معلوم اور نا معلوم

اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام اور حوّا علیہ السلام کو جنت عطا کی تو اُن کو ایک درخت کے سوا تمام انوع و اقسام کے میوے کھانے کی اجازت مرحمت فر ما د ی ۔ کچھ عر صہ تو آپ اس سے دور ر ہے مگر دوری روز بروز ہجر کی شکل اختیار کر گئی اور آخر اس تڑپ نے کہ اس درخت میں ایسی کیا بات ہے؟آدم کو اُکسا یا اور شیطان نے اُسے اُمید اور تر غیب دلا ئی اور حضرت انساں نے اُس درخت کا میو ہ چکھ لیا ۔ یہ دُنیا اور اس میں مو جود آسا ئش و مصا ئب اُس میوے کا ذائقہ ہے جو تا قیامت اولاد آدم کے منہ سے نہیں جا ئے گا۔

اب ایک اورکہا نی کو دیکھتے ہیں ، د ُنیا کا کو ئی ایک جزیرہ ہے جس کے باسی جد ید د نیا اور مذہب سے بلکل نا آشناں ہیں یہ لو گ بر ہنا ر ہتے ہیں ر شتوں کا کو ئی تصور نہیں ۔ماں اور بچے کا ر شتہ صرف اُس وقت تک کے لیے ہے جب تک بچہ چلنا نہیں شرو ع کر تا اور بس اُس کے بعد کون ماں؟ اور کون بچہ ؟ اس قبلیے کے لوگوں کی کیا اخلا قیات ہوگی اور کیا معاش؟ آپ با خو بی سمجھ سکتے ہیں ۔

اب ایک اور کہا نی کو دیکھیں جہاں لوگوں کو سمجھا نے کے لیے معلم بھیجے گئے جنہوں نے بتا یا ماں کا کیا مقام ہے اور باپ کا کیا مقام ہے بہن کی کیا حُرمت ہے۔ اور بیٹی کا کیا تقدس ہے ۔ شر یک حیات کا انتخاب کیسے ہو گا ۔ پھر کمیو نٹی کے کیا حقوق ہونگے ۔ یہ سب احکام بجا لا نے کا صلہ کیا ہو گا ؟ان تین حوالوں کا تجز یہ کر یں تو جو جواب ہمار ے حصے میں آئے گا وہ یہ ہے کہ معلوم اور نا معلوم کا فر ق ہی گناہ اور ثواب ہے ۔ جو چیز ہمار ے معلوم سے با ہر ہے وہ کچھ بھی نہیں اور جو چیز ہمیں معلوم ہے ۔ اُس کی تکذیب و تا ئید ہی اصل میں گناہ اور ثواب ہے ۔ کن اعمال کی ادائیگی یا کن ا عمال سے پر ہیز کر نا گناہ یا ثواب ہے یہ ابھی ہمارا مو ضوع نہیں ہے ۔

اب ہم یا جد ید د نیا جس ما حول میں رہ ر ہی ہے وہاں نا معلوم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔سب معلوم ہی معلوم ہے پھر کیوں آج انسان غار کے انسان سے زیادہ غیر محفوظ ہے؟آج اگر چرچ،مندر یا مسجد کو بم سے اُڑانا جا ئز ہے اور ایسا ہو ر ہا ہے تو کہاں ہے تعلیم؟ اور ا گر مذہب کی بنیاد پر حقوق و فرائض تقسیم ہیں تو آج کے مُہذب انسان کی تر بیت کیا ہو ئی ؟ اقوام متحدہ کہاں ،متحد ہیں؟انسان کا دُکھ نوالہ نہیں ہے ۔تشخص ہے جو قدرت اُس کو دے کر بھیجتی ہے ۔اُسے لاکھ زمین کے ٹکڑوں ،جلد کی رنگت،زبان اور نسل میں تقسیم کرو مگر وہ ایک ا کا ئی ہے ۔ ماں ہر ملک میں ماں ہے ، بیٹی ہر قوم میں بیٹی ہے ، بہن ہر رنگ میں بہن ہے، ہر نسل میں بچوں کو پھول ہی کہا جا تا ہے ۔ہر جان کی حُر مت ہے ۔ کیا مذہب ،زبان ،رنگ،قومیت اور علا قہ تبدیل ہو نے کے ساتھ ہی میری بیٹی،ماں ،بہن،بھائی میری زندگی (جو اُس پر وردیگار کی عنا ئیت ہےجو جانتا ہے کہ میں کب کو نسا مذہب اور فر قہ اختیار کروں گا۔ پھر بھی میں واجب والقتل ہوں) سب انسانیت سے خارج ہو جا تے ہیں ۔اتنا سخت تو وہ انسان بھی نہیں تھا جسے تم مُہذب لوگ و حشی کہتے ہو۔ ایک وقت تھا جب بیت اللہ غیر مسلموں کے قبضہ میں تھا اُسے فتح تو کیا گیا مگر تباہ نہیں ۔ مگر آج تو مسجد نبویؐ اور بیت اللہ کے درو دیوار بھی دہشت زدہ ہیں اتنے دہشت زدہ تو ابراہا کے ہاتھیوں کے لشکر سے بھی نہ ہو ئے تھے ۔

میں گناہ اور ثواب کی تعریفوں سے بد زن ہو گیا ہوں کہ ہر گروہ کی اپنی ہی وضح کر دہ تعریف ہے۔ اس لیے عہد کُہن کی تعریف کو کسوٹی بنا کر پیش کر ر ہا ہوں ۔ کہ شاید کسی پہ اثر کر جا ئے ۔ اچھی بات ہر کو ئی جانتا ہے مگر اچھے عمل سے عاری ہے کیا اقوام عالم اور کیا قوم مسلم۔انسان کا سب سے بڑا مسئلہ اُس کا تشخص ہے ۔ سارے فنڈ ساری ذہانت فقط Human respect پر لگا دو ۔پھر دیکھو ہر کالے اور گور ے عربی اور عجمی کا مسئلہ کیسے حل ہو تا ہے ۔ گناہ کی کسوٹی معلوم اور نا معلوم کو بناو۔ آدم کو معلوم تھا اس در خت کا پھل نہیں کھا نا ، پھر کھا یا تو گناہگار چا ہیے پیغمبر اور جدامجد تھا۔ اسے کہتے ہیں قا نون!اب آپ کو فیصلہ کر نا ہے کہ ہم آدم ہیں ،یا وہ قبیلہ جس تک ہدایت اور تعلیم نہیں آئی ،مگر یاد ر کھیں پھر آپ کی بھی ماں ، بہن ، بیٹی نہیں ہو نی چا ہیے اور اگر آج میں آپ کے مذہب اور فر قے میں واجبالقتل ہوں تو کل آپ بھی ہو سکتے ہیں ۔ اختتام کہاں ہو گا یقیناً جہاں انسان ختم ہوگا۔انسا نیت تو کب کی نا پید ہو چکی دیکھتے ہیں انسان کس روز صفحہ ہستی سے نا پید ہو تا ہے ۔
A.R Ikhlas
About the Author: A.R Ikhlas Read More Articles by A.R Ikhlas: 37 Articles with 31705 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.