سوال 700 کروڑ ڈالر کا۔۔۔ ؟

فقیر:صوفی صاحب ۔ضرورت مند ہوں۔مدد کر دیں صوفی : میں تین بار داڑھی پر ہاتھ ماروں گا۔ جتنے بال گرے ۔۔ اتنے روپے دوں گا۔۔۔صوفی نے تین بار ہاتھ مارا لیکن کوئی بال نہ گراصوفی :اللہ بھلا کرے ۔ تمہاری قسمت خراب ہےفقیر: جناب۔داڑھی آپ کی اور ہاتھ میرا ۔آزماکر دیکھ لیں۔ قومی خزانہ سن سنتالیس سےایسے ’’ صوفیوں‘‘ کے ہاتھ میں ہےجن کی داڑھی ۔پیٹ میں ہے۔فقیروں کے ہاتھ بھی خالی ہیں اور پیٹ بھی۔ ٹیکس دے دے کرقومی کمر کُبڑے عاشق جیسی ہو چکی ہے۔’’صوفی‘‘ جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ کھا رہے ہیں۔فقرا کے حمام میں سارے’’صوفی‘‘ ننگے ہیں۔جل سارے مچھلیوں نے گندے کر دئیے ہیں۔ اقتدار پرستی قومی کھیل بن چکا ہے۔ قومی خزانے کو چاروں شانے چِت کرنا ہی سب سے بڑی جیت ہے۔شائد یہاں 30 کروڑ روپے کاسوال کرنا حماقت ہے کیونکہ سوال 700 کروڑ ڈالر کا کھڑکی توڑ جا رہی ہے۔
عید الفطر پرپاکستان میں ایک فلم ریلیز ہوئی ۔’’سوال سات سو کروڑ ڈالر کا‘‘۔ فلم کی کہانی دوپروفیشنل چوروں کے متعلق ہے جن میں سے ایک کمپیوٹر چپ چوری کرتے پکڑا جاتا ہے۔چور کی جیل منتقلی کے دوران وین دریا میں گرجاتی ہے۔ پولیس اسے مرد ہ سمجھنے لگتی ہے۔ دوسرا چور ایک سمگلر کا قیمتی ہیرا ۔اور 700 کروڑ ڈالر چرانے کا منصوبہ بناتا ہے۔سمگلر کی نے ساری دولت بینکاک میں چھپا رکھی ہے۔خان ۔نام ایک پولیس آفیسر چورکو پکڑلیتا ہے۔ ڈرامہ، ڈانس اور عشق کے علاوہ فلم کی ٹوٹل کہانی اتنی ہی ہے۔ملک میں جن دنوں’’ سوال سات سو کروڑ ڈالر کا‘‘ ریلیز ہوئی اس کےچند دن بعد ایک اور سوال اٹھا ’’30 کروڑ روپے کا‘‘۔یہ کہانی بھی کافی فلمی ہے۔اور سوال پورے سرکٹ میں کھڑکی توڑ جا رہا ہے۔بلکہ یوں لگتا ہے ۔سوال سات سو کروڑ ڈالر کا ۔پولیس آفسیر ’’خان ‘‘۔اور 30 کروڑ روپے کا حساب مانگنے والا خان ایک ہی شخص ہے۔ سوشل میڈیا پرآج کل ایک سیاسی لطیفہ کافی ہٹ ہے کہ ۔
میاں صاحب نےاپنے توتلے مالی کو نوکری سے فارغ کر دیا ۔ کیونکہ مالی جب بھی اپنی بیوی کو رشیداں کہہ کےبلاتا۔تو میاں صاحب کو رسیداں سنائی دیتا ۔

’’رسیداں۔؟‘‘دراصل سوالات کاایسا لامتناہی ’’سلسلہ ‘‘ ہے۔جسے تحریک انصاف کے کھلاڑیوں نے سوشل میڈیا پر’’ٹاپ ٹرینڈ‘‘ بنا دیا ہے۔ میں بھی بطور پاکستانی اس ٹرینڈ کو فالو کر رہا ہوں کیونکہ سوال 30 کروڑ روپے کا ہے۔سوشل میڈیا کی ’’رسیدی‘‘بحث کا مخاطب صرف ن لیگی ہیں۔جن کافیس بُکی نام پٹواری ہے۔ اور پٹواری۔کھلاڑیوں کی بحث سے یوں لاتعلق ہیں ۔جیسے جوڑے طلاق کے بعد ہوتے ہیں۔کھلاڑی تو کہتے ہیں کہ خان کی تیسری شادی کا میڈیا پر چرچہ ۔۔رسیداں والا معاملہ دبانے کی سازش ہے۔۔ بلکہ وہاں تو نیا سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ ’’رسیدیں بھی دکھائیں اور ٹانکے بھی‘‘۔

