بشریٰ فرخ کا نعتیہ مجموعہ ورفعنالک ذکرک ایک مطالعہ
(سید شاکرالقادری, Attock)
خیبر بختونخواہ کے دارالحکومت پشاور سے تعلق رکھنے والی ممتاز شاعرہ بشریٰ فرخ کے نعتیہ مجموعہ "ورفعنالک ذکرک" (جو خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والی کسی خاتوں کا پہلا باقاعدہ مجموعہ نعت ہے )کا مطالعہ۔۔۔۔ یہ مقالہ اس مقموعہ کی تقریب رو نمائی میں پڑھا گیا (شاکرالقادری) |
|
اللّٰہ تعالیٰ نے مرد عورتـ کوایک ہی جوھـر
سے پیدا کیا۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:الذی خلقکم مِن نفس وّ احَدَة”۔ یعنی
مرد اورعورت کونفس واحد سے پیدا کیا گیا۔گویا اس آیت میں یہ بات بتائی گئی
ہے کہ مرد اور عورت تخلیقی اعتبار سے برابر ہیں اور ایک ہی اصل سے ہیں۔تاہم
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مرد کی نسبت عورت کے جذبات زیادہ لطیف ہیں
اللّٰہ نے اسے قبول و اصلاح کی دولتـ سے مالا مال کیا ہے اس کا دل محبت ،
اخلاص،ایثار وفا اور سوز وگداز جیسے لطیف جذباتـ سے معمور ہے ۔روحانیت کو
قبول کرنے کے معاملہ میں عورتـ جس قدر موزوں پیدا کی گئی ہے ویسی کوئی
دوسری مخلوق نہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں خواتین کا جو
کردار رہا وہ آج بھی تمام دنیا کے لئےقابل تقلید و تحسین ہے بلکہ یوں کہنا
چاہیئے کہ اسلام کی تاریخ کی ابتدا ہی عورت کے شـاندار کردار سے عبارتـ ہے۔
ہماری تاریخ عورت کی ہمت، دانائی، حوصلہ مندی اور دور اندیشی کے شاندار اور
قابل فخرکارناموں سے معمور ہے۔ ہمارا نقطہ آغازہی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام
اللّٰہ علیہا سے ہوتا ہے جب ضعیف و ناتواں سمجھی جانے والی صنف نازک ہمت و
عظمت کا ایک پہاڑ بن کر بارگاہِ نبوت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں کھڑی
ہوجاتی ہے۔
غار حـراء سے اتر کر نسخہ کیمیا ساتھ لانے والے پیغمبر اعظم و آخر کے لیئے
خدیجةالکبری سلام اللّٰہ علیہا کے تسلی بھرے الفاظ ہماری تاریخ میں ہمیشہ
کے لیئے سنہری حروف میں لکھے جائیں گے۔
’’اے چچا کے بیٹے،آپ کو خوش خبری ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں خدیجہ
کی جان ہے، آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔‘‘
(السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۲/۷۳)
یہی وجہ ہے کہ رسول کائنات نے اس اولین مسلم خاتوں کو ان الفاظ میں خراج
تحسین پیش کیا:
مجھے ان سے بہتر کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت
میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی، انہوں نے اس
وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا۔
(البدایۃ والنہایۃ از حافظ ابن کثیر جلد 3 صفحہ 144 اردو ترجمہ شائع کردہ
نفیس اکیڈمی کراچی)
تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ اس کے بعد دعوت اسلام میں سب سے زیادہ اذیت
بھی خواتین نے اٹھائی۔ دعوت الی اللّٰہ کی خاطر سب سے پہلی شہادت بھی ایک
عورت کے حصہ میں آئی جب حضرت عمار بن یاسر کی والدہ ماجـدہ حضرت سمیہ رضی
اللّٰہ عنہا نےہولناک ا ور شرمناک مظالم برداشت کرتے ہوئےجان دے کر اسلام
کی حقانیت کی شہادت دی اور اسلام کی شہید اول قرار پائیں۔ سب سے پہلے ہجرت
کرنے والوں میں بھی خواتین پیش پیش تھیں۔ ہجرت کے بعد قیام حبشہ کے دوران
مسلم خواتین کا کردار بھی تاریخ ساز ہے۔غرضیکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ
وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں مسلم خواتین نے زندگی کے ہر شعبہ میں بھرپور
کردار ادا کیا ۔ علم وادبـ کا میدان ہو یا معاشرتی خدمات کا شعبہ، اللّٰہ
کی راہ میں جہاد کا موقع ہو یا سیاست و حکومت کے معاملات ،طب و صحت سے
متعلق خدمات ہوں یا شعر و ادبـ کے ذریعہ دفاع رسول کا فریضہ تمام شعبہ ہائے
زندگی میں خواتین نے واضح، روشن اور اہم کردار ادا کیا۔
فصاحت و بلاغت میں یکتائے روزگار اور ہمچو ما دیگرے نیست کا نعرہ مستانہ
بلند کرنے والے عربـ معاشرے میں شعراء کی قدرومنزلت بہت زیادہ تھی۔ من حیث
القوم ان کو ذوق شعر فطرتا ملا تھا۔شاعر ی کے معاملے میں عرب عورتیں مردوں
سے کسی طرح پیچھے نہیں تھیں۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت
سے قبل بھی ایسے بہت سے اشعار ملتے ہیں جو آپ سے متعلق ہیں اور اپنے
مضامین کے اعتبار سے نعت کہے جا سکتے ہیں۔ ان اشعار میں حضرات عبدالمطلب،
ابو طالب ، ورقہ بن نوفل اور دیگر چند لوگوں کے اشعار کے ساتھ ساتھ سیدہ
آمنہ، اَرویٰ بنت عبدالمطلب، شیما بنت الحارث ایسی خواتین شاعرات ہیں
جنہوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح و ثنا کی ہے۔اس ضمن
میں ایک خوب صورت واقعہ محمد رضا مصری نے اپنی کتاب "محمد رسول اللّٰہ" میں
لکھا ہےکہ سفیان بن مجاشع التمیمی کو ایک کاہن عورت نے نبی کریم صلی اللّٰہ
علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی بشارت مسجع و مقفع کلام میں دی اور کہا:
نبی موید قد اتی حین یوجد و دنی او ن یولد یبعث الی الاحمر و الاسود بکتاب
لاینفد اسمہ محمد ۔
وہ نبی جس کی تائید کی جائے گی تم جلد ہی اس کو پاؤ گے وہ وقت قریب ہے جب
اس کی ولادتـ ہوگی وہ اسود و احمر کی طرف ایک لافـانی کتاب لے کر آئے گا
اس کا نام محـمد ہوگا۔
جب سفیان نے پوچھا وہ عربی ہوگا یا عجمی ؟ بولی
اما والسماء ذات العنان والشجرۃ ذات الافنان انہ لمن معد ابن عدنان
مجھے بلندیوں والے اسمان کی قسم اور گھنی شاخوں والے درختوں کی قسم وہ معد
ابن عـدنان کے قبیلے سے ہوگا۔
(محـمد رسول اللّٰہ، محمد رضـا مصری، مترجمہ محمد عادل قدسی، طبع چہارم،
1961ء، مطبوعہ تاج کمپنی، ص: 92)
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور اعلان نبوتـ کے بعد تو
جتنی خواتین صحابیات نے سید کونین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح و
ثناء میں سخن کیا ہے۔ یہ سخن نثر میں بھی ہے اور نظم کی صورت میں بھی ہے۔
اور اس سبھی کو نعت ہی کہا جائے گا۔ ایک طـرف، حسان بن ثابت، عبداللّٰہ بن
رواحہ اور دیگر شاعر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع میں سخن
طراز ہیں تو دوسری جانب سیدہ عائشہ، سیدہ زہرا، سیدہ صفیہ، سیدہ عاتکہ رضی
اللّٰہ عنہن بھی اپنے جذباتـ و احساسات کا اظہار برابرکر رہی ہیں۔
صحابیات کے اشعار اپنے نفس مضمون اور لطیف جـذبات و احساسات کا اظہار کرنے
کے سبب دیگرشعرا کے کلام سےممتاز ہیں ۔اور اپنی تاثیر اور نفوذ کے اعتبار
سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔کتب سیر و سوانح میں شاعرات صحابیات کے مختلف
مواقع پر کہے گئے بہت سے اشعار بکھرے پڑے ہیں۔ جن کی اہمیت سے انکار نہیں
کیا جا سکتا۔ شامی محقق عبدالرحیم نے اپنی کتاب"شاعـرات حول الرسول صلی
اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم" میں پچاس کے قریب شـاعرات کا تذکرہ کیا ہے۔ جن کے
نام یہ ہیں۔
أروى بنت الحارث، أروى بنت عبد المطلب،أسماء بنت أبي بكر، أسماء بنت
عميس، أم البراء، أم ذرّ، أم رعلة القشيرية، أم سلمة، لبابة بنت
الحارث، أم نبيط، أم الهيثم النخعية، أمامة الزبذية، أميمة بنت رفيقة،
بركة بنت ثعلبة، بكارة الهلالية، والبيضاء بنت عبد المطلب، الخنساء، حفصة
بنت عمر، خولة بنت الأزور، خولة بنت ثابت، درة بنت أبي لهب، رقيقة بنت
أبي صيفي، رقية بنت عبد المطلب، زينب بنت علي، زينب بنت العوام، سعدى بنت
كريز، سودة بنت عمارة، الشيماء بنت الحارث، صفية بنت عبد المطلب، ضباعة بنت
عامر، ضبيعة بنت خزيمة، عائشة بنت أبي بكر، عاتكة بنت زيد، عاتكة بنت عبد
المطلب، عمرة بنت دريد، عمرة بنت رواحة، فـاطمة بنت محمد، قتيلة بنت النضر،
كبشة بنت رافع، لبابة بنت الحارثـ، ميمونة بنت عبد اللّٰہ، نعم بنت حسان،
هند بنت أنانة، هند بنت الحارث، هند بنت سهيل، هند بنت عتبة۔
اگر میں ان خواتین کے نعتیہ اور مدحیہ اشعار کو نقل کروں تو یہ مختصر مضمون
اس کا متحمل نہیں ہو سکتا مختصراً اتنا کہوں گا کہ عہد رسالتـ ماؑ ب اور اس
کے بعد کے تمام ادوار میں دنیا بھر کی تمام زبانوں میں شعرا کے ساتھ ساتھ
شـاعرات کی نعت گوئی کی روایتـ ایک تسلسل کے ساتھ موجود ہے۔
اردو نعت گوئی کا دامن بھی خواتین کی شاعری سے معمور ہے۔ اردونعتیہ شاعری
کی تاریخ ایک طویل عرصہ پر محیط ہے اور اس طویل تاریخ میں اردو کی پہلی
صاحب دیوان نعت گو شاعرہ زینت بی بی محجوب کے مجموعہ ”گلبن نعت،، سے لے کر
بشریٰ فرخ کے مجموعہ ” ورفعنالک ذکرک” تک شاعرات کی ایک طویل فہرست ہے
جنہوں نے اس صنف سخن کی آبیاری کی ہے۔خواتین کی نعتیہ شاعری کا ایک عمدہ
انتخاب کراچی سے غوث میاں نے شائع کیا ہے تاہم نعت گوئی کے نسوانی اسالیب
اور نعت گو شاعرات کے فنی اور تخلیقی سرمایہ کے جداگانہ مطالعہ کی اشد
ضرورت ہے۔ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گرامی قدرڈاکٹر ریاض مجید سے
گزارش کرونگا کہ وہ اپنی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی سطح پر ایسے مطالعہ کا
اہتمام کروائیں۔
(۲)
” ورفعنالک ذکرک،، بشری فرخ کا پہلا نعتیہ مجموعہ ہے جسےشـاید خیبر
پختونخواہ سے کسی خاتوں کا باقـاعدہ شائع ہونے والا اولین نعتیہ مجموعہ بھی
قرار دیا جا سکتا ہے۔اس سےپہلےان کےپانچ شعری مجموعے اشـاعت آشنا ہو چکے
ہیں جن میں سے پہلے چار(۱)اک قیامتـ ہےلمحہ موجود (۲)ادھوری محبت کا سفر
(۳) بہت گہری اداسی ہے (۴) جـدائی بھی ضروری ہے، ان کی اردو شاعری کے
مجموعے ہیں اور پانچواں مجموعہ” محبتاں دے مزاج وکھرے،، ہندکو شاعری پر
مشتمل ہے۔غـزل اور نظم جیسی اصناف سخن میں ایک طویل عرصہ کی ریاضتـ کے
بعدبشریٰ فرخ کا نعت کی جانب مائل ہونا اس بات کی ضمانتـ ہے کہ عقیدتـ کے
اس سفر میں ان کے پاس شعر گوئی کےلیے ضـروری فکری و فنی محاسن اور اسالیب
کا زادِـ راہ موجود ہے،اب محض عقیدت کے نام پر بے کیف اشعار کی تخلیق نہیں
ہوگی بل کہ حسنِ عقیدت حسنِ اظہار سے مملو ہوگاتوشعر میں تخلیقی،فنی، فکری
اور جمالیاتی سطح پر رعنائیاں پیدا ہوں گی۔
بشریٰ فرخ شعر کی فنی اور جمالیاتی ابعاد سے بھی آگاہ ہیں اور نعت کے
موضوعـات بھی کسی قدر ان کے مطالعہ میں موجود ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں
سرورِ کائینات صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور دودمانِ رسالتـ سے بے پناہ
عقیدت ہے اور جب وہ اس عقیدت اور محبت بھرے جذبات سے سرشـار ہوکر تخلیق کے
عمل سے گزرتی ہیں تو ان کے شعر میں تاثیر، گداز اور والہانہ پن جیسے عناصـر
کا خوبصورت ظہور ہوتا ہے
بشریٰ کے کلام میں نہ توفنی معاملات کی طرف سے بے اعتنائی کا رویہ موجود ہے
اور نہ ہی وہ نعت کےفکری اور موضوعاتی معالات میں کسی طرح کی کوتاہی برتنے
کو تیار نظر آتی ہیں۔ اس کے باوجود اگرکہیں کہیں زیرتبصرہ کتابـ میں فنی
حوالے سے کوئی خامی،بعض مصارع کی کمزور بندش یا کسی مقام پر تعقید کے مسائل
نظر آتےہیں تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ خوش کن بات یہ ہے کہ جہاں قـدرت
نےانہیں عقیدت و وارفتگی سےمالامال کیا وہاں وہ اس شعور سے بھی عاری نہیں
کہ"ایں رہِ نعت استـ نہ صحراستـ"۔وہ جـذبہ کی فراوانی کے باوجود حـزم
واحتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔گویا وہ دل کی بات کہتے ہوئے
پاسبانِ عقل کو بھی ہمیشہ ساتھ رکھتی ہیں۔وہ عبد و معبود کی حدود سے آشنا
