پاکستان تو دہشت گردی کا شکار تھا ہی لیکن
اب یہ عفریت بڑھتے بڑھتے پوری دنیا تک پہنچ چکی ہے اسلامی دنیا میں بھی اس
نے ہزاروں زندگیا ں نگل لیں ہیں عرب ممالک ، افریقی اسلامی ممالک سارے اس
کی زد میں ہیں۔ اس رمضان ترکی میں دہشت گردی کے دو بڑے واقعات ہوئے پھر
بنگلہ دیش میں گلشن ڈھاکہ میں ایک کیفے پر حملہ ہوا ذمہ داری داعش نے قبول
کی ۔عید کے دن کشور گنج جو کہ ڈھاکہ ڈویژن میں ہی واقع ہے میں عید گاہ میں
دھماکہ ہوا۔ بنگلہ دیش اسلامی ملک ہے اور دیگر ممالک کی طرح دہشت گردی اور
دہشت گردوں کے نشانے پر آیا ہے اور ان حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول بھی
کر لی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بھارت نے حسب عادت اور حسب توقع پاکستان پر
ان حملوں کی ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کی اس کے این ڈی ٹی وی نے خبر دی کہ ان
حملوں میں آئی ایس آئی ملوث ہے جس کی اگر چہ بنگلہ دیش نے تردید کر دی اور
بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے بین الاقوامی امور کے مشیر پروفیسر گوہر رضوی نے
اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے کسی ٹی وی چینل کو کوئی انٹرویو دیا اور یا
اس ایشو پر کوئی بات کی ہے اور یہ کہ یہ ایک بیہودہ خبر تھی جو بھارتی
میڈیا نے اُن کے حوالے سے چلائی۔ اسلام آباد میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشن نے
یہ تردید ی بیان جاری کیا ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اُسے دہشت گردی کے خلاف
پاکستان سمیت دوسرے ملکوں سے تعاون درکار ہے ۔ تردیدی بیان بھی آگیا تعاون
کی امید بھی ظاہر کی گئی بھارت کو شرمندگی بھی اٹھانا پڑی لیکن اُس نے اپنے
خبث باطن کا مظاہرہ کر ہی دیا۔ ایسا کوئی پہلی بار نہیں کیا گیا، یہ بھارت
کی پرانی عادت ہے بلکہ سازش ہے کہ پاکستان کو دنیا میں ہونے والی کسی بھی
دہشت گردی میں ملوث کرنے کی کوشش کی جائے اور بنگلہ دیش کے ساتھ تو وہ کبھی
بھی پاکستان کے تعلقات بہتر ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے
اپنے کارنامے پر نازاں بھارت خود کو اب بھی بنگلہ دیش کا ان داتا سمجھتا ہے
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ بنگلہ دیش کا اصل بانی بھارت ہے اسی لیے
ایک خاص طبقہ اب بھی وہاں ایسا موجود ہے جو بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیتا
ہے اور اسی گروپ میں حکمران جماعت بھی شامل ہے تاہم اس بار اُس نے با شعور
ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت کی کوشش کو ناکام بنا دیا جس پر پاکستان میں
کافی خوشی محسوس کی گئی اور وجہ وہ ایک رشتہ ہے جو پاکستان اور بنگلہ دیش
کے درمیان موجود ہے اور جسے پاکستا ن نے 1974 میں بنگلہ دیش کو تسلیم کر کے
برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن بھارت نے ہمیشہ اسے توڑنے اور خراب کرنے
کا مشن اپنا رکھا ہے۔ خود بھارت اور بنگلہ دیش کے اپنے تعلقات بھی اتار
چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں اور اب بھی یہ قدرتی بہتر تعلقات نہیں کیونکہ دونوں
ملکوں میں نظریے کا بنیادی اختلاف موجود ہے جو بھارت کو بنگلہ دیش کے خلاف
کا روائیوں سے باز نہیں رکھ سکتا ۔یہی بھارت ہے جس کا بنگلہ دیش کے ساتھ
دریائے گنگا کے پانی پرتنازعہ رہا جس پر بھارت نے فراکا بیراج بنا کر اس کا
