہی کام لیا جارہا ہے۔ اس کے ذریعہ عوام کے غم غصے کا اظہار ہوجاتا
ہے ۔ عارضی طور پر وہ نئےخوابوں اور امیدوں کے سہارے اپنے دکھ درد بھول
جاتے ہیں لیکن اچھے دنوں کے بلند بانگ دعووں کے باوجود حالات نہیں بدلتے
اور وہ بار بار مایوسی کا شکار ہوتےرہتے ہیں ۔یہ جاہل ڈاکٹروں کے ہاتھوں
بھولے بھالے مریضوں کی حالت زار کی داستان ِ الم ہے۔
تجاہل عارفانہ کا شکار طبیب بیماری اور علاج دونوں سے واقف ہے لیکن اسلام
کا سیدھا سادہ نسخۂ کیمیاء اس کے ذاتی مفادات سے ٹکراتا ہے۔ میڈیکل کی
دنیا میں پائی جانے والی بدعنوانی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ ہر ٹسٹ
پر کمیشن ہے ۔ اس لئے غیر ضروری جانچ پڑتال بلکہ مہنگے مہنگے سی ٹی سکان
وغیرہ بھی بلا ضرورت کرائے جاتے ہیں ۔ اس میں مریض کی مجبوری کا فائدہ اٹھا
کرجانچ پڑتال کرنے اور کرانے والے(طبیب)مریض کی جیب خالی کرلیتے ہیں ۔
اسپتالاورادویات بنانے والی بڑی بڑی کمپنیاں بھی یہی کرتی ہیں ۔ طبی
انشورنس کا پھلتا پھولتا کاروبار اسی گورکھ دھندے کا حصہ ہے۔ اس سےمریض کے
علاوہ ہر کسی کے وارے نیارے ہوتے ہیں ۔ سیاسی سطح پرجب استحصال حدوں سے گذر
جاتا توعوام بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو قوم پرستی کی آگ بھڑکائی جاتی
ہے اپنے ہی ملک کے اندر یا باہر کے خیالی دشمن سے خوفزدہ کرکے اپنے کالے
کرتوتوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے ۔
برطانیہ کے استصواب اور آسٹریا کے انتخابی نتائج میں یک گونہ مماثلٹ ہے۔
فلپائن اور ہندوستان میں آنے والی اقتدار کی تبدیلی بھی ایک دوسرے مشابہ
ہے اورامریکی انتخابی مہم بھی انہیں خطوط پر چل رہی ہے ۔ ساری بڑی سیاسی
جماعتوں کی حمایت کے باوجود برطانیہ کی عوام کا الگ ہونے کا فیصلہ کرنا یا
آسٹریاکے صدارتی انتخاب میں برسوں تک حکومت کرنے والی جماعتوں کا چوتھے
اور پانچویں مقام پہنچ جانا۔امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ جیسے غیر روایتی سیاسی
شخصیت کا صدارتی امیدوار بن جانااور فلپائن میں غیر دستوری قتل و غارتگری
(انکاونٹر)کے حامی ڈیٹرائٹ کا صدر منتخب ہوجانایا ہندوستان میں گجرات قتل
عام کے سوتردھار نریندر مودی کا وزیراعظم بن جانا مشترک مرض کی مختلف
علامتیں ہیں ۔ ان میں سے کسی ملک میں اسلامی سیاسی بیداری کا شائبہ تک نہیں
ہے اوریہ سب کی سب مغربی جمہوریت پر برسوں سے کاربند ہیں۔ ان تمام مقامات
پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ان
سارے ممالک میں عدم رواداری کے پہلو بہ پہلو مسلمانوں کی مخالفت صاف نظر
آتی ہے۔
اس معاملے کو ماں اور بچہ کی مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔شیرخوار بچہ جب
بھوکا ہو تا ہے تو روتا ہے ۔ ماں جب اس کو اپنے سینے سے لگا کر اس کی بھوک
مٹاتی ہے تووہ سکون سے سوجاتا ہے لیکن اگر ماں نے مجبوری میں نہیں بلکہہوس
دنیا کی خاطراپنے اوپر غیر ضروری مصروفیات اوڑھ رکھی ہوں تو بچوں کو
کھلونوں سے بہلایا جاتا ہے ۔ غیر ضروری مشغولیات الجھی ماں اولاد کی
نگہداشت سے قاصر رہتی ہے ۔ ایسے میں اولاد عدم توجہی کا شکار ہوجاتے ہیں یا
آیاوں کے حوالے کردئیے جاتے ہیں۔ آیا ایک حد تک خیال رکھتی ہے لیکن پھر
تنگ آکر بچے کو دودھ کے ساتھ افیون پلاکر سلا دیتی ہے۔ مغرب کے دانشور
اپنی عوام کو قوم پرستی کا افیون آب حیات کی مانند بتا کر پلاتے
ہیںمگرمذہب کو افیون قرارد ے کر مسترد کردیتے ہیں ۔ دین اسلام کے ان
مخالفین کے سامنے جب اسلام ایک متبادل نظام بن کر آتا ہے تو یہ مصر کی طرح
چور دروازے سے فوج کی مدد لے کرمنتخبہ حکومت کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ ترکی
جیسے ملک اگریہ ممکن نہیں ہوپاتا تو سیاحت کی اہم معیشت کو تباہ کرنے کیلئے
ہوائی اڈوں پر دھماکے کرواتے ہیں۔ عالمی کھلی منڈی کے نام پر معاشی استحصال
اور قوم پرستی کے ذریعہ سیاسی نفرت پھیلانے والوں کیلئےبریکزیٹ تازیانۂ
عبرت ہے ۔انہیں یاد رکھنا چاہئے؎
دیار مغرب کے رہنے والو ! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ ناپا ئیدار ہوگا |