رہتے ہوئے نعت کہتی ہیں اوربے جا عشق و عقیدت کے نام پر کہیں بھی فکری
ضلالت و گمرہی کا شکار نہیں ہوتیں۔
خدا کے بعد ہے تو بسـ مرے نبی کی ذاتـ ہے
انہی کے واسطے ہے سب، درود ہے کہ نعت ہے
ان کا شاعرانہ آہنگ انتہائی سیدھا سادہ اور تصنع سے پاک قلبی کیفیات کا
آئینہ دار ہے۔ ان کے لہجے کے ترنم،زبان و بیان کی سـادگی اور اظہار کی بے
ساختگی نے ان کے شعر کو پر تاثیر اور دل نشین بنا دیا ہے
آپ کے در تک رسـائی مل گئی
یوں لگا جیسے خـدائی مل گئی
میرے نذدیک نعت درود و سلام کا ہی ایک پیرایہ ہے۔ جس کا حکم خود ربـ العزت
نے اہل ایمان کودیا ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلاَئِكَـتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِيِّ يٰأَيُّهَا
ٱلَّذِينَ آمَنُواْ صَلُّواْ عَلَيْهِ وَسَلِّمُواْ تَسْلِيماً (الاحزاب )
جب یہ حکم ربی نازل ہوا تو نبی مکرم نےخود امت مسلمہ کو درود و سلام بھیجنے
کا جو طریقہ تعلیم فرمایا اس میں دودمانِ رسالتـ کو بطور خاص شامل کیا گیا
یہاں تک کہ آل محـمد کے ذکر کے بغیر درود کو ناقص قرار دے دیا گیا اور
مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا گیا :
أنّ رسول الله صلّى الله عليه وآله وسلم قال: لا تُصلُّوا عَلَيّالصلاةَ
البَتراء، قالوا: وما الصلاةُ البَتراء ؟! قال: تقولون: اللّهمّ صلِّ على
محمّدٍ، وتُمسِكون، بل قولوا: اللّهمّ صلِّ على محمّدٍ وعلى آلِ محمّد.
(الصواعق المحرقہ : علامہ ابن حجر مکی)
رسول خدا نے فرمایا:مجھ پر ناقص درود مت بھیجا کرو ، صحابہ کرام نے دریافت
کیا کہ ناقص درود سے کیا مراد ہے؟ آپـ نے جوابا فرمایا: تم کہتے ہو اللھم
صل علی محـمد اور پھر رکـ جاتے ہو، بلکہ تم کہا کرو اللھم صل علی محـمد و
علی آل محـمد
اگر آل محمـد کے ذکر کے بنا درود سلام ناقص اور ابتر قرار پاتے ہیں تو
کیسے ممکن ہے کہ نعت نبی مختار ذکر اہل بیت نبوی کے بغیر مکمل ہو سکے۔
ہمارے زیر نظر مجموعہ نعت کی شاعـرہ نے بھی اس کا اہتمام بطور خاص کیا ہے۔
انہوں نے نعت کے ساتھ ساتھ اہل بیت اطہار سے بھی اپنی قلبی وابستگی کا خوب
اظہار کیا ہے وہ جانتی ہیں کہ محبت اہل بیت ایمان کا جـزو ہے اور اس کے
بغیر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں اس لیئے انہوں نے اپنی نعتوں میں بھی جابجا
اور مناقب کے مستقل عناوین کے تحت بھی خانوادۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ
وسلم سے اپنی گہری وابستگی اور عقیدت کو اپنے شعر کا موضوع بنایا ہے۔ کتاب
کا آخری حصہ ان کی اسی محبت و عقیدت کا غماز ہے۔اسی طرح بشریٰ کا دل اگر
محبت اہل بیت سے معمور ہے تو وہ عظمت صحابہ سے بھی بے خبر نہیں انہیں علم
ہے کہ رسول کائنات سے نسبت اور تعلق کی بنا پرصحا بٔہ کرام وہ ہستیاں ہیں
جن سے محبت کا تعلق باعث خیر و نجات ہے ۔ سو انہوں نے اپنی نعت میں جا بجا
