اے آر قیصر
19جولائی 1947کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے کنونشن
منعقد کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد پاس کی، جس میں کہا گیا
مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ جغرافیائی حالات،
مجموعی آبادی کی 80 فیصد مسلم اکثریت، پنجاب کے اہم دریاں کی ریاست میں
گزرگاہیں، زبان، ثقافتی، نسلی اور معاشی تعلقات اور ریاست کی سرحدوں کا
پاکستان سے ملحق ہونا ایسے حقائق اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ ریاست
جموں و کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔ اس قرارداد کا اعلان ہوتے ہی
کانگریس متحرک ہو گئی، پولیس اور فوج میں تبدیلیوں کے علاوہ آر ایس ایس اور
ہندو مہا سبھا کے جتھوں کو ریاست میں بلوا لیا گیا۔ ان تمام انتظامات کے
باوجود 14 اگست کو جب پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر
ابھرا تو پوری ریاست پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ جب کشمیریوں
کی مدد کیلئے رضاکار کشمیر میں داخل ہوئے تو یہ بھارت کی حکومت ہی تھی جس
نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھایا اور سلامتی کونسل نے اس تنازع کے حل
کیلئے قراردادیں پاس کیں۔ سلامتی کونسل میں کشمیری عوام کو یہ حق تفویض کیا
گیا کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں۔
بہر کیف یہ مسئلہ آج بھی متنازعہ ہے اور بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کو
کشمیری عوام کی تائید حاصل نہیں۔
منگل کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری 19جولائی یوم الحاقِ
پاکستان ایسے موقع پر منائیں گے جب قاتل بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں
نہتے کشمیریوں کے قتل مسلسل کو جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ ظلم کی داستانیں
باہر نہ نکل سکیں اس مقصد کے لئے تمام مواصلاتی رابطے اور فیس بک ، سکائپ
سمیت سوشل میڈیا کو بلاک کردیا ہے۔
متحدہ مسلم کانفرنس کی کشمیری قیادت نے 19جولائی 1947 ء کو پاکستان سے
الحاق کی متفقہ قرارداد منظور کی تھی ۔19 جولائی1947 کو کشمیر کے عوامی
نمائندوں نے آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس میں پاکستان سے الحاق کی
متفقہ قرارداد منظور کی تھی، جس کی یاد میں ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے۔اس
قرار داد میں جموں کشمیر اور اس کے عوام کی امنگوں، جغرافیائی اہمیت اور
مذہب سمیت ایک جیسے ثقافتی ورثے کے باعث پاکستان کے ساتھ الحاق کو ناگزیر
قرار دیتے ہوئے کشمیرکا مستقبل پاکستان سے لازم و ملزوم قرار دیا گیا
تھا۔اسی قرار داد کی بنیاد پر برطانوی حکمرانوں نے برصغیر کی تقسیم فارمولے
کے تحت یہ آزادی دی تھی کہ کشمیری جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں۔کشمیری
قیادت اور عوام نے عیدالفطر کے پہلے روز بھی پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار
اس طرح کیا کہ بھارت مخالف مظاہروں میں پاکستانی پرچم لہرائے اور پاکستان
زندہ باد کے نعرے لگائے ، یہ مظاہرے سری نگر اسلام آباد اور کشتواڑ سمیت
مختلف شہروں میں کیے جائیں گے ،قابض انتظامیہ نے پہلے تمام حریت قیادت کو
گھرو ں میں نظربند کررکھا ہے۔
کنٹرول لائن کے آرپار کشمیری اور پاکستانی بھی یوم یکجہتی کشمیر منا کر
جدوجہد آزادی کی تجدید کرتے ہیں اور پیغام دیتے ہیں کہ کشمیری تنہا نہیں یک
جان ہیں، شانہ بشانہ ہیں اور صف بصف ہیں اور جب تک سارا کشمیر آزاد ہو کر
پاکستان نہیں بن جاتا من حیث القوم ہماری یہ مقدس جدوجہد جاری رہے گی۔ ہمیں
ادراک ہے کہ عملی یکجہتی جتنی آج ہے اتنی کبھی نہیں تھی۔
کشمیر کا پاکستان کے ساتھ اسلام کا رشتہ لم یزل ہے۔ تقسیم ہند کے اصول کے
مطابق ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا ناقابل تقسیم جزولائینفیک ہے۔ تاریخی،
جغرافیائی اور اکثریتی لحاظ سے بھی پاکستان کا قدرتی حصہ ہے۔ آج پاکستان کی
قومی زبان اُردو ساری ریاست کے سارے گھروں کی زبان ہے اور زندگی کے ہر شعبے
میں رائج ہے۔ریاست کے طول و ارض میں گوجری، پہاڑی، ڈوگری اور کشمیری بولنے
والے سب خاندانوں میں اُردو بولی جاتی ہے جو معاشرے میں کشمیر کے مہذب،
معزز اور تعلیم یافتہ گھرانوں کا فیش ہے کشمیریوں کی قومی زبان ہے۔
خاکسار تحریک کے بانی رہنماء علامہ عنایت اﷲ خان المشرقی کا خطاب کہ
’’کشمیر پاکستان کی شہر رگ ہے‘‘ قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان کہ
KASHMIR IS THE LIFE LINE OF PAKISTAN فرزند کشمیر حکیم الامت علامہ محمد
اقبال کی فکر کہ پاکستان کی زراعت کا قدرتی انحصار کشمیر کے پانیوں پر ہے۔
اس لئے کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ |