ہیں عام ہمارے افسانے دیوارِ چمن سے زنداں تک
(nazish huma qasmi, mumbai)
ہندو دھرم ہو یا دین عیسوی ہر مذہب میں مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے، اور اس تعلیم کے فیض یافتہ افراد کا رہن سہن دیگر لوگوں سے قدرے مختلف ہوتا ہے، کیونکہ ان کی چاہت ہوتی ہے کہ جب ہم نے مذہب کی تعلیمات کو سیکھا ہے تو ہمیں اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے، ان کے نام میں بھی کچھ اضافہ ہوجاتا ہے مثلاً ہندو دھرم میں’سادھو سنت ‘اور دین عیسوی میں عورتوں کیلئے ’نن ‘اور مردوں کیلئے ’پادری ‘کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر مذہب میں مذہب کی تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح مسلمانوں میں بھی مدارس کے ذریعہ مذہب اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسلام کے مقاصد پڑھایا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق بمشکل تین سے چار فیصد مسلمان بچے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں بقیہ یا تو اسکول میں داخل ہوجاتے ہیں یا پھر حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر تلاش رزق میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیم ہی امن و امان کو قائم کرنا ہے چنانچہ قرآن و احادیث میں بکثرت اس کا تذکرہ موجود ہے، قرآن میں صراحتاً مذکور ہے کہ’’جس کسی نے بھی کسی شخص کو قتل کیا یا زمین پر فساد برپا کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ہے‘‘ اسلام نے اس بات پر سختی سے زور دیا ہے کہ دیگر اقوام کے عبادت خانوں اور ان کے معبودوں کو برائی سے یاد نہ کرو، ان کے متعلق نازیبا گفتگو سے بچو، چنانچہ اکابرین امت نے اس بات پر سختی سے عمل کیا ہے اور بعد والی نسل کو بتلایا کہ ہمیں کس طرح ایسے ملک میں جہاں کثیر المذاہب لوگ آباد ہیں زندگی گزارنا ہے۔ اپنے ملک ہندوستان میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی ہے اگر مذہب اسلام امن کا مذہب نہیں ہوتا تو آج ہندوستان میں برادران وطن و سو کروڑ اور مسلمان 25کروڑ نہ ہوتے، برادران وطن کی قدیم ترین عبادت گاہیں مسمار کردی گئی ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے مندر، گرجا گھر اور گرودواروں کیلئے باضابطہ فنڈ دیا ہے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئیبڑی بڑی زمین الاٹ کی گئی ہیں ۔ یہ سب کچھ اسلئے تھا کہ ان کے مذہب کی تعلیم یہی تھی۔ لیکن معلوم نہیں کیسے شکیل اختر صاحب نے یہ لکھ دیا کہ ’’مدرسوں میں پڑھنے والے لوگ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں، مدارس سے فارغ ہونے تک ان کے اذہان کو ایک خاص سمت میں موڑ دیا جاتا ہے، جہاں پہونچ کر وہ جمہوریت کے بھی خلاف ہوجاتے ہیں، جمہوریت کے تئیں ان کے جذبات بالکل سرد پڑجاتے ہیں، جمہوریت انہیں ڈھکوسلہ نظر آتا ہے‘‘۔ حالانکہ جمہوریت کی بقا کیلئے مدارس سے فارغ شدہ افراد نے باضابطہ تحفظ جمہوریت کانفرنس منعقد کی ہیں اور اب بھی جمہوریت کی بقا کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ ہاں، ایک بات بہت صحیح ہے کہ مدارس اسلامیہ کے پروردہ مغربی تہذیب سے اتفاق نہیں رکھتے کیونکہ مسلمانوں کے پاس اپنی تہذیب ہے، زندگی گزارنے کا مستقل لائحہ عمل موجود ہے، پھر کیوں دوسری تہذیبوں کا دامن تھاما جائے، کیوں کشکول گدائی لیکر دوسرے کے در پر بھٹکا جائے۔
|
|
شکیل اختر بی بی سی کی تحریر ’’کیا دیوبند
اور ندوہ میں حکومت کا دخل ضروری‘‘ کے تناظر میں
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف میڈیا ٹرائل کیا ہوا کچھ مسلمان بھی میڈیا پر
جانچ ہونے سے قبل ہی اتنا بھروسہ کر بیٹھے کہ انہوں نے ذاکر نائیک کے خلاف
محاذ کھول دیا…بعض لوگ تو باضابطہ سڑکوں پر اتر آئے اور ذاکر نائیک کے
خلاف احتجاج کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑا تیر مارلیا۔ انہیں میں سے
