لیکن ! ہم سُو رہے ہیں۔

لگڑ بھگڑ کی کہانیاں جب ہم بچپن میں سُنا کرتے ۔ تو ہمارے تصور میں ہمیشہ محلہ کا مریل سا کتا دروازے پر چھیچڑوں کی طلب میں کھڑا دکھائی دیتا۔ اور جونہی کوئی بچہ زمین سے پتھر اٹھانے کی کوشش کرتا ۔ وہ کمزور سا احتجاج کرنے کے بعد وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا۔

لیکن نیشنل جیوگرافک چینل پر بارہا اس لگڑ بھگڑ کی ڈاکیومینٹری فلم دیکھنے کے بعد ہمیں احساس ھوا کہ،، لگڑ بھگا ہماری گلی کے اس مریل کتے سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔

یہ تنہا ھو تب بھی ایک کمزور بھیڑیا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب یہ گروہ کی شکل میں ھو تو جنگل کے بادشاہ کی بھی ناک میں دَم کردیتے ہیں ۔ اور جب تک اسے شکار سے حصہ نہ مل جائے موقع واردات سے نہیں ٹلتے۔ بعض اوقات تو یہ شیر کے شکار سے اُسے بھی کچھ کھائے بغیر رفوچکر ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ذُوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں لِسانی فسادات کی ھوا نے تمام سندھ کو اپنی لپیٹ میں لیا ھوا تھا۔ تب حکومت کیخلاف مظاہرین کس طرح یکجا ھوکر ٹولیوں کی صورت میں نمودار ھوتے۔ اور پولیس اور انتظامیہ کو تگنی کا ناچ ناچنے پر مجبور کردیتے ۔

دس برس کی عمر تک میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی تھی۔ کہ،، پاکستانی ،، ایک ایسی قوم ہے ۔ جو اپنے حق کیلئے ایک آمر سے بھی لڑسکتی ہے اور طاقتور حکومتوں کو بھی جھکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔

اگرچہ مجھے ایوب خان و یحیٰ کی حکومت دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا لیکن اپنے بڑوں سے سُنا کرتا تھا۔ کہ،، کسطرح ایوب خان جیسے طاقتور جرنیل کو چینی پر چار آنے بڑھانے پر کُتا کُتا کہہ کر حکومت چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔

پھر نہ جانے اس قوم کو ایک اور آمر ضیاء الحق نے کونسی گیدڑسنگھی سنگھائی یا خُدا جانے اس مَرد مومن نے دریا میں افیم ڈال ڈال کر پلائی۔ میں نے اپنی قوم کو دوبارہ کبھی جاگتے نہیں دیکھا۔

چینی سات روپیہ سے 65 روپیہ تک جا پہنچی ۔ آٹا 4 روپیہ سے چالیس تک۔ تیل گھی 10 روپیہ سے 150 روپے کلو ، پیٹرول سات سے ستر روپیہ ، بڑا گوشت 12 سے 350 روپیہ تک ، بجلی کا بل 30 روپیہ سے چار ھزار تک اور لوڈشیڈنگ ایک گھنٹے سے 16 گھنٹے تک پہنچ گئی۔

لیکن قوم اَفیم کی پنک میں مَست ہے اور جاگنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ چار آنے پر لڑ مَر جانے والی قوم کے اربوں ڈالر سیاستدان لوٹ لوٹ کر باہر لیجارہے ہیں۔ عوامی فلاح اور ملکی دفاع کے نام پر عوام کے جسموں سے ٹیکس کی صورت تمام خون نچوڑ لیا گیا۔ رقم کہاں لگ رہی ہے یا کس کس کی جیب میں جارہی ہے کچھ خبر نہیں۔ کیونکہ عوام سُورہی ہے۔

البتہ جب کبھی نشہ ٹوٹنے لگتا ہے ایک نحیف و نزار سی صدا آتی ہے ،، فوج کیوں نہیں آجاتی ؟؟؟ حالانکہ فوج پاکستان میں اتنی بار اقتدار میں آچکی ہے کہ،، اب تو اس حالت مدہوشی میں بھی حکومت کیلئے فوج کو بلانا نہیں بنتا۔۔۔۔ کیونکہ فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ھوتا ہے۔ نہ کہ حکومت کا انتظام چلانا۔۔۔ یوں بھی ایک ایسے وقت جب ملک عزیز میں دہشتگردی کی صفائی مہم جاری ہے۔ فوج کو اقتدار کیلئے پکارنا بھلا کہاں کی دانشمندی ہے۔ مگر ہمیں دانشمندی سے کیا لینا دینا ہم تو سورہے ہیں نا !!!

یا پھر ہمیں صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی آمد کا انتظار رہتا ہے۔

ساری دُنیا میں انقلاب کا شور برپا ہے۔ تخت اُلٹ رہے ہیں تاج اُچھالے جارہے ہیں۔ دہشت کا بازار گرم ہے۔کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی لیکن ہم سورہے ہیں۔

اور یہ بات سیاستدان بھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لئے ایک بھیڑیا ملک سے باہر اپنی اگلی باری کا منتظر ہے۔ دوسرا بچی کچی دُولت سمیٹ رہا ہے۔ جبکہ تیسرا لیڈر دُولہا بننے کی تیاری میں مصروف ہے۔

مجھے تو کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہم لگڑ بھگڑ سے بھی کوئی کم درجے کی مخلوق بنتے جارہے ہیں۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1095622 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More