کروڑوں نگاہیں، کروڑوں دل، کروڑوں دھڑکنیں
…… ایک ہی خبر سننے کے لئے بے چین، ایک ہی طرف رخ کئے ہوئے کہ کب عید کے
چاند کا اعلان ہو۔ نماز عشاء ادا ہوئی تو ساتھ ہی اکثر وبیشتر مساجد میں
نماز تراویح کا بھی آغاز ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی عید کے چاند کی خبر کا
منتظر ہر چہرہ مرجھا کر لٹک سا گیا، جیسے کوئی اتنا بڑا حادثہ ہو گزرا ہے
جس کی تلافی ممکن نہیں، پھر بھی تو مجبوراً…… ابھی اعلان تو نہیں ہوا…… بس
یہی ایک آس باقی تھی اور پھر…… اعلان ہو گیا کہ شوال کا چاند نظر آنے کی
شہادتیں مل گئی ہیں، لہٰذا کل عید ہے۔ پھر کیا تھا؟ مجبوراً نماز تراویح
وہیں روک دی گئی۔ دوسری طرف گلیوں، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں وہ شوروغوغا
بلند ہونے لگا کہ اﷲ کی پناہ۔ فائرنگ کی آوازیں اور سلنسر اترے
موٹرسائیکلوں کے ہنگامے، یک لخت ایسے ابل پڑے جیسے کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا
ہو۔
معاً سوچنے لگا کہ اہل ایمان کی جانب سے رمضان المبارک کی آمد پر تو ایسا
سماں دیکھنے کو کبھی نہیں ملا کہ شیطان قید ہوا تھا، رحمت عام ہوئی تھی۔ یہ
شیطان کی رہائی پر اس قدر جشن …… انہی سوچوں کے بیچ ہی خبریں آنا شروع
ہوئیں، فلاں جگہ حادثہ، فلاں جگہ موٹر سائیکلوں کی ٹکر، فلاں جگہ ون وہیلر
پھسل کر ٹکرا گئے۔ اتنے ہلاک، اتنے زخمی۔ یوں رات اس شوروغوغا میں گزری۔
اگلا دن اور اس سے اگلا دن۔ خونیں واقعات کی تعداد بڑھتے، ہوش اڑتے جاتے کہ
ملک بھر کے ہسپتالوں میں زخمیوں کے لئے جگہ باقی نہیں رہی۔ کراچی سے اسلام
آباد تک…… فلاں جگہ اتنے ہلاک، اتنے زخمی۔ صرف لاہور میں ہلاک شدگان کی
تعداد 30کے قریب تو زخمی تین ہزار سے متجاوز تھے لیکن طوفان بدتمیزی تھا کہ
تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔
پاکستان کے گلی کوچوں میں بیتتے انہی لمحوں، گھڑیوں میں…… اسی وطن عزیز سے
کچھ فاصلہ پر ایک اور ہی سماں تھا۔ بھارت کے مسلم علماء اعلان کر چکے تھے
کہ انہیں چاند نظر نہیں آیا، لہٰذا وہ عید 7جولائی بروز جمعرات کریں گے……
لیکن یہ کیا؟ اسی بھارت کی ایک مقبوضہ ریاست یعنی مقبوضہ کشمیر کے سبھی
مسلم علماء، حریت رہنما اور عوام یہ فیصلہ سنا رہے تھے کہ ان کی عید
پاکستان کے ساتھ 6 جولائی بروز بدھ ہو گی۔اس روز مقبوضہ کشمیر میں عید
اجتماعات کے باہر بھی سکیورٹی فورسز کے سخت پہرے تھے، کیونکہ انہیں پتہ تھا
کہ عید کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ نماز عید کے اختتام کے ساتھ ہی اس عظیم
قوم نے عید کا ’’جشن‘‘ یوں منانا شروع کیا کہ ان کے پیروجواں ہاتھوں میں
پتھر اور پاکستانی سبز ہلالی پرچم تھامے سڑکوں پر آن موجود ہوئے اور ساتھ
ہی قابض بھارتی فورسز کی ’’سنگساری‘‘ شروع کر دی۔ مقابل سے وہی کچھ…… یعنی
بے تحاشہ آنسو گیس، مرچی زہریلی گیس، بے حساب لاٹھیاں، گولیاں اور
گرفتاریاں…… یہ کشمیری قوم بھی نجانے کس مٹی کی بنی ہے اس کا کوئی گھر ایسا
نہیں جہاں سے بھارت سے ٹکراتے کئی کئی جنازے نہ اٹھے ہوں، جہاں کے دلارے
بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں نہ ٹھنسے ہوں اور نہ گل سڑ رہے ہوں، پھر
