تاریخ گواہ ہے کہ نوجوان جب بھی کسی
تحریک کاحصہ بنتے ہیں تو وہ تحریک کامیاب ہو کر رہتی ہے۔اس تحریک میں شامل
ہونے والا نیا خون ولولوں کو ایک نئی مہمیز دیتا ہے اور جذبوں میں ایک جان
پڑ جاتی ہے۔تحریک پاکستان کی ہی مثال لے لیجیے۔1940کے بعد جیسے ہی علی گڑھ
کے طلبا اس تحریک کا حصہ بنے محض سات سال کے مختصر عرصہ میں پاکستان معرض
وجود میں آگیا۔اس وقت ایک اور تحریک جو ہمارے خطہ میں 68سال سے جاری ہے اس
میں نوجوانوں کی شمولیت نے ایک نیا رنگ بھر دیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں جاری
اس تحریک آزادی میں اگرچہ اس سے پہلے بھی نوجوان شا مل رہے ہیں لیکن اس
دفعہ یونیورسٹیز کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا باقاعدہ شمولیت اختیار کرنا اور
بھارت سرکار کے خلاف اعلان جہاد کرنا یقینا ایک ایسا عمل ہے جس نے بھارت کے
ایوانوں کو ہلا دیا ہے۔ ماضی میں ایسی کئی رپورٹیں میڈیا کی زینت بن چکی
ہیں کہ جن میں یہ حقائق پیش کیے گئے تھے کہ کشمیر کی تحریک آزادی کی کمان
اب پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔تحریک آزادی کی اس نئی جہت میں رنگ
بھرنے والا نوجوان برہان وانی ہے کہ جس کو چند دن قبل بھارت کی غاصب آرمی
کی طرف سے شہید کر دیا گیا تھا۔21 سالہ برہان کشمیر میں جدوجہد آزادی کو
نئی جہت دینے والا سمجھا جاتا رہا تھا اسی لئے پولیس کو بھی انتہائی مطلوب
تھا۔پچھلے سال اپنے بڑے بھائی کی فوج کے ذریعے ہوئی ہلاکت کے بعد برہان کا
کردار اچانک خطرناک رخ اختیار کر گیا اور اس نے سوشل میڈیا کا سہارا لیکر
پہلی بار کشمیر کی تحریک آزادی کو نیا رخ دیا۔اسکے ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے
لگے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اسکی اپیل پر جنوبی کشمیر میں سینکڑوں نوجوان
جنگجووں کی صف میں شامل ہوئے ۔برہان کے والد مظفر احمد وانی مقامی ہائر
سکنڈری سکول میں پرنسل ہیں۔پچھلے سال چودہ اپریل کو برہان کے بڑے بھائی
خالد مظفر کملہ جنگل میں فوج کے ہاتھوں شہید ہوا۔خالد مظفر پوسٹ گریجویٹ
طالب علم تھا اور وہ برہان سے ملنے کےلئے اپنے دو دوستوں کے ہمراہ گیا تھا
۔
برہان مظفر وانی ایک ہونہار طالب علم تھا جس نے ہندوستانی فوجیوں کے مظالم
کے خلاف صرف 15 سال کی عمر میں ہتھیار اٹھائے۔برہان وانی کے والد مظفر وانی
نے گذشتہ سال ہندوستان ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ صرف
اس لیے عسکریت پسند نہیں بنا تھا کہ اس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس
نے اس لیے ہتھیار اٹھائے کہ اس نے ہندوستانی فوج کو دیگر لوگوں کو تشدد کا
نشانہ بناتے ہوئے دیکھا ہندوستان سے آزادی حاصل کرنا صرف اس کا ہی نصب
العین نہیں تھا بلکہ یہ ہر کشمیری کا مطالبہ ہے، یہاں تک کہ میرا بھی۔ایک
سال قبل حزب المجاہدین کے 21 سالہ کمانڈر برہان مظفر وانی کی ایک ویڈیو
سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے کشمیری نوجوانوں کو ہندوستان قبضے کے خلاف
مسلح جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دی تھی۔
یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیر کی کسی عسکری تنظیم کی جانب سے باقاعدہ طور پر
نوجوانوں کو عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی۔ کشمیری
نوجوانوں کے نزدیک برہان وانی حریت پسند اورایک ہیرو تھے، جبکہ ہندوستانی
فورسز کا دعویٰ تھا کہ وہ ریاست میں ہونے والے متعدد حملوں میں ملوث
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ برہان وانی کی اپیل پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تحریک
آزادی کشمیر میں شامل ہو رہی ہے۔اس مقبول نوجوان کو جب شہید کرنے کے لئے
بھارتی فوج کی طرف سے محاصرہ کیا گیا اس وقت بھی نوجوانوں کی طرف سے بھارتی
