سب آموز کہانی اورہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
اﷲ رب العزت کے نیک بندے ہر لمحہ نیکی و
فلاح کے کامو ں کی تلاش میں رہتے ہیں ، خواہ اس کے لیے انہیں خود آزمائشوں
سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑ جائے، وہ معاشرے کے اندر لازوال مثالیں قائم کر
دیتے ہیں جن پر انسان کو انسانیت پر ناز ہونے لگتا ہے، اور یہ ہی وہ لوگ
ہیں جو اپنی "میں" کو پس ِ پشت ڈال کر رب کی خوشنودی کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک ایسی ہی عظیم داستان میرے دوست جو کہ ڈاکٹر کے مقدس شعبہ سے تعلق رکھتے
ہیں ان سے ساتھ پیش آئی ۔۔۔ آئیے ان کی زبانی سنتے ہیں:
یہ اُن دنو ں کی بات ہے جب ہماری ڈیوٹی شانگلہ کے علاقہ میں تھی ، سردموسم
کی یخ بستہ لمبی راتیں۔۔۔ بمشکل بستر گرم کیا تھا کہ نرسنگ سٹاف تیزی سے
کمرے میں داخل ہوا اس کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ دروازے کے کُھلنے سے
انگیٹی میں لگی آگ نے بھی ایک ہچکولا کھایا اور ایک یخ ہوا کے جھونکے کے
محسوس ہوتے ہی آنکھ کھل گئی تو سٹاف کو سامنے کھڑا دیکھا جس کے چہرے کی
ہوائیاں اُڑ رہی تھیں،سرد موسم میں بھی اس کے چہرے پر پسینے کے آثار واضح
نظر آرہے تھے،جس کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے پارہے تھے، اس کی یہ حالت
دیکھ کر میں منہ سے یک دم نکلا کیوں۔۔۔؟؟؟ کیا ہوا۔۔۔؟؟؟ کیوں اتنی جلد ی
میں ہو۔۔۔؟؟؟ وہ بے چارہ ہلبلارہا تھا اس کی کیفیات سے میں سمجھ گیا کہ
معاملہ کچھ سنگین نوعیت کا ہے۔ ۔۔باآخر اُس نے سانس و الفاظ کا ملاپ کیا
اور بولا کہ صاحب وہ ایمرجنسی میں ایک مریض آیا ہے جس کی حالت انتہائی
سنگین ہے ، یہ خبر سنتے ہی میں سٹاف سے پہلے ایمرجنسی کی طرف بھاگا۔ادھر
پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ جن کی عمر ساٹھ پینسٹھ سال ، سفید براق
داڑھی ، چہرے پر نور ایسا کہ دیکھنے والا آدمی دو منٹ تک بنا آنکھ چپکے
دیکھتا رہے۔ ان کو مارنے والے ظالم نے سارا پیٹ ہی پھاڑ دیا تھا، تمام کپڑے
خون میں لت پت ، معلوم چلا کہ بیٹوں اور بھتیجوں کے تنازع میں بچ بچا کر
رہے تھے کہ بھتیجوں نے پے درپے چھریوں کے وار کر کے سارا پیٹ ہی گویا کھول
کر رکھ دیا تھا، پیٹ سے انتڑیاں باہر (اومینٹم) یعنی وہ پردہ جس کے عقب میں
انٹریاں ہوتی ہیں وہاں تک کٹا ہوا تھا ، عقل انسانی محو حیرت کہ یہ کیونکہ
اب تک زندہ ہیں۔۔۔؟؟؟ زخم کھلے ہوئے بھی چھ ، سات گھنٹے گزر چکے تھے، اور
اوپر سے مزید حیرت کہ وہ صرف زندہ ہی نہیں بلکہ مکمل ہوش و حواس میں باتیں
بھی کر رہے تھے اور کچھ پڑھ بھی رہے تھے۔۔۔ خیر میں نے جلد از جلد ان کو
آپریٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور سٹاف کو بولا کہ ان کو جلد از جلد شفٹ کیا