بھی یہ ایسے ہی ڈٹے ہوئے ہیں کہ آزادی اور بس آزادی…… یہی ان کی عید ہے،
یہی ان کا مشن، ایسے ہی ان کا دن ہے، یہی ان کی رات اور یہی ان کی آتی جاتی
سانسیں ہیں۔ کئی گھنٹوں کے اس آگ و خون کے کھیل کے بعد جو کچھ سکون ہوا تو
بھارتی سورماؤں نے کچھ اطمینان کا سانس لیا کہ رات تو کچھ پرسکون رہے گی۔
یوں ایک دن اور پھر دوسرا دن گزرا تو بھارتی فورسز کے لئے جمعۃ المبارک ایک
بار پھر نفرت کا طوفان لے آیا۔ گزشتہ کتنے ماہ و سال بیت چکے، ہر جمعۃ
المبارک کے روز نماز جمعہ کے بعد یہاں شہر شہر بھارت سے نفرت اور آزادی و
پاکستان کے حق میں سارا عالم مظاہرے، لڑائیاں، پتھراؤ، نعرے دیکھتا سنتا ہے
لیکن سب گونگے، بہرے، اندھے بنے ہوئے ہیں۔ اسی روز جمعۃ المبارک کی نماز
عصر کے بعد مقبوضہ کشمیر کے ضلع اسلام آباد (اننت ناگ) کے گاؤں ڈورہ
کوکرناگ میں ایک مسجد سے تین کشمیری نوجوان مجاہدین نماز ادا کرنے کے بعد
باہر آئے تو پتہ چلا کہ بھارتی فورسز نے ان کے خلاف سارے علاقے کا گھیراؤ
کر لیا ہے۔ ان تین نوجوانوں میں سے ایک نوجوان برہان مظفر احمد وانی تھا جس
کے سر کی قیمت بھارت نے دس لاکھ مقرر کر رکھی تھی۔ ان نوجوانوں کے پاس
کلاشنکوفیں اور جو دیگر اسلحہ تھا، سو اسی سے محاصرہ پر آئی فورسز پر انہوں
نے حملہ کر دیا۔ 21 سالہ برہان مظفر احمد وانی نے کوشش کی کہ محاصرہ توڑتے
ہوئے اپنے ساتھیوں کو بحفاظت نکالے لیکن اس کے ساتھی بضد تھے کہ یا تو
برہان نکلیں گے یا پھر سبھی ایک ساتھ جنتوں میں اتریں گے۔ گولیاں، بموں کے
دھماکے اور تکبیر کے نعرے تیز ہوئے تو علاقے بھر کی مساجد سے کشمیریوں نے
سب لوگوں سے گھروں سے باہر آنے کی اپیل کے اعلانات کئے تو ہر طرف سے مقامی
عورتوں، بچوں، بوڑھوں نے پتھر اٹھا کر فورسز کی سنگساری شروع کر دی۔ اب ایک
عجب سماں تھا، ایک طرف بے پناہ آتش و آہن، قوت فرعون و نمرود کے مظاہرے،
ڈنڈے، گولیاں اور زہریلی گیس تو دوسری طرف ننگے پاؤں، خالی ہاتھ اہل کشمیر
کے پیرو جواں، بچے اور خواتین۔ سارا علاقہ یکطرفہ میدان جنگ کا منظر پیش کر
رہا تھا کہ انہی گھڑیوں میں کئی بھارتی دہشت گردوں کو واصل جہنم کرنے کے
بعد برہان وانی اپنے دونوں ساتھیوں سمیت جنت کی طرف عازم سفر ہو گئے۔ (ان
شاء اﷲ)
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اگلی سپرپاوری کے دعویداربھارت میں جشن کا
سماں دکھائی دینے لگا کہ انہوں نے اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن سے نجات پا
لی ہے۔ سو اب ان کا ملک ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا ہے۔ برہان کی شہادت
کی خبر جیسے جیسے پھیلی، اس نے ہر دل کو ایک نئی طوفانی جلا بخشی۔ اب کے تو
لگتا تھا جیسے سارے اہل کشمیر برہان کے ساتھ جنت جانے کے متمنی بن چکے ہیں
اور سارا کشمیر سڑکوں پر نکلا، برہان کے علاقہ ترال کی جانب بڑھتا جا رہا
تھا۔ ترال میں ان کا جسد خاکی پہنچا تو والد نے اپنے دوسرے بیٹے کی لاش بھی
ہنسی خوشی وصول کی۔ چند ہفتے پہلے ایک بھارتی صحافی خاتون برہان کے گھر
پہنچی تو برہان کے والد اس کے ساتھ محو گفتگو تھے اور کہہ رہے تھے ہاں
دوسرا بیٹا شہید ہوا تو دکھ تو ہو گا لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اس لئے کہ