ایک نام بی بی سی دہلی کے جناب شکیل اختر کا بھی ہے جنہوں نے ذاکر نائیک کے
ساتھ ساتھ ہندوستان میں موجود مدارس خصوصاً دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ
العلماء کو بھی زد میں لے لیا ہے۔ موصوف نے جس دیدہ دلیری کا اپنے مضمون
میں مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ خود بہت ہی پرلے درجے
کہ مذہب بیزار ہیں اور ان کی شدید خواہش ہے کہ تمام لوگ ان کی ہی طرح مذہب
بیزار ہوکر دہریہ ہوجائیں۔
ہندو دھرم ہو یا دین عیسوی ہر مذہب میں مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے، اور اس
تعلیم کے فیض یافتہ افراد کا رہن سہن دیگر لوگوں سے قدرے مختلف ہوتا ہے،
کیونکہ ان کی چاہت ہوتی ہے کہ جب ہم نے مذہب کی تعلیمات کو سیکھا ہے تو
ہمیں اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے، ان کے نام میں بھی کچھ اضافہ ہوجاتا ہے
مثلاً ہندو دھرم میں’سادھو سنت ‘اور دین عیسوی میں عورتوں کیلئے ’نن ‘اور
مردوں کیلئے ’پادری ‘کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر مذہب میں مذہب کی
تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح مسلمانوں میں
بھی مدارس کے ذریعہ مذہب اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسلام کے مقاصد
پڑھایا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق بمشکل تین سے چار فیصد مسلمان بچے
مدرسوں کا رخ کرتے ہیں بقیہ یا تو اسکول میں داخل ہوجاتے ہیں یا پھر حالات
کے ہاتھوں مجبور ہوکر تلاش رزق میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اسلام کی بنیادی
تعلیم ہی امن و امان کو قائم کرنا ہے چنانچہ قرآن و احادیث میں بکثرت اس
کا تذکرہ موجود ہے، قرآن میں صراحتاً مذکور ہے کہ’’جس کسی نے بھی کسی شخص
کو قتل کیا یا زمین پر فساد برپا کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل
کیا ہے‘‘ اسلام نے اس بات پر سختی سے زور دیا ہے کہ دیگر اقوام کے عبادت
خانوں اور ان کے معبودوں کو برائی سے یاد نہ کرو، ان کے متعلق نازیبا گفتگو
سے بچو، چنانچہ اکابرین امت نے اس بات پر سختی سے عمل کیا ہے اور بعد والی
نسل کو بتلایا کہ ہمیں کس طرح ایسے ملک میں جہاں کثیر المذاہب لوگ آباد
ہیں زندگی گزارنا ہے۔ اپنے ملک ہندوستان میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت
کی ہے اگر مذہب اسلام امن کا مذہب نہیں ہوتا تو آج ہندوستان میں برادران
وطن و سو کروڑ اور مسلمان 25کروڑ نہ ہوتے، برادران وطن کی قدیم ترین عبادت
گاہیں مسمار کردی گئی ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے مندر، گرجا
گھر اور گرودواروں کیلئے باضابطہ فنڈ دیا ہے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئیبڑی
بڑی زمین الاٹ کی گئی ہیں ۔ یہ سب کچھ اسلئے تھا کہ ان کے مذہب کی تعلیم
یہی تھی۔ لیکن معلوم نہیں کیسے شکیل اختر صاحب نے یہ لکھ دیا کہ ’’مدرسوں
میں پڑھنے والے لوگ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنا دشمن تصور
کرتے ہیں، مدارس سے فارغ ہونے تک ان کے اذہان کو ایک خاص سمت میں موڑ دیا
جاتا ہے، جہاں پہونچ کر وہ جمہوریت کے بھی خلاف ہوجاتے ہیں، جمہوریت کے
تئیں ان کے جذبات بالکل سرد پڑجاتے ہیں، جمہوریت انہیں ڈھکوسلہ نظر آتا ہے‘‘۔
حالانکہ جمہوریت کی بقا کیلئے مدارس سے فارغ شدہ افراد نے باضابطہ تحفظ
جمہوریت کانفرنس منعقد کی ہیں اور اب بھی جمہوریت کی بقا کیلئے سرگرم عمل
ہیں۔ ہاں، ایک بات بہت صحیح ہے کہ مدارس اسلامیہ کے پروردہ مغربی تہذیب سے
اتفاق نہیں رکھتے کیونکہ مسلمانوں کے پاس اپنی تہذیب ہے، زندگی گزارنے کا
مستقل لائحہ عمل موجود ہے، پھر کیوں دوسری تہذیبوں کا دامن تھاما جائے،
کیوں کشکول گدائی لیکر دوسرے کے در پر بھٹکا جائے۔