پاکستان ہمیشہ سے غیر ممکنہ سیاسی صورتحال کا مرکز ہے۔یہاں ایشوز دبانے کے لئے نئے ایشوز گھڑے جاتے ہیں۔ملک میں جب حکمران خاندان کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا مطالبہ ہو رہا تھا تب اچانک وزیر اعظم نواز شریف کو بائی پاس کے لئے لند ن جانا پڑگیا۔ 31 مئی 2016 کو لندن میں وزیراعظم کی کامیاب اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ۔وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے بتایا کہ وزیر اعظم کے 4 بائی پاس ہوئے۔تو کھلاڑیوں نے نیالطیفہ گھڑ لیا ۔
وزیراعظم (شہباز شریف سے): تم لندن کیا کرنے آئے ہو۔؟
شہباز شریف:بائی پاس کا افتتاح کرنے ۔

حکومت نے اس آپریشن کو خاصا سنجیدہ لیا البتہ ڈاکٹر طاہر القادری بولے کہ وزیر اعظم کا آپریشن ٹوپی ڈرامہ تھا۔امیر جماعۃ الدعوۃ حافظ سعید کہتے ہیں کہ اللہ کرے جو دل انڈیا کے ساتھ دھڑکتا تھا وزیر اعظم وہ لندن چھوڑ آئے ہوں۔ سوشل میڈیا کہتا ہے کہ ’’ وزیراعظم نے آف شور آپریشن کرایا‘‘ ۔۔اور میرا دوست مرید کہتا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن اور لندن آپریشن ناقابل فہم ہیں۔وزیر اعظم ڈیڑھ ماہ لندن میں ’’بیمار‘‘ رہے۔ انہیں وطن لانے کے لئے پی آئی اے نے بوئنگ 777 طیارہ فلائٹ مختص کیا۔ امریکا ، ٹورنٹو ، پیرس اور مدینہ منورہ کی پروازیں متاثر ہوئیں۔ طیارے سےسیٹیں نکال کر بیڈ لگائے ۔ جراثیم کُش ادویات کا چھڑکاؤ کیا گیا اور ’’عوامی جراثیم‘‘ سے محفوظ خالی جہاز لندن چلا گیا۔ وزیر اعظم چند رشتہ دار۔وزیروں مشیروں کے ساتھ پاکستان لوٹ آئے۔دوران بیماری لندن شفٹ کیا گیا وزیر اعظم کا عارضی کیمپ آفس بھی لاؤ لشکر سمیت اسی جہاز میں واپس آیا۔ پی آئی اے کو اس وزیر اعظم کی واپسی پر 30 کروڑ روپے کا نقصان ہوا جس کے بغیر ملک ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔
فقیر:صوفی صاحب ۔ضرورت مند ہوں۔مدد کر دیں
صوفی : میں تین بار داڑھی پر ہاتھ ماروں گا۔ جتنے بال گرے ۔۔ اتنے روپے دوں گا۔۔۔صوفی نے تین بار ہاتھ مارا لیکن کوئی بال نہ گرا
صوفی :اللہ بھلا کرے ۔ تمہاری قسمت خراب ہے
فقیر: جناب۔داڑھی آپ کی اور ہاتھ میرا ۔آزماکر دیکھ لیں۔

