کراچی کا والی وارث کون
(abdul razzaq choudhri, lahore)
کراچی کے حالات گزشتہ کچھ دنوں سے اک مرتبہ
پھرڈگمگا گئے ہیں اور دہشت گردی کی نئی لہر نے شہر کراچی سمیت پورے پاکستان
کو غمزدہ کر دیا ہے ۔بالخصوص ہر دلعزیز معروف قوال امجد صابری کی شہادت کے
تناظر میں جنم لینے والے فکر انگیز سوالات بڑی شدومد سے میڈیا میں موضوع
بحث بنے ہوے ہیں ۔کوئی شعلہ بیان اینکر رینجر کی کارکردگی سے نالاں ہے
۔کوئی ایم کیو ایم کو اس دہشت زدہ ماحول کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اور کوئی
کراچی آپریشن کے سست کپتان قائم علی شاہ کی ناقص کارکردگی پر آگ بگولہ
دکھائی دیتا ہے ۔کراچی معاشی حب ہونے کے علاوہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر
بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی شہر میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا
ہے تو پورے پاکستان کے در و بام اداسی کے دبیز بادلوں کی لپیٹ میں آ جاتے
ہیں ۔پاکستان کے ہر کونے سے کراچی میں امن کے قیام کے لیے دعائیں کی جاتی
ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کراچی کب تک محض دعاوں کا ہی محتاج رہے گا
۔کیا کراچی کا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔ کیا کراچی میں کسی سیاسی پارٹی کی
حکومت نہیں ہے ۔ جس سے پوچھا جائے جناب کیوں کراچی آپ سے سنبھل نہیں رہا۔
میں تو ان اینکر حضرات کی خدمت میں بھی بصد احترام عرض کرنا چاہتا ہوں جو
رینجر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں کہ یہ قائم علی شاہ صاحب کس
مرض کی دوا ہیں ۔ مجھے بھی سمجھا دیں ہو سکتا ہے میرے فہم سے یہ بات بالا
ہو کہ ایک وزیر اعلٰی کے کیا فرائض ہوتے ہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا قائم
علی شاہ کا کام صرف کرپشن کے گھوڑے پر سواری کرنا ہی رہ گیا ہے ۔کیا بھلکڑ
وزیراعلٰی کا کام اسمبلی میں سونا اور بونگیاں مارنا ہی رہ گیا ہے مجھے تو
سندھ کے باسیوں اور بالخصوص کراچی کے شہریوں سے دلی ہمدردی ہے جن کے سر پر
برس ہا برس سے ایک ایسا حکمران مسلط ہے جس کا عقل ودانش ،فہم و فراست
،معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی جیسے اوصاف سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں
۔مجھے سندھ میں کوئی ایسا ادارہ تو بتائیں جو اس کج فہم شخص کی غفلت ،عدم
توجہ اور اقربا پروری سے تباہ نہ ہو ا ہو ۔اس کا کام صرف کرپشن کرنا اور
کرپٹ افراد کو تحفظ دینا ہے ۔اس کی آنکھوں میں صرف سرمایہ اور سرمایہ دار
جچتے ہیں ۔یہ غریبوں کے گھر تبھی جاتا ہے جب ان کے گھر صف ماتم بچھ چکی ہو
۔جب پورا ملک سوگ میں ڈوبا ہو جب ماجد صابری جیسے ہیرے ہم سے بچھڑ چکے ہوں
۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ تب بھی اس قسم کے حکمران عوامی دباو میں یہ
کڑوا گھونٹ پیتے ہیں ۔ میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے غریبوں کو
گلے لگاتے ہیں ۔یہ اشک شوئی اور دلجوئی کا ڈھونگ رچاتے ہیں ۔اس کا کام صرف
اپنے اور اپنے کرپشن گرو کے مفادات کی نگہبانی ہے ۔اس آدھے سوئے آدھے جاگے
وزیراعلیٰ کو احساس ہی نہیں ہے کہ کراچی میں کیسی کیسی مینارہ عظمت ہستیاں
ہم سے جدا ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جا رہا ہے
۔ذرا اپنی یاد داشت کو تھوڑی تکلیف دیجیے اور سوچیے حکیم سعید سے لے کر
امجد صابری تک کتنی گوہر نایاب ہستیاں اک انہونی کا شکار ہو کر ہماری