مدارس میں تعلیم کا نظام کیا ہے؟ مدرسوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟ ان کی سوچ
کیا ہوتی ہے؟ قوم و ملت اور ملک کے تئیں ان کے احساسات و جذبات کیا ہوتے
ہیں؟ موصوف کو چاہئے تھا کہ پہلے معلوم کرتے پھر کچھ لکھنے کی زحمت گوارا
کرتے لیکن انہوں نے یکسر اسلامی تعلیمات کو فرسودہ قدیم اور دقیانوسی سوچ
پر مبنی اور نہ معلوم کن کن القابات سے نواز دیا ہے، انہوں نے حکومت کے دخل
اندازی کی بات تو کی ہے لیکن صورت نہیں بتابئی۔ حکومت کے دخل کی شکل کیا
ہوگی؟ ذرا یہ تو ثابت کریں کہ اسلام کہاں تک اب فرسودہ ہوگیا ہے؟ اللہ کہتا
ہے کہ یہ دین آخری دین ہے، اور یہ قیامت تک باقی رہنے والا ہے اور بحیثیت
مسلمان ہونے کے ہمیں یقین کامل ہے کہ ہمارے دین میں کسی نئی چیز کیلئے کوئی
جگہ نہیں ہے۔ مذہبی معاملات میں ہمیں کسی اور کے راہنمائی کی ضرورت نہیں
ہے، البتہ دنیاوی معاملات میں ہم نے پہلے بھی دوسروں کا سہارا لیا ہے اور
ضرورت پڑی تو ان شاء اللہ آئندہ بھی ہم تیار ہیں۔ ہندوستان میں موجود
مسلمانوں کی دو بڑی تنظیمیں، جمعیۃعلماء ہند اور امارت شرعیہ کی تاریخ
پڑھیں، قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں مسلک سے پَرے انہوں نے کیا
کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں، اب بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ
لیجئے اور وہاں کے برادران وطن سے ان کے متعلق سوال کیجئے تو وہ بھی یکزبان
ہوکر ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آئیں گے، باوجودیکہ ان دو اداروں کے
ذمہ دار مدارس سے ہی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ بہار میں چل رہے مولانا ولی
رحمانی صاحب کی ماتحتی میں رحمانی 30 کا جائزہ لیا جائے، آسام کی مشہور
تنظیم مرکز المعارف کو جانا جائے ، خاندان قاسمی کے حافظ عاصم قاسمی کے طیب
ٹرسٹ کو دیکھا جائے ۔ اسی طرح اور بھی بے شمار ادارے ہیں جو مدارس سے ہی
تعلیم یافتہ افراد کی ماتحتی میں چل رہے ہیں ۔ لیکن ان کا میدان عمل
مسلمانوں تک محدود نہیں ہوتا ہے برادران وطن کیلئے بھی ان کے دروازہ ہمیشہ
کھلے رہتے ہیں۔
اور سب سے بڑی بات آج جو ہم آزاد ہندوستان میں جی رہے ہیں انگریز مورخ
بھی حقیقت لکھنے پر آمادہ ہوا اور انہوں نے برملا اظہار کیا کہ ہندوستان
کی جنگ آزادی صرف مسلمانوں نے لڑی ہے اور مسلمانوں میں بھی صرف دینی
اداروں کے مولانائوں نے اپنی جان نچھاوڑ کی ہیں۔ ایک ایک دن میں
80-80علمائوں کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا جاتا تھا۔ قاسم نانوتوی،
عبیداللہ سندھی، محمود الحسن دیوبندی ، حسین احمد مدنی، مولانا جعفر
تھانیسری ، اور دیگر لاکھوں علماء اگرنہ ہوتے تو شاید اسپین کی طرح (جس طرح
وہاں مسلمان ختم ہوگئے جو بچے وہ عیسائی ہوگئے) اسی طرح ہم یا تو ختم کردئے
جاتے یا جبراً ہندو یا عیسائی بنادئے جاتے۔ یہ ان ہی نفوس قدسیہ کی فکر تھی
کہ ہندوستان مسلمانوں کے لئے دوسرا اسپین نہ ہو۔ جبھی مدارس کا جال بچھا کر
آپ کی نماز جنازہ اور نکاح کا انتظام کروایا تاکہ تم مسلمان شادی کرسکو
اور مسلمان ہوکر مرسکو۔ یقیناً اگر مدارس نے ہوتے تو ہندوستان کا حال بھی
اندلس جیسا ہوتا۔
کہا جاتا ہے کہ جس طرح ہتھیار کے غلط استعمال سے فتنہ و فساد پیدا ہوجاتا
ہے ٹھیک اسی طرح قلم کا غلط استعمال بھی ہے، اگر خدا نے قلم کی صلاحیت سے
نوازا ہے اور لکھنے کا شوق بھی پیدا فرمایا ہے تو لکھیں، خوب لکھیں، لیکن
لکھنے سے پہلے یہ سوچ لیا جائے کہ ہمارے قلم کا رخ صحیح سمت میں ہے یا
نہیں؟ ہمارے قلم کی زد میں کوئی بے قصور تو نہیں آرہا ہے، کیونکہ یہ دنیا
تو بہرحال فانی ہے، ہر کسی کو یہاں سے جانا ہے اور ایک ایسا دن آئے گا جب
ہمیں ہمارے کئے کا بدلہ دیا جائے گا، کیوں نہ ہم ایسا عمل کریں جس سے ہمارا
رب بھی راضی رہے اور ہم دنیا و آخرت دونوں جگہ سرخ رو ہوجائیں، اللہ ہمیں
توفیق عطا فرمائے۔ |
|