ترکیوں کا پیغام
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
عوام کی بے چینی ختم کرنے کے لئے نواز حکومت کو بجلی،پانی اور گیس جیسی بنیادی ضرورتوں کے متعلق فوری اقدامات کرنے ہوں گے،ورنہ ان کی حکومت کسی بڑے صدمے سے دوچار ہوسکتی ہے۔ |
|
|
طیب اردگان |
|
15 جولائی 2016دنیا کی تاریخ میں ایک
نئےباب کا زریں عنوان ہے،جیساکہ ترک حکومت نے آیندہ اس دن کو بطور جشن
منانے کا اعلان کیا ہے،اس دن ترک عوام اور قیادت نے ایک بار پھر ثابت
کردیاکہ ہم زندہ،اصولی،مہذب،ترقی یافتہ،بیدار اور بہادر قوم ہیں،ہم خطرات
وسازشوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں،ہم صرف احسان فراموشی ہی کے خلاف نہیں،بلکہ
احسان فراموشی کرنے والوں کو بر سرِبازار خاک بھی چٹاسکتے ہیں،ہم فقط اپنے
محسنوں کا احترام ہی نہیں کرتے،بلکہ زبردستی محسنوں کی جوتیوں میں ڈال کر
عاقبت نااندیش مخالفین سے احترام کروابھی سکتے ہیں،قیادت پر ترکی عوام کا
احسان یہ تھا کہ انہیں2001سے اب تک چاہاتھا،ان پر اعتماد کیاتھا،ان کو اپنے
ووٹوں سے مسلسل کئی بار منتخب کیاتھا،عوام پر قیادت کا احسان یہ تھا کہ
انہیں کچھ ہی سالوں میں ہر طرح سےترقی یافتہ اقوام کے ہم پلہ لا کھڑا
کیاتھا،کرپشن کرکےان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی،ان کا کشکولِ گدائی
توڑکر انہیں مانگنے کے بجائے عطا کرنے کاراز سمجھایا،ان میں سلطان محمد
الفاتح جیسے اسلاف کی روح دوبارہ پھونک دی،ان کی کمزوریوں کو طاقت میں بدل
دیا، فرسودگی سے نکال کر انہیں سر اٹھا کر چلنا سکھادیا،اس قائد نے گھر میں
موجود آستین کے سانپوں کے سر کچلنےکے ساتھ ساتھ طاغوتی قوتوں کے شیاطین کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر پل مردانہ وار مقابلہ کیا،ہمیشہ سے خویش
واقارب کے بجائے عوامی مفاد کو مدنظر رکھا،اپنی قوم کے ساتھ ہر قسم کی
خوشیوں اور دکھوں کو شیئر کرتارہا،مقابلے میں آیا تو چٹان کی طرح مضبوط
رہا،ترس پے آیا ،تو بچوں کی طرح روتارہا،بلکتا رہا،
بلبلاتارہا،تڑپتارہا،دنیا شاہد ہے کہ اس قائد اور اس کی جماعت نےتعلیم،
اقتصاد،خارجہ تعلقات،امن وامان اور عزتِ نفس کے میدانوں میں پوری قوم کو
زندہ وتابندہ کردیا،چنانچہ نتیجہ آج مشرق ومغرب کی عوام وحکمرانوں کے
سامنے ہے،اس قائد کی ایک مختصر سی کال پر لاکھوں لوگ رات کے اندھیرے میں
خواب گاہوں سے نکلےاور بپھرے ہوئے طوفان کی طرح دیوانہ وار انقلابیوں پر
ٹوٹ پڑے،خالی ہاتھوں فوجی ٹینکوں کے سامنےنوجوان ،بوڑھے ،بچے اور مرد
وخواتین آہنی زنجیر بن گئے،کچھ ٹینکوں کے آگے سڑک پرہی لیٹ گئے،ایک دو
اپنی لگژری کاریں لے کر ٹینکوں کے سامنے آگئے،ٹینک گاڑیوں کودھکیلتے ہوئے
دور تک چلے گئے، مگر کچھ نہ بن پڑا،آگےکچھ نوجوانوں نے ٹینکوں پر چڑھ کر
غداروں کو نکال باہر کیا،تھوڑی بہت گوشمالی بھی کی،میدانوں میں آتے ہی ان
سب عوام کی زبانوں پر ‘‘ یا اللہ،بسم اللہ، اللہ اکبر’’ کے نعرے تھے،یہاں
کی پولیس اور خفیہ ڈپارٹمنٹ نے جان پر کھیل کر ،ملک وملت کے مستقبل کے
لئےشہادتیں پیش کرکے ،دنیا کی چوتھی یا پانچویں طاقتور ترین فوج کی دستوں
کا ایک طرح سےمقابلہ کیا،انہیں ہتھ کڑیاں لگائیں،میڈیا میں کچھ مناظر ایسے
تھے کہ چینل کے مرکز میں فوجیوں اور میڈیا کے نمائندوں میں ہاتھا پائی
ہورہی ہے ،جو آخر کار مسلح دستوں کے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھنے پر منتج
ہوئی۔
انقلاب کی خبریں کیا آنی تھیں کہ دشمنوں اور بد خواہوں کے یہاں مٹھائیاں
بانٹنا شروع ہوگئیں،جشن منائے جانے لگے،سازشی چینلز اور ویب سائٹس انقلاب
کے متعلق پل پل کی لائیو اپڈیٹ دینے لگے،پرجب طیب اردگان نے سکائپ پر آکر
کہا، عوام سڑکوں پر آجائیں،انقلابی ٹولہ ایک چھوٹاسا گروہ ہے،اسے پسپائی