قومی خزانہ سن سنتالیس سےایسے ’’ صوفیوں‘‘ کے ہاتھ میں ہےجن کی داڑھی ۔پیٹ میں ہے۔فقیروں کے ہاتھ بھی خالی ہیں اور پیٹ بھی۔ ٹیکس دے دے کرقومی کمر کُبڑے عاشق جیسی ہو چکی ہے۔’’صوفی‘‘ جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ کھا رہے ہیں۔ سونے کے انڈے دینے والی مرغی مسلسل ذبح کی جا رہی ہے۔فقرا کے حمام میں سارے’’صوفی‘‘ ننگے ہیں۔جل سارے مچھلیوں نے گندے کر دئیے ہیں۔ اقتدار پرستی قومی کھیل بن چکا ہے۔ قومی خزانے کو چاروں شانے چِت کرنا ہی سب سے بڑی جیت ہے۔شائد یہاں 30 کروڑ روپے کاسوال کرنا
حماقت ہے کیونکہ سوال 700 کروڑ ڈالر کا ۔کھڑکی توڑ جا رہی ہے۔
بہو( سہیلی سے):پرسوں میری ساس کنوئیں میں گر گئی۔ بیچاری کو بہت چوٹ لگی۔ ساری رات چیختی رہی ۔
سہیلی (دُکھ سے):اب کیسی ہے تمہاری ساس ۔۔؟
بہو :اب تو اُسے آرام آگیا ہے کل سے کنوئیں سے آوازیں نہیں آرہیں۔

ساس کی طرح تقریبا ساری قوم کنوئیں میں ہے ۔ اپوزیشن کرپشن اور دھاندلی پرتھوڑا۔بہت چیخ رہی ہیں لیکن حکومت کی خواہش ہے اسے ’’آرام‘‘ آجائے۔ خزانہ ’’۔نِیچ۔ ‘‘ کی طرح مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ماضی میں بھی کئی آوازیں کنوئیں میں دابی جا چکی ہیں۔نيب کے سابق چيئرمين فصيح بخاری کہہ چکے ہیں کہ ملک میں یومیہ 8 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔یعنی ملک کے سالانہ بجٹ کے تقریبا برابر سالانہ کرپشن ۔۔ پرویز مشرف دور میں احتساب بیور و میں شریف فیملی کے خلاف ۔۔(حديبيہ پيپر ملز ميں 642.743 ملين روپے کرپشن ۔۔ رائے ونڈ محل کی تعمیر میں 247.352 ملين روپے اور نیشنل بنک سے قرضہ لے کر اتفاق فاؤنڈری کو دانستہ ڈيفالٹ کرنے) تین ریفرنس دائر ہوئے تھے۔ سابق وفاقی وزیر رحمن ملک نے 32 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کاالزام لگایا ۔ان کے علاوہ آف شور کمپنیاں ،گندم کی درآمد ، موٹر وے کا ٹھیکہ ، دنیابھر میں خفیہ کاروبار۔ اور لندن فلیٹس جیسے میگا کرپشن سکینڈل شریفوں کے سر ہی ہیں ۔30 کروڑ روپے کا سوال بالکل ہی نیا ہے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے بائی پاس خزانے سے کرایا ۔یا جیب سے سوال تو یہ ہے کہ سالوں اقتدار میں رہنے والے اپنے علاج کے لئے ایک ہسپتال نہیں بنا سکے ۔ وزیر اعظم علاج کے بعد واپس آئے تو جہاز کی سیڑھیاں خود اُترے ۔یہ صرف صالح ظافر کی قلم کا کرشمہ تھا کہ وہ اتنی جلدی صحت پکڑ گئے۔عمران خان نےپی آئی اے کوہونےو الے 30 کروڑ روپے کانقصان عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔فلم ’’سوال سات سو کروڑ ‘‘ کی طرح ’’ خان‘‘ ہمیشہ چور کے پیچھے رہے گا۔اللہ جانے چور پکڑنے کے لئے کوئی’’ سندھی‘‘۔ خان کا ساتھ دے گا یا نہیں۔؟۔البتہ اگلے چند روز کے دوران سرکٹ میں نئی فلم نمائش کے لئے پیش ہونے والی ہے۔ فقیر ۔داڑھی پکڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔کھلاڑی رسیدیں اور ٹانکے دیکھنا چاہتے ہیں اور پٹواری خاموش بیٹھے ہیں۔ تاہم وزیراعظم کا کہنا ہے کہ قوم کی خدمت کرتا رہوں گا۔آپریشن کے بعد اب بہتر محسوس کر رہا ہوں۔قوم پتہ نہیں کیسا محسوس کر رہی ہے۔ ؟
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 94261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.