13 جولائی 1931ء تحریک آزادیٔ کشمیر کا انقلاب آفرین دن

یومِ شہدائے کشمیر...................
انسانی تہذیب کے ارتقاء و تشکیل کے ساتھ ہی آزادی و غلامی کا تصور بھی قوموں کی سوچوں میں پروان چڑھتا رہا۔ حریت پرست قومیں ہر دور میں غلامی کیخلاف صف آراء رہی ہیں۔ آزادی اور غلامی کی اس دائمی جنگ کو کہیں تو شہرت دوام کا درجہ مل گیا اور کہیں یہ معرکے اقتدار زمانہ یا نا سازگار حالات کی دھول سے اس طرح اَٹ گئے کہ اب تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی ان کا نشان نہیں ملتا۔ آفتاب دین حق جب طلوع ہوا، اس کی پہلی کرن نے فضائے عالم پر ایک مستقل عنوان تحریر کر دیا۔ لا الٰہ الا اﷲ ’’حقیقی بادشاہت خدائے واحد والقہار کی ہے‘‘ دنیا کا مستقل آئین اس کا کلام، قرآن ہے۔ جو قیامت تک قائم و دائم رہے گا، اس آئین کو نافذ العمل رکھنے کیلئے حضرت انسان کو تخلیق کیا گیا، جو خدا کی زمین پر خدا کا مظہر اور جانشین ہے۔ اس آئین نے انسان پر انسان کی حکومت کو کلیتاً ختم کر دیا۔ گورے کالے کی تمیز کو مٹا دیا۔ عربی اور عجمی کو ایک صف میں کھڑا کر دیا۔ غلام سازی کے انسانیت کش طریق کار کی نفی کر دی اور اعلان کر دیا کہ تم میں سے وہی معزز ہے جو قانون فطرت پر کاربند ہے۔ وہ بلال حبشی ہو یا کوئی معزز عرب سردار، فرزندان اسلام نے اس آئین فطرت کو دنیا میں رائج کرنے کیلئے اپنی تمام قوتیں صرف کیں اور اس جدوجہد میں ہمیشہ الٰہی احکام کو مشعل راہ بنایا تاکہ آئین فطرت سے سرتابی کرنیوالوں کو راہ راست پر لانے کے لئے ہمیشہ وہ راستہ اختیار کریں جو سب سے بہتر ہو۔ جس میں نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہو، جس سے بندگان خدا کو مشکلات کا شکار نہ ہونا پڑے، لیکن اگر مخالف قوتیں اپنی تعداد اور تیاری کے گھمنڈ میں حق و صداقت کا مقابلہ کریں اور تلوار کے ذریعہ تمہارا راستہ روکنے کی کوشش کریں تو اس صورت میں بحالت مجبوری صداقت کے علمبرداروں کو اجازت ہے کہ وہ جبر و تشدد کی بیخ کنی کرنے کیلئے مخالف قوتوں کا انہی ہتھیاروں سے مقابلہ کریں، جن کے ذریعے وہ بنی نوع انسان کا پیدائشی حق چھین کر ان کو غلام بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہ ہے اسلام کا مسلمہ اُصول رزم وبزم جس میں کسی حالت میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی ہے۔ جموں وکشمیر ایک اسلامی ریاست ہے، جہاں کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جن کے آباؤاجداد نے عقل اور منطق کے ذریعہ اسلام کو اپنایا ہے۔ اسلام کی خوبیوں کو دیکھ کر اس شمع کے پروانے بنے ہیں۔ ریاستی مسلمانوں نے شاہانہ شان و شوکت کو کبھی اسلام کی ترویج کا ذریعہ نہیں بنایا۔ کشمیر کا پہلا مسلمان بادشاہ رنچن شاہ تھا جس نے اپنی بیوی بچوں تک کو حلقہ بگوش اسلام ہونے کیلئے مجبور نہیں کیا۔ سلطان زین العابدین بڈشاہ نے ان تمام غیرمسلموں کو برصغیر ہند کے گوشے گوشے سے واپس بلایا، جو قحط اور اپنے ہم مذہب راجاؤں کے ظلم و تشدد سے گھبرا کر ترک وطن کر گئے تھے، ان کو بڑے بڑے مناصب پر فائز کیا، جاگیریں دیں، روزمرہ کی ضروریات زندگی مہیا کیں۔ ان کے معاشرے کو منظم کیا۔ مندر دھرم شالے اور مذہبی مقامات تعمیر کرکے دئیے، تاکہ وہ عزت و اطمینان کی زندگی گزاریں اور عقل و خرد کی رہنمائی میں اس صداقت کو تسلیم کریں، جو مالک دوجہاں نے اسلام کی شکل میں دنیا کو عطا کی ہے۔