پر عوامی طاقت سے مجبور کیاجائے،باہر سے ان کی ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں،تو
یورپی یونین کے ترجمان نے گویا انقلابیوں کی اپنی تئیں سر پرستی کرتے ہوئے
فوراًکہا ، نہیں جناب،ترکی میں کوئی چھوٹا گروہ نہیں ،بلکہ خاصی بڑی جماعت
انقلاب لارہی ہے،بعد میں انہیں اندازہ ہوا ہوگا کہ بات بننے کی نہیں تو صدر
ابامہ سے لے کر روس وغیرہ نے مذمتی بیانات جاری کردیئے۔
سابق صدر عبد اللہ گل، وزیر اعظم بن علی یلدرم ،آرمی چیف خلوصی ارکان اور
حزب اختلاف کے قائدین نے فی الفور اس غیر قانونی وغیر دستوری اقدام کو
میڈیا پر آکر مسترد کردیا،یوں فجر سے پہلے پہلے قضیہ ختم ہوگیاتھا اور
پوری دنیا دیکھ رہی تھی کہ ترکی عوام نے سڑکوں پرناچنے گانے اور اترانے کے
بجائے بارگاہِ إلٰہی میں شکرانے کی دو رکعت نماز اداکی،اس تمام تر
سیناریوسےترکی قیادت نے ثابت کردیا اور پوری دنیا کو واضح پیغام دیدیاکہ
اللہ تعالی کے بعد ظاہری اسباب میں بھرپورعوامی طاقت سے ٹینکوں،توپوں اور
گن شپ ہیلی کاپٹروں کا مقابلہ کیا جاتاہے، نہ کہ بشار جیسے ڈکٹیٹروں کی طرح
اپنے ہی ملک کی عوامی لہروں کو فوجی طاقتوں سے دبانا ہو تاہے، یہی فرق ہے
ایک ہر دلعزیز لیڈر اور ایک مسلط شدہ خود ساختہ حکمراں میں اور یہی فرق ہے
ایک با شعور قوم اور بے شعور اقوام میں۔
انقلاب کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انقلابی جتھے نےعوام میں اردگان کی
مقبولیت اور ترکیوں کے فی زمانہ باشعور ہونے کا غلط اندازہ لگایا،ورنہ
پارلیمنٹ،صدارتی محل،ایئر پورٹس سمیت میڈیاپر تو وہ آگئے تھے اور ایمرجنسی
کے نفاذ کا اعلان بھی کر چکے تھے،طیب اردگان میں بشری نقائص کے باوجود
انہوں نے جدید ترکی کی بنیاد رکھی ہے،کمال اتاترک کے بعد وہ ملک کے سب سے
مقبول ترین لیڈر ہیں،درحقیقت ان کی مقبولیت ہی نے انقلاب پسپا کیا ہے،کچھ
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جتھا چھوٹا اور ناتجربہ کار تھا،لیکن ہماری
سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے،کیونکہ انقلاب کے وقت جو کچھ اور جتنا کچھ
کیاجانا چاہیئے ،وہ سب کچھ وہ کر گئےتھے،حتی کہ بین الاقوامی طاقتور ملکوں
کو بھی اپنا پیغام سینڈ کرچکے تھے،لیکن جیسے ہی اردگان موبائل فون پر آئے
اور دوٹوک الفاظ میں انہیں للکارنے لگے،اُدہر جہاں لوگ قیادت کی باڈی
لینگویج سے انقلاب کی مقاومت وممانعت کا اندازہ کر گئے،وہیں پر انقلابیوں
کے غبارے سے ہوا نکلنے لگی،حالات نے ابھی کچھ ہی دیر جو پلٹا کھایاتھا،اب
ایک اور پلٹا کھایا اور ماحول یکایک اردگان کے حق میں بدلنے لگا اور ترک
قوم قربانی دے کردنیاکے مختلف ممالک واقوام کویہ پیغام دینے لگے کہ قیادت
اور عوام کا رشتہ مضبوط ہو تو کنواں کھودنے والے خود ہی اس میں گر جاتے ہیں۔
پاکستان اور ترکی میں کئی وجوہ سے قریب تر مشابہت ہے،ترکی کی طرح پاکستان
کوبھی ماضی میں اس طرح کے انقلابات کا سامنا رہاہے،جس سے ملک کا نقصان ہی
ہوا ہوگا،لیکن موجودہ دور کے مانند یہاں کےسیاستداں ہی ہمیشہ سے اس کے
اسباب بہم پہنچاتے رہے ہیں اور آج بھی ان میں سے بیشتر اپنے کرتوتوں سےباز
نہیں آتے،فوجی حکومتوں اور مارشلاؤوں کی حمایت کسی کو زیب نہیں دیتا،مگر
یہاں کے سیاستداں کبھی بھی سدھرنے کا نام نہیں لیتے،اپنی اصلاح پر کسی طرح
آمادہ نہیں ہوتے،عوام اور خواص میں بُعد المشرقین کی خلیج ہے، لہذا ہم
نہیں سمجھتے کہ اقربا پروری،کرپشن اور لوٹ مار کے اس عذاب میں شاید ہی کوئی
ان کی حمایت میں ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر اپنی جان پر کھیل جائے،البتہ
امیدکی ایک کرن یہ ہے کہ ترکی میں اس ناکام انقلاب کے بعد پاکستانی حکومت
میں حوصلہ اور کچھ جان سی آگئی ہے،بہر حال خوش فہمیوں کے بجائے حقائق کو
مد نظر رکھاجائے ،تو زیادہ بہتر ہوگا۔
|
|