صحابہ کرام کی سیرت و عظمت کو بھی موضوع بنایا ہے
علی، حسنین ، بی بی فـاطمہ کی یاد آتی ہے
جب اہلِ بیت کے صـدق و صفا کی باتـ ہوتی ہے
کوئی صـدیق، تو کوئی غنی فـاروق ملتا ہے
جو یارانِ حبیب کبریا کی باتـ ہوتی ہے
نعت ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں شاعـر انتہائی یکسوئی کے ساتھ اپنی
فکر کے تمام تر زاویوں کو ختمی مرتبت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف
موڑتا ہے اور جب اسے یہ فکری حضوری نصیب ہو جاتی ہے توتخلیق نعت کا عمل
جاری ہوجاتا ہے۔ اس حضوریٔ فکر کی لذتـ آشنائی کوئی معمولی بات نہیں اسے
محض ایک کیفیت نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ حضوری فکر شاعـر کے لیل و نہار کو
تبدیل کر کے رکھ دیتی ہے اس کے اخلاق و کردار کی تربیت کرتی ہے اور رفتہ
رفتہ وہ اخلاق حسنہ اورپسندیدہ کردارِ کے اس سانچے میں ڈھل جاتاہے جو
انسانیت کا مطلوبـ و مقصود ہےـ
تھے راہ شوق میں درپیش مرحلے کیا کیا
سنوارے عشق نبی نے معاملے کیا کیا
مرحبا جبـ سے ہوا عشق نبی دل کا مکیں
ایک دریا بنے جبـ آنکھ میں قطرہ پھیلے
ضرور انہوں نے مجھے غلامی میں لے لیا ہے
کرم کی دولتـ جو بات بے باتـ مل رہی ہے
اگر دیکھا جائے تومسلم خواتین کو یہ شـرف تو بہر حال حاصل ہوتا ہے کہ وہ
اپنی آئندہ نسلوں تک محامدِ رسول پہنچانے کا فریضہ ادا کرتی ہیں۔ وہ حتی
الامکان اپنے بچوں کی پرورش اس انداز میں کرتی ہیں کہ ان کی سیرت میں اسوۂ
حسنہ اور اخلاق محـمدی کی واضح جھلک پیدا ہو جائے ۔ یہ ہماری مقدس ماؤں کی
تربیت ہی تو ہے جو ہمیں عقیدتوں کے اس در تک لے آتی ہے جہاں سے نعت رسول
کے سرمدی نغماتـ پھوٹتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ عاشقان رسول کی رگ رگـ میں
موجود عقیدت و محبت کی حرارت انہی مقدس ماؤں کی عطا کردہ ہے۔اس پر فتن دور
میں کسی ماں کا اپنی عظیم روایتـ کے گم گشتہ سرے کو تلاش کر لینا اور اسے
عملی طور پر برتنا بہت بڑی سعادت ہے ہمیں خوشی ہے کہ بشری فرخ نے نعت سرورِ
کونین کو اپنے سر کی ردا بنا لیاہے۔مجھے یقین ہے کہ یہ ردا صرف ان کی
خطاؤں کو ہی نہیں ڈھانپے گی بلکہ انہیں رنج الم کی تیز دھوپ سے مکالمہ و
مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی عطا کرے گی ، انہیں صاحب عزم و یقین بنائے گی اور
ان کے وجود کو اپنی آئندہ نسلوں کے لیئے نشان امتیاز بنا دے گی۔ انشأ
اللّٰہ
ذرا بھی حبس کا موسم اتر آئے اگر دم میں
ہے ان کا کام رحمت کی گھٹائیں بھیجتے رہنا
کرم یہ خاص مولا کا ہے عیبوں کے چھپانے کو
مجھے ہر بار عزتـ کی ردائیں بھیجتے رہنا
کھڑی ہوئی ہوں نہ جانے کب سے لبوں پہ بس اک دعا سمیٹے
قبول ہو جائے حاضری اور دل اپنا ہر مدعـا سمیٹے
عنایتوں اور نوازشوں میں گھری ہوئی سوچتی ہے بشریٰ
جو ایک قطرے کی ملتجی تھی وہ کیسے بحرِ عطا سمیٹے |
|