پہلے اسلام پھر برہان، پہلے آزادی پھر برہان۔ اور اس کا قتل کوئی موت تھوڑے
ہی ہے وہ تو شہادت ہے، اور شہید مرتے نہیں، زندہ ہوتے ہیں۔ یہ برہان کی
والدہ ہیں دو شہداء کی والدہ ہیں لیکن آنکھوں میں آنسو نہیں اور اپنے شہید
بیٹوں کی تصویریں تفاخر کے ساتھ اٹھائے کھڑی ہیں کہ وہ ان عظیم بیٹوں کی
ماں ہیں۔ کوئی ایک سال پہلے 13جون 2015ء ہی کی تو بات ہے، برہان کا بھائی
خالد مظفر وانی اپنے دوستوں کے ہمراہ برہان سے ملنے جنگلوں کی طرف روانہ
ہوا تھا۔ بھارتی فوج نے ان تینوں نوجوانوں کو قتل کرڈالا تھا۔ ہاں! یہ
برہان ہی تھا جس نے 2010ء کی ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو تحریک‘‘ کے دوران بے
پناہ مظالم کے بعد میٹرک کے امتحان کو خیرباد کہہ دیا تھا اور پھر میدان
جہاد میں جا کھڑا ہوا تھا۔ یہ برہان ہی تھا جسے اس سے قبل ترال میں اپنے
دوست بچوں کے ہمراہ کھیلتے بھارتی فوج نے مارا پیٹا تھا اور پھر بھارت اور
اس کی فوج کے خلاف نفرت اس کے دل میں بیٹھ گئی تھی۔ ابھی تو اس نے انگریز
کی طے کردہ سن بلوغت بھی طے نہیں کی تھی کہ وہ بھارت کے لئے سب سے بڑا درد
سر بن گیا تھا۔ یہ برہان ہی تھا جس نے معصوم عمر میں گھر کا آرام چھوڑ کر
جب جنگلوں کو ٹھکانہ بنایا تو سوشل میڈیا کے ذریعے پہلی بار کشمیری قوم کے
نوجوانوں کو ایک بار پھر میدان جہاد کی جانب راغب کیا۔ اس وقت بھارت
دعویدار تھا کہ جہادی تحریک دم توڑ رہی ہے لیکن اب اس کے سورماؤں کے سردار
بھی سر جھکائے، آنکھیں پتھرائے بیٹھے تھے کہ ایسا نہیں۔ حملے بڑھ رہے،
سینکڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان بھی پتھر کے بعد تیزی سے بندوق
اٹھا رہے اور ان کی ساری منصوبہ بندیاں اکارت جا رہی ہیں۔
برہان کی پکار پر مقبوضہ کشمیر کے اطراف و اکناف سے اعلیٰ تعلیم یافتہ
نوجوانوں نے بندوق اٹھائی تو بے شمار نے ’’سنگباری‘‘ کا مشن سنبھال لیا۔
یوں برہان کی سوشل میڈیا پر ہر تصویر بھارت کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی۔
بھارت کا خیال تھا، برہان کے بعد بات ختم، لیکن اس کے جنازے میں جیسے
لاکھوں کشمیری شریک ہوئے، اس نے اس کا خواب چکنا چور اور اس کا جینا حرام
کر دیا۔ ایک شخص کی 45بار نماز جنازہ…… سارا کشمیر قصبہ ترال کی جانب
رواں…… یہاں آنے والوں کے لئے سارا علاقہ آنکھیں فرش راہ کئے ہوئے تھا۔
مہمانوں کے لئے مشروبات اور کھانے پینے کا اہتمام تھا۔ جنازہ کا اہتمام
اتنا منظم تھا کہ اس نے بھارت کو چکرا دیا۔ پھر ہزاروں لاکھوں کشمیریوں نے
بھارتی فورسز کے کیمپوں، چوکیوں، گاڑیوں پر یلغاریں شروع کر دیں۔ جواباً
گولیوں کی بارش ہوتی گئی، درجنوں شہادت پا گئے، تو بھارت کو الٹا لٹکا
گئے۔بھارت کی سب چالیں، اس کشمیری قوم نے نامراد کر دیں۔ ہاں ایک یہ خون
تھا جس نے پاکستان و اسلام کے دشمنوں کے ایک عالم کو دہلا دیا۔ جس نے جنتوں
کا راستہ دکھا دیا اور …… انہی دنوں کا دوسرا ہمارے ہاں کا وہ خون تھا جو
پاکستان کی گلیوں، سڑکوں پر رائیگاں گر رہا تھا۔ ایک عظمت و فتح کا نشان تو
دوسرے کا کوئی نہیں پرسان۔ اور ہاں! اے اہل پاکستان! اب تو تم بھی کچھ
فیصلہ کر ہی لو۔ |