ترکی: دشمن ممالک کی سرپرستی میں فوجی بغاوت
(عابد محمود عزام, Karachi)
ترکی کے غیور اور بہادر عوام اور فوج کے
ایک گروپ نے عالم اسلام کے مرد مجاہد رجب طیب اردوان کی صرف ایک کال پر
امریکا و یورپ کی بغاوت کو نیست و نابود کر کے یہ ثابت کردیا کہ اگر حکمران
غیرت مند، جرات مند، باصلاحیت، پراعتماد، اسلام اور انسانیت سے سچی محبت
کرنے والا ہو تو اسکے صرف ایک اشارے پر لاکھوں لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھے
حق کا ساتھ دینے کو میدان میں اتر جایا کرتے ہیں اور دشمنوں کی منافقانہ
پالیسیاں بھاڑے کے چند ٹٹوؤں کے بل بوتے پر کامیاب نہیں ہواکرتیں، بلکہ
دشمنوں کی تمام تر سازشیں اور منافقتیں مکڑی کا جالا ثابت ہوا کرتی ہیں۔
خدا نے مغرب کے زرخرید غلاموں کو ذلیل و رسوا کردیا. ترک عوام نے فوجی
بغاوت کو اپنے پاؤں تلے روندنے کے بعد سڑکوں پر شکرانے کے نوافل ادا کیے۔
مرد مجاہد طیب اردوان نے اتاترک ائیرپورٹ پر واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ
باغی عناصر امریکا سے احکامات لیتے رہے اور اب ضروری ہوگیا ہے کہ فوج میں
بڑے پیمانے میں صفائی کا آغاز کیا جائے۔ ترک صدر کا یہ کہنا بالکل بجا
ہے،کیونکہ امریکا و دیگر مسلم دشمن طاقتیں روز اول سے مختلف دہشتگرد
تنظیموں کو پال پوس کر عالم اسلام کے سکون کو غارت کرنے میں مشغول ہیں۔ طیب
اردوان کی پرحکمت پالیسی سے ترکی ابھی تک محفوظ تھا، لیکن دشمن طاقتوں نے
فتح اﷲ گولن ایسے لوگوں کو اقتدار کا لالچ دے کر ترکی کے امن کو بھی
ملیامیٹ کرنے کی بھرپور سعی لاحاصل کی ہیہ اگرچہ دشمن اپنے مقصد میں کسی حد
تک کامیاب ہوا ہے، لیکن الحمدﷲ مجموعی طور پر ترکی محفوظ ہے۔ چند زرخرید
غلاموں کے ذریعے عالم اسلام کی امیدوں کے مرکز اور عالم کفر کی آنکھوں کے
کانٹا ترکی کو شام و عراق کی طرح بدامنی کا مرکز بنانے کے منصوبہ بری طرح
ناکام ہوگیا، لیکن شکست خوردہ دشمن ابھی بھی ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ اس بات
کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ترک میں اسلام پسندوں اور صدر طیب
اردوان کے خلاف باغی فوج کے دھڑے کی پشت پر امریکا و مغرب کھڑا ہے، جس نے
فتح اﷲ گولن کے ذریعیے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہی ہے۔ امریکا سمیت
مغربی قوتیں اسرائیل کی تائید و حمایت میں کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ پوری دنیا
میں جمہوریت کے فروغ کے دعویدار امریکی اور مغربی حکمراں مسلم ملکوں میں
مختلف حیلوں، بہانوں سے لوگوں کو اپنے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب حکومت کے مقابلے میں رضا شاہ پہلوی کی
بادشاہت کی حمایت سے لے کر مصر میں صدر سیسی اور ترکی میں طیب اردوان کے
خلاف بغاوت کا منصوبہ بنانے تک اس حقیقت کی بہت سی ناقابل تردید مثالیں
موجود ہیں۔ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے پارلیمنٹ میں 80 فی صد
نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اس کے باوجود مغربی قوتوں نے اس کے مقابلے
میں فوجی آمریت سے تعاون کیا۔ فلسطین میں حماس کی دو تہائی نشستوں پر
کامیابی کے باوجود اس کی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں
نے ہر ممکن ہتھکنڈا استعمال کیا۔ پاکستان میں 2002کے انتخابات میں دینی
اتحاد کی پے درپے کامیابیوں پر امریکا نے کہا تھا کہ اگر نتائج ان کے لیے
سازگار نہ ہوئے تو ان کے پاس الجزائر آپشن موجود ہے۔
اسی طرح افغانستان میں میں روس کو شکست دینے کے لیے امریکا نے طالبان اور
القاعدہ کی کھل کر حمایت کی لیکن جب اپنا مقصد پورا ہو چکا اور یہ محسوس
کیا کہ طالبان اور القاعدہ ہمارے حکم پر عمل نہیں کرینگے تو پھر یہی طالبان
اور القاعدہ دہشت گرد ٹہرے۔ مصر صدر مرسی کی ایک منتخب جمہوری حکومت کے
مقابلے میں فوجی آمریت کی امریکا نے نہ صرف کھل کر حمایت کی بلکہ چار ہزار
بے گناہلوگوں کے قاتل مصر کے غنڈے سیسی کو ہر سطح پر ہلہ شیری بھی دی۔ مشرق
وسطی میں آنیوالے انقلابات کا زمانہ تو کوئی بہت پرانا نہیں ہے۔ جب وہاں کے
عوام نے اپنے آمر بادشاہوں کے خلاف اعلان بغاوت کیا تو امریکا نے اپنے مفاد
جمہوریت کے فروغ کے لیے انھیں اسلحہ سمیت ہر قسم کا تعاون فراہم کیا لیکن
جب وہاں اس کی مرضی کے لوگ آگے نہ آ سکے تو ان کے خلاف مختلف ہتھکنڈے
استعمال کرنا شروع کر دیے۔ اسی قسم کا معاملہ مصر میں اخوان کے ساتھ بھی
ہوا ہے، انقلاب کے دنوں میں تو امریکا نے اخوان کی بھرپور حمایت کی لیکن جب
اخوان نے کھل کر مصر میں اسلام کے نفاذ کی بات کی تو امریکا نے مختلف
ہتھکنڈوں سے ان کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کر دیے.