آزادی اور انسانیت کی بقاء کے محافظوں کی ہمت و جرات اور عزم و استقلال کو اجاگر کرنے کیلئے ایسے واقعات کا ظہور ناگزیر ہوتا ہے جب کذب والحاد کی گھٹائیں، حق و صداقت کے نور کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے وطن ریاست جموں وکشمیر پر بھی یہ دور آئے ہیں۔ انیسویں صدی کے نصف اوّل میں یہ تاریکی ایسی بھیانک شکل میں پھیل گئی کہ انسانیت سرپیٹ کر رہ گئی۔ چالیس لاکھ انسانوں کو متاع تجارت قرار دے کر ان کے وطن سمیت چند ٹکوں کے عوض فروخت کیا گیا۔ یہ انسانیت پر اتنا بھاری ظلم تھا جس کی مثال از منہ مظلمہ کی تاریخ میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے اور ایک اتنا بڑا امتحان جس میں پورا اترنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ کشمیری عوام نہتے تھے اور انکے مدمقابل ہر قسم کے سامان سے آراستہ، لیکن ریاستی حریت پرستوں کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ وہ ظلم و استبداد کا مقابلہ کرنے کے لئے مردانہ وار میدان میں آئے۔ راجگان بھمبر، کوٹلی، پونچھ،اوڑی اور شیخ امام الدین گورنر کشمیر نے وطن کی عزت اور آزادی کو بچانے کے لئے ظالم قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ اس سلسلہ میں جو جراتمندانہ کارنامے انجام دئیے گئے وہ آب زر سے لکھنے کے قابل تھے۔ لیکن مخالف قوتوں نے اس کارہائے نمایاں کے نقوش و آثار تک مٹانے کی کوشش کی تاکہ جنگ آزادی کی یہ ابتدائی مورچے آنیوالی نسلوں کیلئے سنگ میل کا کام نہ دے سکیں۔

الغرض ۱۸۴۶ء سے ۱۹۳۱ء تک آزادی اور غلامی کی قوتوں میں کئی معرکے ہوئے، کئی رن پڑے۔ جن میں آزادی کے متوالوں نے مخیر العقول ہمت و عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ جن میں سے ہر مورچہ فی نفسہٖ ایک منفرد عظمت کا حامل تھا، لیکن اسکے باوجود شروفساد کی تاریکی بڑھتی گئی اور اس پر اچانک اُسوقت حملہ او جب ڈوگرہ راج عروج پر تھا اور وہ یہ سوچ ہی نہ سکتا تھا کہ کشمیر کے پسے ہوئے اور نہتے عوام ہمارے اقتدار کو چیلنج کریں گے۔ اس لحاظ سے ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کا خونی معرکہ ہماری جنگ آزادی کا پہلا مورچہ ہے۔ جب ڈوگرہ سامراجیوں نے ریاست پر اپنے غاصبانہ اقتدار کو مستقل شکل دینے کے لئے یہاں کی مسلم اکثریت کو ہر لحاظ سے فنا کے گھاٹ اُتارنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں سے ہتھیار چھین لیے گئے۔ ان کو نظام حکومت سے علیحدہ کیا گیا۔ فوج سے نکال دیا گیا تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ تجارت میں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ ان کو بطور مزارع اس زمین کی آبادکاری پر قانع بنانے کی کوشش کی گیء، جس کو ڈوگروں نے اپنی ملکیت قرار دیا تھا اور ساتھ ساتھ ان کے اس جذبہ آزادی انسانیت کو ختم کرنیکی سعی لاحاصل کی گئی، جس کا تذکرہ اس تحریر کے ابتداء میں کیا گیا ہے اور جو بحیثیت انسان، مسلمانوں کی میراث اور عزیز ترین متاع حیات ہے۔ ڈوگرہ حکمران چاہتے تھے کہ ریاست سے اسلام کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ اور غلامانہ سلوک کرنے ان کے مذہبی رسوم میں مداخلت کرنے اور مقدس مقامات کو سرکاری تحویل میں لینے کی باوجودو اس مکروہ ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے، جس پر تاب سنگھ ڈوگرہ نے ریاست میں شدھی کا چکر چلانے اور مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانے کی سکیمیں بنوائیں۔ یہاں اس بات کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ پرتاب سنگھ صبح دس بجے تک مسلمان کی شکل نہ دیکھتا تھا اور اگر اتفاقاً صبح کسی مسلمان سے دوچار ہو جاتا تو اس ’’گناہ‘‘ کیلئے باقاعدہ ’’پشچاتاپ‘‘ کیا جاتا تھا۔ اس صورتحال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈوگرہ غاصب ریاست کی مسلم اکثریت سے کس نظریے سے دیکھتے تھے اور ان کو ختم کرنے کیلئے کیا حربے استعمال کرتے تھے؟

