دنیا کے نقشے پر موجود اسلامی ممالک میں
اکثریت دہشتگردی کا شکار ہے بظاہر مسلمان دکھائی دینے والے پاکستان سے شام
تک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کو عمل خیر اور جنت میں داخلے کا کامیاب نسخہ
تجویز کیے ہوئے ہیں، بھارت پاکستان پر اپنے اندر ہونے والی دہشت گرد
کارروائیوں کا الزام پاکستان کے سرتھونپتا ہے اور پاکستان کے سکیورٹی کے
ذمہ دار اداروں کو ملک بھر میں ہونے والی بربریت کے پس پردہ بھارتی ہاتھ
سوجھتا ہے۔نیپال ،سری لنکا اور آس پاس کے دیگر چھوٹے ممالک بھی اپنے ہاں
ہونے والی دہشتگردی کو بھارت کی طرف سے عدم استحکام کا شکار کرنے کی بو نظر
آتی ہے اور وہ اس کا الزام بھی دلی سرکار کو دیتے ہیں۔افغانستان اور
پاکستان بھی ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
لیبیا، تیونس، یمن ،شام، میں بھی آگ اور خون کا کھیل جاری ہے اور ان ممالک
میں برسرپیکار ممالک ایران، سعودی عرب کو اس آگ کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا
ہے، ایران کے ساتھ لبنانی تنظیم ’’حزب اﷲ‘‘ کا نام بھی استعمال کیا جا رہا
ہے،شیعہ تنظیم’’ وحدت مسلین پاکستان‘‘ کے ڈپٹی سکریٹری جنرل علامہ محمد
امین شہیدی نے تو برملا اعتراف کیا ہے کہ ’’ شام میں داعش کے خلاف ایرانی
فورسز اور حزب اﷲ برسرپیکار ہیں‘‘ سعودی عرب کے حامیان اس حقیقت کو تسلیم
کریں یا نہ کریں کہ داعش کی پیدائش اور پرورش میں سعودی عرب،قطر اور
امریکیوں کا اہم کردار رہا ہے ،داعش کو جاپان اور دیگر ذرائع سے اسلحہ کی
ترسیل میں قطری حکومت کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،ممکن ہے کہ جب داعش
نے سعودی عرب کو بھی اپنا دشمن قرار دیا ہو تو سعودی عرب اس کی حمایت سے
دست کش ہوگیا ہو،مگر امریکہ آج تک داعش کی سرپرستی کے فرائض نبھا نے میں
اپنی ذامہ داریوں پوری کرہا ہے ،لیکن امریکہ تو آج بھی داعش کی سرپرستی اور
پشت پناہی کا فریضہ نبھا رہا ہے۔
داعش نے سعودی عرب اور ایران کو اپنے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرکھا ہے
شائد ہم مسلک ہونے کی بنیاد پرمولانافضل الررحمان خلیل ایران کے داعش کی
نظر بد سے محفوظ رہنے پر معترض ہیں کہ اگر ایران داعش کے مخالفین کی سٖ میں
شمار ہوتا ہے تو پھر ایران داعش کے حملوں سے محفوظ کیسے ہے؟ہونا تو یہ
چاہیے کہ مولانا فضل الررحمان خلیل ایران کے دہشت گردی سے محفوظ رہنے پر
شادیانے بھلے نہ بجائیں اﷲ کا شکر تو ادا کریں کہ چلو مسلمانوں کا ایک ایسا
ملک جو مسلمہ ایک طاقت ہے دہشت گردی کی لعنت سے بچا ہوا ہے۔ مولانا فضل
الرڑحمان خلیل کی ایران کے پرسکون رہنے سے اضطرابی صورتحال میں مبتلا ہونے
کا مقصد عیاں ہے ان کی تمنا ہے کہ ایران میں بھی داعش اپنی کارروائیوں کا
مرکز بنانے سے کیوں گریزاں ہے
مسلمان ہر جگہ پر بربریت کا مظاہرہ کرسکتا ہے لیکن مکہ اور مدینہ( جسے وہ
اپنی عاقبت کے سنوارنے اور بخشش کے لیے ایک ذریعہ خیال ہی نہیں سمجھتا بھی
ہے) کو تباہ و برباد کرنے کا تصور تک نہیں کرسکتا ……اگر مدینہ منورہ میں
ہونے والے دھماکوں میں مسلمان ملوث نہیں تو پھر کون بدبخت ہو سکتا
ہے؟ابتدائی تحقیقات کے مطابق مدینے میں دھماکوں میں ایک سعودی شہری ملوث