فوج پر پتھراؤ کیا گیا ۔ اسی دوران برہان وانی بھی منصب شہادت پر فائز ہوئے۔
برہان مظفر وانی کی شہادت کی خبر پوری ریاست میں بہت تیزی سے پھیلی جبکہ
نوجوانوں کی جانب سے شدید رد عمل بھی دیکھنے میں آۤیا۔ بلا مبالغہ لاکھوں
کی تعداد میں لوگ اپنے اس محسن اور شہید کے جنازے میں پہنچے۔ ایک محتاط
اندازے کے مطابق برہان وانی کے جنازے میں تین لاکھ سے زائد لوگ جمع
تھے۔جبکہ کشمیر بھر میں کوئی ایسا علاقہ نہیں تھا کہ جہاں برہان وانی کی
غائبانہ نماز جنازہ ادا نہ کی گئی ہو۔بھارتی فوج کی طرف سے نوجوانوں کو نہ
صرف جنازہ ادا کرنے سے روکا گیا بلکہ جگہ جگہ بھارتی فوج کی طرف سے جارحانہ
تشدد بھی کیا گیا ۔کشمیری نوجوانوں کی جانب سے فورسز پر پتھراو کیا گیا
جبکہ ہندوستانی فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے گولیوں کا بے دریغ
استعمال کیا۔3روز کے دوران احتجاج میں 31 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں
جبکہ 400سے زائد زخمیوں کو بھی طبی امداد کے لیے مختلف ہسپتالوں میں منتقل
کیا گیا۔غاصب بھارتی فوج کے تشدد سے کشمیریوں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد
بینائی سے محروم ہو چکی ہے۔یہاں تک کہ بچے اور خواتین تک اس تشدد سے محفوظ
نہیں ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود کشمیری قوم کی جرات کو سلام ہے کہ وہ ابھی
تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ برستی گولیوں اور بد ترین تشدد کے باوجود وہ اس وقت
برسرپیکار ہیں۔ ان مظاہروں کی سب سے خاص بات ان میں لہرائے جانے والے سبز
ہلالی پرچم ہیں۔کشمیریوں کا کوئی مظاہرہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس
میں پاکستان کا پرچم نہ لہرایا جائے۔یہاں تک کہ برہان وانی کی میت کو بھی
پاکستانی پرچم میں لپیٹا گیاتھا۔ یہ ان لوگوں کو واضح جواب ہے کہ جو
کشمیریوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے مطالبے کی تردید کرنے کی کوشش کرتے
ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیری تو اپنا حق ادا کر رہے ہیںاور خوب ادا
کر رہے ہیں لیکن پاکستان حکومت کو اس وقت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر
اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب بھی کشمیری ہیں اور وانی قبیلے سے
ہی تعلق رکھتے ہیں۔ انہی کے قبیلے کو نوجوان نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک
نئی جان بھر دی ہے ۔اب نواز شریف صاحب کو بھی چاہیے کہ آگے بڑھیں اور اس
موقع پر کشمیریوں کے لیے تاریخی کردار ادا کریں۔اب وقت ہے کہ بھارت کی طرف
سے کیے جانے والے غاصبانہ قبضے کو دنیا کے سامنے عیاں کیا جائے اور
کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق خود ارادیت دیا جائے۔ اقوام متحدہ کی
قراردادوں پر اب عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہی موقع ہے کہ دشمن سے اپنی شہ رگ
کو آزادکروایا جائے تاکہ ہم اپنی سلامتی کو یقینی بنا سکیں ۔ کیونکہ جب تک
ہماری شہ رگ دشمن کے قبضے میں ہے ہم سکوں کا سانس نہیں لے سکتے۔کشمیری نہ
صرف اپنی آزادی اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں بلکہ وہ پاکستان کی سلامتی کی
جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ ان کی نظریں اس وقت پاکستان کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ ان
امیدوں پر پورا اترنے کی ضرورت ہے۔
مودی سرکار بھی اب اس حقیقت کو سمجھ لے کہ کشمیری اب بھارت کے ساتھ رہنے کو
تیار نہیں ہیں۔ لہذا اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق ان کا جائز حق انہیں
دیا جائے وگرنہ بصورت دیگر بھارت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔کیونکہ
کشمیری نوجوان اب اس بات کاعزم کر چکے ہیں کہ ہر صورت بھارت سے آزادی حاصل
کر کے رہیں گے ۔ |