پچاسی (85) سال کے مسلسل ظلم اور دباؤ کے باوجود ڈوگرہ مظالم اسلامیان کشمیر کے جذبہ آزادی کو مٹا نہ سکے۔ یہ چنگاری اندر ہی اندر سلگتی رہی اور ۱۹۲۸ء ہی سے کہیں کہیں اس کی ہلکی تپش نمودار ہونے لگی۔ ۱۹۳۱ء میں جموں میں قرآنِ پاک کی بے حرمتی کا سانحہ پیش آیا۔ جموں میں خطبہء عید پر پابندی لگائی گئی۔ یہ رکیک حملہ اسلامیان ریاست کی جرات و عزیمت کا آخری امتحان تھا۔ بے بضاعتی کے باوجود اسلامیان ریاست بپھرے ہوئے شیروں کی طرح اُٹھے۔ ریاست میں نور اسلام پھیلنے کے مرکز خانقاہ معلی میں باقاعدہ تحریک کا آغاز ہوا اور اسی تحریک کے سلسلہ میں ایک سرحدی مسلمان․․․․․ عبدالقدیر خان کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ مسلمانوں کے جوش و خروش کودیکھ کر ڈوگرہ حکومت کو مجاہد عبدالقدیر کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی جرات نہ ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ مجاہد عبدالقدیر کے مقدمہ کی سماعت سنٹرل جیل سرینگر میں کی جائے۔

مسلمان آزادی یا شہادت کا اعلان کر چکے تھے وہ ۱۳ جولائی کے دن صبح ہی جوق در جوق سنٹرل جیل سرینگر کی طرف چل پڑے۔ مقدمہ کی کارروائی شروع ہونے تک ہزاروں لوگوں کا جمع غفیر جیل کے سامنے جمع ہو گیا۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ مجاہد عبدالقدیرخان پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے تاکہ لوگ مقدمہ کی کارروائی سن سکیں اور اپنے بھائی کو دیکھ سکیں۔ ڈوگرہ حکمرانوں کو اپنی قوت پر ناز تھا، اُنہوں نے اس تحریک کو ایک ہفتے کے اندر اندر ختم کرنیکا فیصلہ کیا۔ ایسے میں بھلا نہتے عوام کی آواز ان پر کیا اثر کرسکتی تھی؟