پایا گیا ہے، اس کا عقیدہ کیا ہے سیاسی طور پر یہ کس قبلہ کا پیروکار ہیاس
کے سرپرستوں میں کون کون مکروہ چہرے(ممالک) سامنے آتے ہیں……ان دھماکوں کے
ذریعہ یہ بدبخت درندہ کن مقاصد کی تکمیل چاہتا تھا؟ ان سب حقائق کو جاننے
اور سامنے آنے تک ہمیں کچھ وقت انتظار کرنا ہوگا۔
سعودی عرب خصوصا مدنیہ منورہ جیسی ’’امن کا جاہ‘‘ کو دہشت گردی کے لیے
منتخب کرنے کی پلاننگ کسی کلمہ گو مسلمان کے ذہن کی کوشش نہیں کیونکہ جو
مسلمان اپنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نام و ناموس کی خاطر اپنی
جان ومال ،عزت وآبرو قربان کرنے سے دریغ نہیں کرسکتا وہ اس نبی رحمت کی
آخری آرام گاہ اور اس شہر کو کیونکر نشانہ بنانے کا سوچ سکتا ہے جہاں اس کے
نبی اکرمﷺ کی تلیاں مبارک لگی ہوئی ہیں؟ اس صورتحال میں ہمیں بریکبینی سے
حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ایک بات تو طے شدہ ہے کہ کوئی مسلمان اور
مسلمان ملک اس ناپاک کوشش میں ملوث ہونے کی جسارت نہیں کرسکتا ……یہ یقیننا
عالم اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کی منصوبہ سازی ہے کہ مدینہ منورہ کی
سرزمین کو نشانہ بنا کر الزام سعودی عرب کے مخالفین کے سر تھونپ دیا جائے
اور پھر آگ کو بھڑکایا جائے۔
مدینہ منورہ اور جدہ میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری
ابھی تک کسی تنظیم نے قبول کرنے کا اعلان سامنے نہیں آیا، اور شائد ایسا
کبھی بھی نہ ہو۔ بعض لوگ اس امر سے متفق نہیں کہ یہ کارستانی امریکہ اور
اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہو سکتا ہے، ایسے لوگ امریکی
سی آئے اے کے سابق عہدیدان کی تحریر کردہ کتب کا مطالعہ کریں جن میں عالم
اسلام کی بندر بانٹ کرکے پیشین گوئیاں کی گئیں ہیں کہ دنیا کے نقشے میں چند
سالوں میں کئی خوفناک تبدیلیاں رونما ہوں گی۔جو امریکہ اپنے عظیم تر مقاصد
کے لیے اپنے سفارتی عہدیدان کو فضاؤں میں آگ کے شعلوں کی نذر کرسکتا ہے جو
امریکہ عالم اسلام کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے اور اسکی تیل کی دولت پر ہاتھ
صاف کرنے کے لیے نائین الیون برپا کرسکتا ہے، اس امریکہ سے’’ سب کچھ کی
امید‘‘ رکھی جا سکتی ہے۔
تمام اسلامی ممالک کے سکیورٹی اداروں خصوصا چونتیس ملکی فوجی اتحاد کے
سربراہوں کو اس جانب دھیان دینا ہوگا جو امریکیوں کی خواہشات ،آرزؤں اور
منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے بے چین رہتے ہیں، مصری فوجی حکمران کی اسرائیل
سے پینگیں کسی سے پوشیدہ نہیں اور نہ ہی دیگر اتحادی ممالک کی ’’اسرائیل
دوستی ‘‘سے کوئی باخبر نہیں……بے خبر ہیں تو عالم اسلام کے سادہ لوح اور بے
اختیار عوام ہیں جنہیں کوئی بھی اہمیت ،وقعت دینے پر آمادہ و تیار نہیں اگر
مستقبل میں عالم اسلام کو مدینہ منورہ کو مذید ایسی انہونیوں سے محفوظ
رکھنا چاہتا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ چونتیس ملکی فوجی اتحاد کی تشکیل کے
اغراض و مقاصد پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا ہوگا ورنہ مدنیہ منورہ سمیت
دیگر مقامات مقدسات کی حرمت مجروح ہوتی رہے گی اور ہم محض مذمتی قراردادیں
منظور کرنے ،مذمتی بیانات دینے تک محدود رہ جائیں گے۔
|