امریکا کی دوغلی اور منافقانہ پالیسی کے بعد یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ
امریکا و یورپ کو اسلام پسند کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہیں اور وہ
مسلم ممالک میں دہشتگردی کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ مختلف مسلم ممالک میں
پے در پے اسلام پسندوں کی منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے سے اسلامی ممالک میں
بہت سے اسلام پسندوں کا جمہوریت سے اعتماد اٹھنا ایک فطری امر ہے، اس کے
نتیجے میں اسلامی ممالک کی اسلامی جماعتوں کے کارکنان باآسانی جہادیوں کے
ساتھ مسلح جدوجہد میں شریک ہوسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہادی عناصر روزاول سے
اسلام پسندوں کو یہ کہہ کر برانگیختہ کرتے آئے ہیں کہ جمہوریت کے ذریعے
اسلامی حکومت کا قیام ممکن نہیں ہے، کیونکہ اسلام دشمن عناصر کبھی بھی
اسلام پسندوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اسلامی حکومت کا
قیام مسلح جدوجہد سے ہی ہوسکتا ہے، لیکن عالم اسلام کی تحریکیں و جماعتیں
اپنے مقصد کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد سے دامن بچاتی رہی ہیں۔ ان کا مؤقف
ہمیشہ یہی رہاہے کہ جب پرامن راستہ موجود ہے تو مسلح جدوجہد اور تشدد کا
راستہ کیوں اختیار کریں؟
دنیا جانتی ہے کہ القاعدہ کے بہت سے جنگجوؤں نے جمہوری نظام سے مایوس ہوکر
اپنے مقصد کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ اخوان بھی
سیاسی جدوجہد کے ذریعے مصر میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں تھی لیکن
جب جمال عبدالناصر کے دور میں اخوان پر پابندی لگائی گئی تو اس پابندی نے
بہت سے پرامن اخوانیوں کو مصر میں حکومت کی تبدیلی کے لیے سیاسی جدوجہد کی
بجائے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور بہت سے اخوانی
پرتشدد القاعدہ کی شکل میں سامنے آئے، لیکن اخوان نے جمہوری طریقے سے اپنی
سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ اخوان نے کئی بار انتخابی عمل کا حصہ بننے کی کوشش
کی، حکمرانوں نے مختلف حیلے بہانوں سے اخوان کو انتخابی عمل سے دور رکھا،
لیکن جب انتخابات کے نتیجے میں اخوان کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے
صدر منتخب ہوگئے لیکن صرف ایک سال کے بعد ہی فوجی آمر نے ان کی منتخب
جمہوری حکومت کو ملیامیٹ کردیا۔ کہیں بھی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ فوجی
بغاوت کے ذریعے الٹ دیا جاتا ہے تو اس کی مذمت کی جاتی ہے لیکن جب اسلام
پسند حکومت پر فوجی قابض ہوتے ہیں تو اسے اندرونی معاملہ قرار دیا جاتا ہے،
بلکہ باغی فوج کی حمایت کی جاتی ہے۔ حقیقت میں معاملہ جمہوریت اور آمریت کا
نہیں بلکہ اسلام پسندون کا ہے۔ اسلام پسند پاکستان، ترکی، سوڈان، لیبیا،
صومالیہ، تیونس، الجزائر، یمن، کویت، عراق، اردن، شام، بحرین، موریطانیہ
اور انڈونیشیا سمیت کئی ممالک میں جمہوری طریقے سے حکومت قائم کرنا چاہتے
ہیں، لیکن امریکا و یورپ زبردستی انہیں اس پرامن راستے سے ہٹاکر اسلحہ
تھمانا چاہتے ہیں تاکہ عالم اسلام بدامنی کی آگ میں جلتا رہے۔ |
|