ہم سب کے ساتھ ایسا کبھی نہ کبھی ضرور ہوتا
ہے۔ ہم دو چیزوں میں سے ایک کے انتخاب میں الجھ ضرور جاتے ہیں۔ کہ میں کیا
لوں کیا نہ لوں۔ یہ کروں نہ کروں ۔ کس کی مانوں نہ مانوں۔ اسکی سچ مانوں یا
جھوٹ ہی مان لوں۔ ہم سب کے ساتھ ہی ایسا کبھی نہ کبھی ضرور ہوتا ہے۔
1۔ہم جس طرح کے معاشرے میں رہتے ہیں۔ یہاں پر امیاں جو ہیں وہ اپنے
اختیارات کا استعمال ذیادہ بہت ذیادہ کرنا چاہتی ہیں۔ انکی کوشش ہوتی ہے
اور ساتھ ہی انکو یقین بھی ہوتا ہے کہ جو انکا چھوٹا ہے اس نے ہمیشہ چھوٹا
ہی رہنا ہے۔ اسی لئے اسکو مشوروں کی ضرورت تو ہمیشہ ہی رہنی ہے ۔
کبھی بھی یہ خود کچھ سوچ نہ سکے گا اسی لئے وہ مشورہ دیتی رہتی ہیں اور
پورے دل و جان سے دیتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر ایسے بچے ملیں گے
جو امی جی کے بغیر کیا لوں یا کیا کروں کا فیصلہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ان بچوں کی عمریں چار سے چالیس یا اس سے بھی ذیادہ ہو سکتی ہیں۔
2۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ امی یا ابا جی خود اسطرح کا مزاج
رکھنے ہیں اور اولاد ان میں یہ چیز دیکھ دیکھ کر کہ وہ کتنے کنفیوژ ہیں خود
بھی کنفیوژ ہی رہتی ہے۔ اماں ابا جی نے سو دفعہ سر کو کھجا کر بار بار چکر
لگا کر کوئی فیصلہ کر کے بھی نہیں کر پانا تو آسان یہی ہے کہ کسی تیسرے سے
پوچھ لیا جائے۔
امی ابا کے اسی قسم کے چکروں کی وجہ سے ہی جو تیسرا ہوتا ہے وہ بھی ہمیشہ
چھوٹے ے چھوٹا فیصلہ لینے میں بھی امی ابا کی طرح کسی تیسے کی تلاش میں ہی
نظر آتا ہے۔
3۔ ایسا ہم سب کے ساتھ ہی ہوتا ہے کہ ہم اکثر ٹی وی لگاتے ہیں اور یہ سمجھ
نہیں آتا کہ ہم اس ڈبے پر کیا دیکھیں۔ کچھ بھی فیصلہ لینے میں سمجھ نہیں
آتا۔ ہم سو چینلز ادل بدل کر کے پھر ریموٹ پٹخ دیتے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ
کبھی بھی دیکھنے کو کچھ ہوتا ہی نہیں۔
اسی طرح لڑکیاں بس کسی مال میں شاپنگ کرنے پہنچ جائیں انھوں نے جلدی واپس
نکلنا تو ہوتا نہیں۔ ہر دکان میں گھس گھس کر اپنے مطلب کی چیز ڈھونڈیں گی
اور آخر میں کہیں گی کہ کچھ ڈحنگ کا ملتا ہی نہیں۔ سیلفیاں لے کر گھر کو
چلتی بنیں گی۔
جب ہمیں خود بھی نہیں پتا ہوتا کہ ہم نے خود اصل میں کیا لینا ہے یا ہم
زندگی سے چاہ کیا رہے ہیں تبھی اصل میں ہم کنفیوژ ہو رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ
کو وجاحت سے پتہ ہوتا ہے کہ آپکو کیا چاہئے آپ کبھی بھی ادھر اُدھر ٹامک
ٹوئیاں مارنے کی بجائے وہی چیز منتخب کر لیتے ہیں جو کہ لینی ہوتی ہے۔
4۔ آپکو بہت سی خواتین نظر آتی ہیں جو کہ اکثر دکاندار حضرات سے ہی مشورہ
مانگ رہی ہوتی ہیں کہ انکو کونسا جوڑے کا رنگ لے لینا چاہئے یا کونسا
ڈیزائن جوتے کا لینا چاہئے۔
حضرات تو ڈیلرز کے ہاتھ چڑھتے ہی اسی وجہ سے ہیں کہ انکو اپنی معلومات سے
ذیادہ ڈیلرز اور ایجنٹس پر بھروسہ ہوتا ہے۔ جب خود پتہ نہیں ہوتا تو ایجنٹس
جو چاہے سلوک کریں انسان نقصان ہونے سے پہلے پیش بندی نہیں کر سکتا۔
کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے جانتے کم ہوں مختلف پہلوؤں پر غور نہ کر سکیں
تب بھی ہم کنفیوژ ضرور ہوتے ہیں۔
5۔ بھڑ چال کا حصہ بننے والا انسان خود کو سب سے ذیادہ پر سکون سمجھتا ہے
کہ بغیر پریشان ہوئے وہ فیصلہ کر سکتا ہے۔ جبکہ دوسرے کھانے پہننے پڑھنے