آنکھوں سے اوجھل ہو چکی ہیں ۔اس ضمن میں تو مجھے عوام سے بھی گلہ ہے ۔ کیوں
منتخب کرتے ہو بصیرت سے عاری ایسے حکمرانوں کو جن کے اندر اتنی قابلیت اور
مہارت ہی نہیں ہے کہ وہ ملکی انتظام و انصرام کو مثالی بنیادوں پر ترتیب دے
سکیں ۔ جن کی ذات میں اتنا حوصلہ ہی نہیں ہے کہ وہ شیطانی قوتوں سے ٹکرا
سکیں ۔کیوں چنتے ہو ایسے حکمرانوں کو جن کے گلے میں لالچ ،حرص اور طمع سے
بنی مالا لٹکتی رہتی ہے اور ماتھے پر مفاد پرستی کا ٹیگ لگا ہوتا ہے ۔ کیا
بصارت کی کمی کا شکار ہو جو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا ۔ میں تو دعا گو ہوں
اپنے رب سے کہ میرے قلم کی نوک سے نکلے ہوے لفظوں میں اتنی کشش پیدا کر دے
کہ میرے یہ الفاظ مطالعہ کرنے والے میرے ہم وطنوں کے جسم و جاں میں تحلیل
ہو کر روح تک کو گرماتے ہوے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہو جائیں ۔اور وہ
فیصلہ کر لیں کہ آئندہ ہم کبھی مسقبل بینی کے جوہر سے محروم لیڈروں کا
انتخاب نہیں کریں گے ۔ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر کے مستحق نمائندگان کو
ہی سرخرو کریں گے ۔
ذرا سوچیے اگر آپ نے ان کوان کی نااہلی اور لاپرواہی کی سزا اپنے ووٹ کی
پرچی کے ذریعہ دی ہوتی تو ان کا چال چلن یہ نہ ہوتا ۔ آپ نے برس ہا برس ان
کو اپنے اوپر مسلط رکھا جس سے یہ موقع پرست آپ کی کمزوریوں سے بخوبی آگاہ
ہو چکے ہیں اور ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں بھی پوری مہارت حاصل کر
چکے ہیں ۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت
تھی اورملک کے درودیوار چیخ چیخ کر پکار رہے تھے خدا کے لیے میری اس کرپٹ
حکومت سے جان چھڑواو۔ یہ مجھے دیمک کی چاٹ رہے ہیں ۔ یہ میری بنیادیں
کھوکھلی کر رہے ہیں ۔ میں نے ان کا کیا بگاڑا ہے جو میرے بچوں مطلب اداروں
کا خون چوس رہے ہیں ۔میراتو ان نہلوں دہلو ں پر احسان عظیم ہے جو ان کو
اپنے دامن میں سمیٹا ہوا ہے یہ کیوں میرے ساتھ اتنا ظلم کر رہے ہیں ۔ یہ
کیوں خدا کا خوف بھی بھلا بیٹھے ہیں ۔ یہ کیوں چن چن کر کرپٹ لوگوں کو میرے
سر پر مسلط کرتے ہیں ۔ کبھی فرزند ملتان کو میری جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے
منتخب کرتے ہیں اور کبھی مجھے راولپنڈی کی برق رفتار کرپشن ٹرین کی زد میں
دیتے ہیں ۔ کوئی ہے محب وطن جو میری ان سے جان چھڑائے اور آج صورتحال یہ ہے
کہ وہی لوگ ملک کے والی وارث بنے بیٹھے ہیں ۔ مان گئے ان سیاسی بازی گروں
کی سیاسی چالوں کو ۔ ویسے مزے کی بات ہے یہ تماشا صرف پاکستان میں ہی ہو
سکتا ہے ۔یہ کبھی عوام کو سبز باغوں کی سیر پر لے جاتے ہیں کبھی دودھ کی
نہروں کے سرابوں کی زیارت کروانے نکل پڑتے ہیں ۔کبھی چاند پر کمند ڈالنے کا
منظر دکھاتے ہیں ۔ کبھی عمر و عیار کی عیاری کا رنگ دکھاتے ہیں ۔ کبھی حاتم
طائی کی روح ان میں سمٹ آتی ہے ۔ کبھی سقراط بقراط کو مات دیتے دکھائی دیتے
ہیں ۔ کبھی مسیحائی کے فن کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کی پرفارمنس درجہ
کمال کو چھو رہی ہوتی ہے ۔ یہ بڑے چالاک اور ہوشیار ہیں عوام کی آنکھوں میں
کسی نہ کسی طرح دھول جھونکنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں کیونکہ بحیثیت قوم
ہماری یادداشت بہت کمزور ہے ۔ ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں کہ کس کس نے اور کب
کب ہمیں اور ہمارے ملک کو گہرے زخم لگائے تھے ۔ |
|