مقدمہ کے بند کمرہ میں سماعت کے عدالتی احکامات کے باعث ایسا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا عبدالقدیر کے وکلاء لوگوں کو سمجھا بجھا کر سنٹرل جیل سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسی اثناء میں گورنر ’’رائے زادہ لوک چند‘‘ چند سپاہیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے پہنچ گیا۔ اس وقت نماز کا وقت ہو چکا تھا اور ہجوم نماز کی تیاریاں کر رہا تھا۔ گورنر نے موقع شناسی اور مصلحت سے کام لینے کے بجائے آتے ہی ہجوم کو منتشر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔ سپاہیوں نے ہجوم پر حملہ کر دیا تو ہجوم بھی سپاہیوں سے گتھم گتھا ہو گیا۔ گورنر نے جو یہ صورتحال دیکھی تو اس نے سپاہیوں کو گولی چلانے کا اختیار دے دیا۔ ایک شحص جو دیوار پر چڑھ کر اذان دے رہا تھا، ڈوگرہ سپاہیوں نے اس پر گولی چلا دی اور وہ گر کر شہید ہو گیا۔ چونکہ اذان ابھی باقی تھی، لہٰذا فوراً دوسرا مسلمان دیوار پر چڑھ کر باقی اذان ادا کرنے لگا تو ڈوگروں نے اس پر بھی گولی چلا دی اور یہ بھی شہید ہو گیا۔ اس طرح تقریباً ۲۲ افراد کو شہید کر دیا گیا۔ ہجوم جو کہ پہلے ہی مشتعل تھا، جو یہ صورتحال دیکھی تو بس کیا تھا اُنہوں نے جیل پر حملہ کر دیا اور جیل کو آگ لگا دی اور ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ اس واقع نے جہاں مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں، وہیں ان شہداء نے اپنے لہو کے قطروں سے تحریک آزادی کی بنیاد بھی رکھ دی اور ثابت کر دیا کہ انقلاب کا آغاز شہیدوں کے خون سے ہی ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات انتہائی قابل ستائش ہے کہ اس معرکہ میں جتنے بھی مسلمان مجاہد شہید ہوئے کسی ایک کی بھی پیٹھ پر گولی نہیں لگی تھی، سب کو سینے میں گولی لگی تھی۔

ڈوگرہ بربریت کے انتہائی تشدد کے باوجود لوگوں نے شہداء کی لاشوں کو اپنے قبضہ میں لیا اور جلوس کی صورت میں جامع مسجد سرینگر لے گئے۔ اس دوران ایک طرف شہر کو ملٹری کے حوالے کیا گیا تھا تو دوسری طرف غیرمسلم اقلیتوں کو شہ دے کر مذہبی فسادات شروع کرا دئیے گئے تھے، تاکہ اس آئینی جنگ کو فرقہ وارانہ فسادات کی شکل دے کر حریت پرستوں کو دبایا جائے۔ تحریک کے زعماء نے یہ صورتحال دیکھتے ہی شہر میں اعلان کرا دیا کہ ہماری تحریک غاصب حکمرانوں کے خلاف ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ وہ ہمارے بھائی ہیں، اسی طرح آزادی کا حق رکھتے ہیں، جس طرح مسلمان۔ اس اعلان سے ڈوگرہ سامراجیوں کی سکیموں پر اوس پڑ گئی اور لوگ ملٹری کے پیچھے پڑ گئے۔

شہر میں انقلاب برپا تھا، قائدین تحریک کی گرفتاری کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ شہداء کی لاشیں اور زخمی جانباز جامع مسجد سرینگر میں جمع تھے۔ جہاں چاروں طرف لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتاہوا سمندر تھا۔ اس غیرمتوقع انقلاب کے باوجود عوام کے چہروں سے جرات و عزیمت کے آثار نمایاں تھے۔ ایک گھائل غلام نبی کلوال، جو چند گھنٹوں بعد شہید ہو گئے۔ میرواعظ کشمیر مولوی محمدیوسف سے بار بار پوچھتا تھا کہ مجھے بتائیے کہ میں شہید مروں گا؟ ایک اور زخمی شیخ محمد عبداﷲ صاحب کو پیغام دے رہا تھا کہ ہم نے اپنا فرض ادا کیا۔ ہم نے اپنے خون سے آزادی کا پودا لگایا، اب آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اس پودے کو خوں سے سینچ کر تناور درخت بنا دیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کے دن جن لوگوں نے اپنے خون کی قربانی دی، ان کے مقاصد کتنے نیک اور عزائم کتنے بلند تھے۔