رہنے کے بارے میں جو فیصلہ لے رہے ہیں انکی دیکھا دیکھی وہی فیصلہ کر لینا
اسی راستے پر چلنا آسان تو ہے۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نہ کسی مرحلے پر فیصلہ
یا پریشانی خالص آپکی اپنی ہوگی جیسا کہ شادی یا جاائداد کے مسائل اگر فرض
کر لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو اس میں آپکے پاس کون ہوگا جس کی نقل کر کے آپ
فیصٖلہ لیں گے۔
6. اگر فرض کر لیں ماں باپ نے ہمیشہ بہت ذیادہ روکا ٹوکا اور خود فیصلے
لیئے۔ تو اب وقت ہے کہ آپ خود کو یہ بتانا شروع کریں کہ آپ نے لئے کچھ بھی
منتخب کرتے ہوئے کود سے پوچھنا ہے ان سے نہیں۔ بدتمیزی یا نافرمانی کا نہیں
کہا جارہا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں کیا کھانا یا پہننا ہےیہ خود منتخب کریں۔
پہلے پہل منتخب کرنا مشکل اور کنفیوژن والا لگے گا کہ آپکا مڑ کر پھر کسی
سے پوچھنے کا دل کرے گا سو ابتدا میں خود کو خود سوچنے کی انتخاب کی عادت
چھوٹی سی چیز سے ڈالیں۔
اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپکو خود ۔۔۔خود کے لئے سوچنے کی عادت ہو گی اور
آپکے آس پاس جو لوگ آپکے لئے سوچنا چاہتے ہیں انکو پیغام ملے گا کہ آپکو
خود سوچنے اور انتخاب کا حق دیا جائے۔
7۔ اپنی تحقیق کا دائرہ بڑھائیں چاہے وہ کتاب ہو کھانا ہو کپڑا ہو موبائل
ہو گھر ہو ۔ کچھ بھی خریدنا ہو یہ سوچ کر کہ آجکل فیشن میں یہ ہے نہ
خریدیں۔ جب دوسرے آپکے لئے منتخب کررہے ہوتے ہیں تو آپکو پتہ نہیں ہوتا کہ
کیا اور کیوں آپ لینا چاہتے ہیں۔ سو اس کیا اور کیوں کا جواب تلاش کریں۔
جب تک کہ تسلی سسے جواب تلاش نہ کر لیں۔ خریدنے نہ جائیں۔ انٹرنیٹ سے
پوچھیں یا دوسروں سے بھی پوچھیں مگر سب سے ضروری یہی ہے کہ آپ نے کیا اور
کیوں کا تشفی والا جواب ڈھونڈنا ہے۔ جب مل جائے تو آپکو مُڑ مُڑ کر دوسروں
کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا کہ وہ کیا کہیں اور آپ وہ کریں۔
جب آپکو کیا اور کیوں کا پتہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود ہی دوسرے آپکے کیا
کیوں کا فیصلہ لینا کم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
8۔خود اپنے لئے چھوٹے چھوٹے فیصلے لینے شروع کریں مثال کے طور پر شاپنگ
کہاں کرنی ہے کھانا کہاں کھانا ہے کب کھانا ہے۔ بچے اکثر ٹین ایج میں پہنچ
کر بھی اس طرح کے فیصلے لینے میں بھی اپنی مرضی سے ذیادہ دوسروں کی کہی پر
چلتے ہیں اسی وجہ سے جب کیا پڑھنا جیسا فیصلہ آتا ہے تو خود سے کبھی سوچا
نہیں ہوتا سو دوسروں سے پوچھتے رہتے ہیں۔ دوسروں کو آپکا ٹیلنٹ تو نہیں پتا
ہوتا یہی وجہ ہے کہ دوسرے ، دوسرے کی مرضی نہیں بتا سکتے اور ذاتی مرضی
پوری نہیں ہوتی سو انسان کنفیوژ کنفیوژ ہی پھرتا رہتا ہے۔
9۔ اپنا مشاہدہ اور تجربہ بڑھائیں۔ نت نئے لوگوں سے ملنا اور نت نئے جہگوں
پر جانا آپکے دماغ کے خانے کھول دیتا ہے۔ سو آپکے لَئے سوچنا اور اپنے لئے
سوچنا اتنا مشکل نہیں رہتا۔
آپ صرف اپنے دماغ کو بہتری کی طرف جانے کا موقع دیتے ہیں۔ دماغ کی یہ
کارکردگی آپکو ہر شعبے میں فائدہ دیتی ہے۔
کنفیوژ ترین لوگوں میں سب سے نمایاں بات یہی نظر آتی ہے وہ صیح معنوں میں
دماغ کو بہتر بنانے کا کام نہیں کر رہے ہوتے۔ دماغ سے برتی جانے والی بے
رُخی انکو ذندگی کے ہر معاملے میں سوچنے نہیں دیتی اور کنفیوژ کرتی ہے۔
|