شیر میسور ،ٹیپو سلطان نے کہا تھا’’ شیر کی
ایک دن کی زندگی گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے ‘‘۔ بے شک ظلم کی تاریک
رات کا اختتام لہو سے جلنے والے چراغ ہی کرتے ہیں نہ کہ سرسوں کے تیل سے
جلنے والے چراغ ،کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
شاعر نے کہا تھا
جلتا ہے جن کا خون چراغوں میں رات بھر ان غمزدوں سے پوچھ کبھی قیمت سحر
۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کے واقعات کا پسِ منظر کوئی فوری رد عمل نہیں تھا بلکہ
سالوں سے کچلے ہوئے انسانوں کی ایک چیخ تھی۔ جس نے عوام کا خون چوسنے والے
ڈوگرہ کے ایوان اقتدار کی دیواریں ہلادی تھیں۔ ظلم تلے کچلے ہوئے انسانوں
کی ایک آواز تھی جو ڈوگرہ حکمرانوں کے اقتدار کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گئی۔
۱۹۳۱ء تک مسلمانوں کے ساتھ سلوک کی حالت یہ تھی کہ (1)مسلمانوں کیلئے
سرکاری ملازمت کے تمام دروازے بند تھے (2)تجارت پر غیر مسلم چھائے ہوئے تھے
کیونکہ انہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ (3) مسلمان کسانوں اور کاشتکاروں کی
حالت نگفتہ بہ تھی۔ (4) ریشم، کاغذ، تمباکو، نمک، اناج و زعفران کی خرید
وفروخت سرکاری تحویل میں تھی (5) ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت صرف ہندووں
کو تھی (6) گائے ذبح کرنے والوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے (7)
فوج میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی (8) 1846ء سے 1946ء تک آٹھ وزیراعظم
بنے مگر ان میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا (9) مسلمان تعلیم میں پسماندہ
تھے۔یہ مجموعی صورتحال تھی جس سے مسلمان گزر رہے تھے۔ اسکے بعد 1931ء میں
کچھ ایسے واقعات ہوئے جس سے مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا
مسلمانوں کے عظیم دین اسلام کی توہین(نعوذ بااﷲ) کی گئی۔ ایک دفعہ مسلمانوں
کو عید گاہ میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔
ہوا کچھ یوں کہ 21جون 1931ء کو خانقاہ معلی میں مسلمانان کشمیر کا ایک
عظیم انسان اجتماع منعقد ہوا اس تحریک کے پہلے جلسے میں 50ہزار افراد شریک
ہوئے جس میں بچے اور عورتیں بھی بڑی تعداد میں شامل تھیں۔ اس اجتماع کی
صدارت میر واعظ مولانا یوسف شاہ اور احمد اﷲ نے کی جبکہ مفتی جلال الدین،
شیخ محمد عبداﷲ، خواجہ غلام احمد عشائی، مولوی عبدالرحیم اور خواجہ غلام
نبی گلگار نے تقاریر کیں۔آخر میں مہاراجہ ہری سنگھ سے مجوزہ ملاقات کے لیے
سات رکنی وفد کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ جموں سے چار مسلم نمائندے پہلے ہی
اس وفد کیلئے منتخب ہو چکے تھے ان میں مستری یعقوب علی، سردار گوہر رحمن،
چوہدری غلام عباس اور شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ شامل تھے۔
جلسہ ختم ہونے کے بعد مسلمان ابھی منتشر بھی نہ ہو پائے تھے کہ ایک اجنبی
نوجوان سٹیج پر چڑھا اور تقریر کرنے لگا ’’مسلمانو! اب وقت آ گیا ہے کہ
اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے، یاداشتوں اور گزاشوں سے ظلم وستم میں کوئی
فرق نہیں آئے گا اور نہ ہی توہین قرآن کا مسئلہ حل ہو گا، تم اپنے پاؤں پر
کھڑے ہوجاؤ اور ظلم کے خلاف لڑو۔ اس نے راج محل کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے
ہوئے بتایا کہ اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دو‘‘۔ اس نوجوان کا نام عبدالقدیر تھا
جسکی جذبات سے لبریز تقریر نے مسلمانوں میں بے پناہ جوش وجذبہ پیدا کر دیا
تھا، یہ نوجوان تقریر ختم کر کے فوراً وہاں سے روپوش ہو گیا۔ شام کے وقت
پولیس نے اسے بغاوت یا انتشار پھیلانے کے الزام میں نسیم باغ کے ایک ہاؤس
بوٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔
عبدالقدیر کی اصلیت سے کوئی آدمی آگاہ نہیں تھا، اس کی گرفتاری کی خبر
مسلمانوں نے سنی تو انہیں شدید دکھ ہوا مسلمان رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ
عبدالقدیر کے مقدمے کی پیروی خود کریں گے، اس سلسلے میں مولوی محمد عبداﷲ
ایڈووکیٹ، پیر قمرالدین اور مسٹر غلام محمد پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی،
عبدالقدیر کی رہائی کیلئے اجتماعی جلسے بھی شروع ہو گئے، چنانچہ جب اسے جیل
سے عدالت لایا جاتا تو مسلمانوں کا جم غفیر جمع ہو جاتا، کہا جاتا ہے کہ