لوگوں کے اس عزم و ہمت کو دیکھ کر غاصب حکمران سراسمیہ ہو گئے۔ اُنہوں نے رات گئے تک شہداء کو دفن کرنیکی اجازت نہ دی۔ شہداء کی نعشیں مسجد میں تھیں، پچاس کے قریب جانباز ان کی حفاظت پر متعین تھے کہ رات کی تاریکی میں ڈوگرہ ملٹری نے شہداء کی لاشیں چرانے کیلئے مسجد پر ہلہ بول دیا۔ لیکن جانباز محافظوں کی موجودگی میں انکو شہداء کی نعشیں چرانے کی جرات نہ ہوئی، البتہ راتوں رات مسجد کو گھیرے میں لیا گیا اور چاروں طرف مشین گنیں نصب کر دی گئیں، جن کا رخ مسجد کی طرف تھا، جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ حکومت شہداء کی لاشوں پر قبضہ کرکے ان کو کسی ذریعے سے ٹھکانے لگانے کی فکر میں ہے، لیکن آزادی کے متوالوں کے جذبہ خوداعتمادی نے ڈوگرہ درندوں کی اس سکیم کو بھی ناکام بنا دیا۔ شہداء کو دوسرے دن تزک و احتشام کے ساتھ خانقاہ نقشبند صاحب میں دفن کیا گیا، جہاں وہ جنگ آزادی کے ہر اوّل دستے کے سپاہیوں کے طور پر آج تک منزل آزادی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

دوسری طرف اس واقع کے فوراً بعد حکومت نے گرفتاریاں شروع کر دیں اور سیاسی لیڈروں جن میں شیخ عبداﷲ، چوہدری غلام عباس، مولوی عبدالرحیم، غلام نبی گلکار، مستری یعقوب، سردار گوہررحمن اور دوسرے سرکردہ افراد کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کر دیا۔ اب ان رہنماؤں کو احساس ہوا کہ ڈوگروں کے خلاف جدوجہد کیلئے ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنے سے ہی ڈوگرہ حکمرانوں پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔

سنٹرل جیل سرینگر کے اس واقعہ نے بغاوت کی آگ کو پوری طرح بھڑکا دیا جو عوام کے دلوں کو سلگ رہی تھی۔ وادی کشمیر کے چپہ چپہ میں اضطراب و ہیجان شروع ہوا۔ اسلام زندہ باد، آزادی کشمیر پائندہ باد کے نعروں سے فضاء گونجنے لگی۔ جگہ جگہ جلسے ہونے لگے، جلوس نکلنے لگے۔ جن میں عہد و پیماں کیے گئے کہ کشمیری عوام اس وقت تک خاموش سے نہیں بیٹھیں گے جب تک شہداء ۱۳ جولائی کا مشن پایہ تکمیل کو نہ پہنچ جائیگا۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے عوام کے جذبات کو دبانے کیلئے انتہائی درندگی سے کام لیا۔ نواب بازار سرینگر، اسلام آباد، پٹن، بارہ مولہ، سوپور، ہندواڑہ اور شوپیاں میں لوگوں کو گولیوں کی بارش کی گئی جن سے کئی لوگ شہید ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود آگ نہ دب سکی۔ جس نے اب ساری ریاست کو لپیٹ میں لیا تھا۔

یہ ہے مختصر سی داستان کشمیر کے جنگ آزادی کے اس پہلے مورچہ کی‘ جس کی یاد میں ہر سال ۱۳ جولائی کو اسلامیان کشمیر شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور اس موقع پر اپنے وطن عزیز کو بھارتی ظلم سے آزاد کرانے کیلئے اسی جرات و عزیمت کا ارادہ کرتے ہیں، جس کا مظاہرہ آج سے پون صدی پہلے سنٹرل جیل سرینگر کے سامنے جامع مسجد سرینگر اور ریاست کے چپہ چپہ پر کیا گیا تھا۔ جب تک ایک کشمیری بھی زندہ ہے وہ اس مشن کی تکمیل میں اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہ کرے گا۔اﷲ تعالیٰ شہداء کے درجات بلند فرمائیں۔ آمین
Safeer Ahmed Raza
About the Author: Safeer Ahmed Raza Read More Articles by Safeer Ahmed Raza: 44 Articles with 48050 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.