پانی روکا تاکہ دریائے ہگلی میں پانی کا بہاؤ بڑھائے اور جب سیلاب آیا تو
پانی بڑی بے رحمی سے کھول دیا یہ دیکھا نہ سوچا کہ وہ پانی کتنے بنگالیوں
کو بہا کر لے گیا وہی بنگالی جن کی دوستی میں اُس نے 1971 میں پاکستان پر
اُن کے قتل عام کا الزام لگایا دراصل یہ اُن کی دوستی نہیں پاکستان کی
دشمنی تھی اور ہے ۔ اسی بھارت نے انہی بنگالیوں کو سرحدوں پر بھی بے دریغ
مارا اور 2001 سے 2011 تک ایک ہزار بنگالی بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورسز
کے ہاتھ ہلاک ہوئے اور کہا یہ گیا کہ یہ لوگ سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے
ہوئے مارے گئے ۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی کٹی پھٹی سرحد پر کسی کا غلطی سے
آر پار ہو جانا بعید ازامکان نہیں لیکن یوں گولہ باری اور قتل عام کوئی
معنی نہیں رکھتا اور اسی لیے ہیومن رائٹس واچ نے بھی ان ہلاکتوں پر اعتراض
کیا۔ بھارت صرف سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ سرحدوں کے پار بنگلہ دیش کے اندر
بھی مصروف عمل رہتا ہے اُس نے مسلمان مشرقی پاکستان کو مسلمان مغربی
پاکستان سے علحدہ کیا اور اپنے اس کارنامے کو آج پینتالیس سال بعد تک بھی
بڑے فخر سے بیا ن کرتا ہے حالانکہ اس پر بین الا قوامی قوانین کے مطابق
دوسرے ملک میں دخل اندازی اور جنگی جرائم کا مقدمہ دائر ہونا چاہیے تھا
لیکن اس کے بر خلاف وہ اسے اپنا اعزاز سمجھتا ہے اور یہی بھارت اب بنگلہ
دیش کے ہندؤں کو بھی اکسائے رکھتا ہے ایسا ہی ایک شخص کا لی داس بیدیا تھا
جس نے بنگلہ دیش بننے کے صرف دو سال بعد 1973 میں بھارت میں اپنی علحدگی
پسند تحریک کی بنیاد رکھی اور بنگلہ دیش کے ہندؤں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ
کیا۔ کون جانے کب بھارت اس تحریک کو ہوا دے کر تیسری بار کھڑا کر دے جیسے
اسے 2003 میں ابھار آگیا تھا۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے آپس کے تعلقات ان کا
اپنا اندرونی معاملہ ہے لیکن اُسے پاکستان کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کرنے
کا نہ حق ہے نہ اجازت ہونی چا ہیے اور بنگلہ دیش کو بھی اب بھارت کے سحر سے
نکل آنا چاہیے اور دوست دشمن کی پہچان کر لینی چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے
کہ اُس نے اُس کو آزاد کرنے کے لیے اُس کا ساتھ نہیں دیا تھا پاکستان کی
مخالفت میں دیا تھا اور پاکستان کے نام پر بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا
چاہے مغربی مرتے یا مشرقی مرنے والا پاکستانی تھا اور یہی بات اُس کی خوشی
کا باعث تھی۔ بنگلہ دیش میں دہشت گردی کے واقعات پر حکومت پاکستان کو ہی
نہیں عوام پاکستان کو بھی افسوس ہے اور وہ دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ بنگلہ
دیش کو اس عفریت سے محفوظ رکھے جس کے پنجے پاکستان میں گڑھے ہوئے ہیں۔صرف
پاکستان اور بنگلہ دیش ہی نہیں پورا عالم اسلام غیروں کی سازشوں اور دہشت
گردی کی زد میں ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس مصیبت سے نکالے اور ہمارا امن و
امان پھر سے بحال کر دے اور ہم تمام مسلمانوں کو اسلام کی اصل روح کو
سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے اور دشمن کی چالوں کو
ناکام بنانے کی ہمت دے، آمین۔ |