جائے اور خو ن وغیر ہ کا بندو بست بھی کیا جائے۔۔۔ تقریباََ کل ملا کر آٹھ
گھنٹے سے کھلے پیٹ والا مریض جو حالت ِ مرگ میں تھا، جب ان کو میز پر لٹایا
گیا اور میں نے کمر میں ٹیکہ لگانے کی کوشش کی تو انھوں نے میرے ہوش و ہواس
اور باختہ کر دیئے جب میرا ہاتھ پکڑ کر وہ بولے کہ "زندگی اﷲ کے ہاتھ میں
ہے، ابھی میرا وقت نہیں آیا "۔ خیر رب کریم کا شکر کہ آپریشن سے فارغ ہوا
تو گھر جانے کے بجائے رات ہسپتال میں ہی رکنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ ساری رات ان
کا وہ چمکتا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا، اور ان کے الفاظ کانوں میں
بار با ر سنائی دیتے رہے۔۔۔ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد میں سیدھا ان کی طرف
لپکا ۔۔۔ان کی نبض چیک کی، ٹھیک چل رہی تھی ، تمام متعلقہ سٹاف کو لمحہ بہ
لمحہ ان کا چیک اپ کرنے کی ہدایت کر کے چلا گیا۔ تیسرے دن جب پولیس کو میں
اپنے ساتھ لے کر بیان ریکارڈ کروانے کے لیے آیا تو ان بزرگ کی باتیں سن کر
میں خود حیران ہو گیا، انھوں نے پولیس کو بیان دینے سے ہی انکار کر دیا اور
بولے کہ میں نے اُن کو معاف کر دیا وہ میرے اپنے بھتیجے ہیں گو کہ انھوں نے
ان کو معاف کر دیا کہ جنہوں نے اپنی طرف سے ان کو مار ہی ڈالا تھا، پولیس
کے چلے جانے کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا۔۔۔؟؟؟ تو وہ
بولے ڈاکٹر صاحب۔۔۔!!! اتنے بڑے حادثے سے میرے زندہ بچ جانے کے چانس کس قدر
کم تھا کہ اگر میں اس حادثے میں مر جاتا تو میرے بھتیجے میرے قتل میں
گرفتار ہو جاتے کسی کو سزائے موت ہو جاتی اور کسی کو عمر قید۔۔۔اُن میرے
بھتیجوں کو جن کا باپ میرا بڑا بھائی تھااور ایسا بھائی کہ جس نے اپنی
زندگی اپنے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے وقف کر دی تھی اور آج جب وہ اس دنیا
میں نہیں ہے تو میں اپنے نادان بھتیجوں کی اس چھوٹی سی نادانی سے ان کو یہ
صلہ دیتا ۔۔۔تو میں دوبارہ مل جانے والی زندگی پر اپنے رب ِ کریم کا شکر
ادا کرتا ہوں اور اس زندگی کو اپنے بھائی کے نام کرتا ہوں اوراپنے نادان
بچوں کو معاف کرتا ہوں اور صدا عمر اُن کے لیے دعاکرتا رہونگا کہ میرا رب
کریم تمام ہی دنیا کے بچوں کو اپنے بزرگوں کا ادب احترام کرنے کو توفیق دے
۔۔۔ اور ہم کو بھی چاہیے کے بچوں سے اگر نادانی ہو جائے تو ان کی چھوٹی
چھوٹی نادانیوں کے سبب اپنے بھائیوں کے احسانات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے
۔۔۔بڑے پن کا مظاہر ہ کر کے ان کی نادانیوں کو معاف کر دیا کریں۔۔۔ تو آپ
دیکھیں گئے کہ آپ اپنے خاندان کو ایک جگہ پر اکھٹا پائیں گئے۔۔۔ کسی قسم کے
تناظر کا پیدا ہونا تو انتہائی مشکل بلکہ لوگ آ پ کے اس بھائی چارے کی اپنی
آنے والی نسلو ں کو بھی مثالیں دیں گئے۔۔۔ |
|