عبدالقدیر برٹش انٹیلی جنس کا ایک اہلکار تھا جسے جلتی پر تیل چھڑکنے کے
مشن پر ایک انگریز افسر کے ساتھ سرینگر بھیجا گیا تھا، بہر حال 12جولائی کو
گاؤں کدل میں ایک جلسہ عام ہوا، جس میں مقررین نے عبدالقدیر کے خلاف ہونے
والی کارروائی کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت
جیل کے بند کمرے میں نہ کی جائے بلکہ یہ سماعت عدالت کے کھلے احاطے میں کی
جائے، اگلے روز 13جولائی کو عبدالقدیر کے کیس کی سماعت تھی، اس روز صبح
سویرے سینکڑوں مسلمان سینٹرل جیل سرینگر کے باہر جمع ہو گئے یہ مقدمے کی
سماعت کا پہلا دن تھا، جونہی سیشن جج پنڈٹ کرشن لال کچلو جیل کے دروازے پر
پہنچا بہت سے لوگ اسکی گاڑی کے ساتھ جیل میں داخل ہو گئے لوگوں کا مطالبہ
یہ تھا کہ عبدالقدیر کے زیر سماعت مقدمہ کی کاروائی سننے کی اجازت دی جائے۔
اجازت دینے سے انکار کر کے مجمع کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے گولی چلا دی
جس میں 22افراد شہید ہو گئے اس 13جولائی کو ’’یوم شہداء کشمیر ‘‘کے نام سے
منایا جاتا ہے۔مسٹر ویکفیلڈ نے اعتراف کیا کہ ’’سارے شہیدوں کے زخم انکے
سینوں پر تھے پشت پر نہیں‘‘ اس واقعہ کو چوہدری غلام عباس نے ،جو اس وقت
سرینگر میں تھے وقوعہ پر موجود نہیں تھے نے اپنی سوانح حیات ’’ کشمکش ‘‘میں
یوں بیان کیا ہے۔
’’13جولائی 1931ء دن کے دو بجے کے قریب میں ایک دوست کے ساتھ امیر اکدل کے
بازار میں کھڑا تھا ہم یوں ہی ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف تھے، مجھ پر
کچھ پثرمردگی اور اداسی چھائی ہوئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحوں کے
اندر ساری فضا غبار آلود ہو گئی اور اندھیرا چھا گیا، پہلے تو فضا کا یہ
رنگ دیکھ کر گمان ہوا کہ موسلا دھار بارش ہونے والی ہے۔ میں قیام گاہ کی
طرف جانے والا تھا کہ اچانک آندھیاں گھر گھر کر آ گئیں۔ ساری فضا زمین سے
لے کر آسمان تک گرد و غبار کا ایک تودہ مجسم بن گئی، کیفیت یہ ہو گئی کہ
میں اپنے ساتھی کو بھی جو مجھ سے ڈیڑھ فٹ کے فاصلے پر تھا دیکھ نہ سکتا
تھا‘‘شہدا کا یہ جلوس مختلف راستوں سے ہوتا ہوا جامع مسجد سرینگر پہنچا، اس
وقت تقریباً سارہ سرینگر شہر جلوس میں شامل ہو چکا تھا، شیخ عبداﷲ اور
چوہدری غلام عباس سمیت تمام مسلمان راہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا تھا، شہر
میں خوف کا یہ عالم تھا کہ دوسرے روز بھی شہدا کی لاشوں کی تدفین نہ ہو
سکی۔ بالآخر 15جولائی کو قبرستان نقشبند میں ان شہدا کو ایک ہی احاطے میں
دفن کیا گیا اور اسکا نام ’’مزار شہداء‘‘ رکھا گیا۔
13جولائی کا واقعہ تحریک آزادی کشمیر سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس واقعہ
کو تحریک آزادی کشمیر میں وہی مقام حاصل ہے جو ہندوستان کی تحریک میں
جلیانوالہ باغ کے واقعہ کو حاصل ہے۔ اس واقعہ کو تحریک آزادی کشمیر کا نقطہ
آغاز کہا جاتا ہے۔ 13جولائی1931ء کو مہاراجہ نے ان شکایات ومطالبات کی
تحقیقات کیلئے سر بی جی گلانسی کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا۔
جس میں چار غیر سرکاری ارکان بھی شامل کیے گئے تھے۔ صوبہ جموں سے مسلمانوں
کی نمائندگی غلام احمد عشائی کو سونپی گئی اور غیر مسلمانوں کی نمائندگی
پنڈت پریم ناتھ بزاز کے حصے میں آئی جبکہ صوبہ جموں سے مسلمانوں کی
نمائندگی چوہدری غلام عباس اور غیر مسلموں کی نمائندگی لوک ناتھ شرما کو دی
گئی۔ 22مارچ 1932ء کو کمیشن نے اپنا کام مکمل کر کے جموں میں مہاراجہ کو
رپورٹ پیش کی جس پر 10اپریل 1932ء کو دستخط ہوئے، کمیشن کی سفارشات حسب
ذیل تھیں، مذہبی آزادی، اذان کی آزادی، تبدیلی مذہب کی آزادی، تعلیمی
اصلاحات کا نفاذ، سرکاری ملازمتوں میں آبادی کے تناسب سے حصہ، مالکانہ حقوق
اراضی۔ اس کے بعد گلانسی کمیشن کی سفارشات پر کتنا عمل درآمد ہوا اس پر کچھ
لکھنے کے لیے ہے نہیں اگر ہوتا تو ضرور لکھ دیتا۔ایک مجاہد نے شیخ عبداﷲ کو
کہا تھا ’’ شیخ عبداﷲ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا اب آگے بڑھانا آپ کا کام
ہے ‘‘۔کشمیری مولی گاجر کی طرح کٹ رہے ہیں لیکن ظلم وستم کا یہ باب ان کی
آواز کو دبا نہیں سکتا ،شیخ عبداﷲ نے اس مشن کو کتنا پورا کیا یہ ایک الگ
بحث ہے ،لیکن ایک عبداﷲ ضرور آئے گاجو ان کے آزادی کے مشن کو ضرور
پوراکریگا۔
بقول اقبال
جس خاک کے خمیر میں ہوآتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند |