مفتی محمود - بحیثیت قومی رہنا
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
’’مفتی محمود اکیڈمی‘‘ کے زیر انتظام ’’پرل کانٹی نینٹل ہوٹل‘‘ کراچی میں ’’مفتی محمود- بحیثیت قومی راہنما‘‘ کے عنوان سے ۲۵ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو ایک عظیم الشان سیمینار ہوا، اس سیمینار کے مقالات وخطبات گرامی قدر جناب محمد فاروق قریشی صاحب نے جمع کرکے مذکورہ بالا عنوان ہی سے ایک دیدہ زیب کتاب کی صورت میں شائع کردیا، جس کی تقریب رونمائی ۱۵ نومبر ۲۰۰۰ء کو ’’صائمہ ٹریڈ ٹاور‘‘ بالمقابل جنگ پریس کراچی میں منعقد ہوئی، جس میں بطور خاص مولانا سعید احمد جلالپوری صاحب اور احقر کو مذکورہ کتاب پر تحریری تبصرہ کے لئے مدعو کیا گیا تھا، اس مناسبت سے احقر نے عرب مبصرین کے طرز پر جو مقالہ مفصَّل انداز میں تیار کیا، وہ پیشِ خدمت ہے۔ |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
انسان کائنات کا بظاہر ایک کوتاہ لیکن درحقیقت ایک عظیم عنصر ہے۔ کائنات
میں انسان کے علاوہ بظاہر بڑے بڑے عناصر موجود ہیں، جیسے زمین آسمان، شمس،
قمر، جبال، بیابان وغیرہ وغیرہ۔ ان کی عظمت بھی بلاریب ہے، مگر انسان سے
اگر تقابل میں انہیں رکھا جائے، تو یہ سب چھوٹے نظر آتے ہیں، اس بات کی
وضاحت کے لئے میں اس آیت کا سہارا لیتا ہوں، جس میں اﷲ رب العزتِ والجلال
نے سماوات وارض اور جبال پر اپنی امانتِ توحید کی پیش کش کا، اور ان کے خوف
وانکار کا، اور حضرت انسان کے اس امانت کو اٹھانے کا بیان فرمایا ہے، ﴿إنا
عرضنا الأمانۃ علی السماوات والأرض والجبال فأبین أن یحملنا وأشفقن منھا
وحملہا الإنسان﴾
اس آیت کریمہ میں جہاں انسان کی عظمت کی طرف اشارہ ہے، وہیں یہ بھی ہے کہ
حضرت انسان عظیم وعزیز جب ہوگا، جب وہ اس امانت کو لے کر اٹھاتا پھرے اور
جہاں کہیں اس نے اس امانت میں خیانت کی، تو آٹومیٹکلی یہ انسان اوجِ کمال
وعظمت سے قعرِ مذلت میں آرہے گا۔
لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ انسانیت کی عظمت وشہامت اس امانت کے تحمل میں ہے اور
یہ بات اظہر من الشمس فی نصف النہار ہے، کہ اگر اس معیار پر کوئی پورا اترا
ہے تو وہ حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی نفوس قدسیہ ہیں، اور اس کے
لئے ان کی زندگیاں اپنی اپنی امتوں کے لئے بطور مثال ونمونہ ، قدوۃ اور
ماڈل اور ان کی شخصیات بطور آئیڈیل قرار دی گئی تھیں، ﴿لقد کان لکم في رسول
اﷲ أسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اﷲ والیوم الآخر وذکر اﷲ کثیرا﴾
البتہ اس قافلۃ الخیر والبرکۃ کے وارثین کے زریں سلسلے کے ایک فرد مفکر
اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمہ اﷲ تعالیٰ ہیں۔ فی الوقت مجھے حضرت
مفتی صاحب نہیں بلکہ ان کی حیات طیبہ پر لکھی گئی کتاب ’’مفتی محمود ایک
قومی رہنما‘‘ پر اصل تبصرہ کرنا ہے۔ لیکن ’’مشتے از خروارے‘‘ کے مصداق حضرت
مفتی صاحب کے متعلق بھی چند اِقتباس مذکورہ کتاب ہی سے پیش کروں، تو بے
جانہ ہوگا۔
شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اﷲ آپ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’حق تعالیٰ شانہ نے اپنے اس تکوینی نظام کے ذریعہ چودھویں صدی میں ایسے
مردانِ حق باخدا کو کھڑا کیا، جن کے علم وفضل، صلاح وتقویٰ، زہد وقناعت،
دعوت وعزیمت اور ہمت وشجاعت نے سلف صالحین کا نمونہ پیش کیا، اور جن کے
ذریعہ اسلام کی حجت قائم ہوئی۔
چودھویں صدی کے اس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی مولانا مفتی محمود نور اﷲ مرقدہ
کی ذات والا صفات تھی، حق تعالیٰ شانہ کے لطف و کرم اور اس کی قدرت کاملہ
کا تماشہ دیکھو ، کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک غیر معروف قصبہ سے ایک فرد کو
کھینچتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے عالم، حافظ، قاری، فقیر، مفتی، محدث،
متکلم اور پھر وزیر اعلیٰ سے لے کر قائد حزب اختلاف تک بنادیتے ہیں۔
حضرت مفتی محمود رحمۃ اﷲ علیہ دنیا سے اس وقت رخصت ہوئے، جب اہل علم ان کے
علم وفقہ کے محتاج تھے، اہل دانش کو ان کے فہم وتدبر کی احتیاج تھی، اور
اہل سیاست ان کی قیادت وامامت کے حاجت مند تھے۔
ان کی وفات بیک وقت علم ودانش، فقہ وحدیث، سیادت وقیادت، حلم وتدبر، شجاعت
وبسالت اور شہامت وزعامت کا ماتم ہے، ان کی تنہا ذات سے دین اور خیر کے
اتنے شعبے چل رہے تھے کہ ایک جماعت بھی ان کے خلا کو پر کرنے سے قاصر رہے
گی‘‘۔ص:۷،۸۔
سیر گلشن بھی نہ کرپائے کہ آپہنچی اجل
آہ…… کتنی مختصر تھی یہ بھارِ زندگی
مشہور دانشور ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہانپوری آپ کے متعلق یوں رقمطراز ہیں:
’’مولانا مفتی محمود کانام زبان پر آتا ہے، تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی ایک
شخص کا ذکر نہیں کررہے ہیں، بلکہ فضائل ومحاسنِ شخصی کی جامع اور علوم
وفنون شتیّٰ کی ماہر مختلف شخصیات کے اذکار سے ہم لطف اندوز ہورہے ہیں،
ہمارے سامنے اخلاق وسیرت کے رنگارنگ پھولوں کا ایک گلستان سجا ہوا ہے، جس
سے پھیلنے والی خوشبو سے ہمارا دماغ معطر ہورہا ہے، اور قوم وملت، اور دین
ووطن کی خدمات کے مختلف سبزہ زار دور تک ہماری نظروں کے سامنے پھیلے ہوئے
ہیں، جن کے نظارۂ جمال سے ہماری نگاہیں سیر ہورہی ہیں۔ لیکن یہ ہمارا محض
احساس ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک ہی جامع جہات، جامع حیثیات اور
مجموعۂ محاسن ہوتا ہے اور اس ایک ہی شخص (حضرت مولانا مفتی محمود) کی زندگی
کے مختلف پہلو ہوتے ہیں، جس کے محاسن کی چکاچوند سے حیرت زدہ ہوکر ہم کیف
واحساس کے عالم میں پہنچ جاتے ہیں‘‘۔
(ص: ۶۵)
حضرت مفتی محمود صاحب رحمہ اﷲ کے متعلق اتنی خوبصورت اور دلنشیں منظر کشی
دیکھ کر مندرجہ ذیل شعر دیر تک ورد زباں رہا
خوشبو تیرے انفاس کی آتی ہی رہے گی
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا
گذشتہ دونوں اقتباس حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کے حوالے سے کسی اور کے تبصرے
تھے، جو آپ نے ملاحظہ فرمائے، آپ نے اگر مفتی صاحب پر خود تبصرہ کرنا ہو،
تو ان کو ان کے الفاظ میں دیکھئے، جو آپ کی خدمت میں عظیم طالب علم رہنما
جناب سید اکبر شاہ ہاشمی صاحب کے مقالے (جو شاملِ کتاب ہے) کے مندرجات سے
پیش کئے جاتے ہیں: حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں:
’’ہم ایک ایسے نظام حیات کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں جو عہدِ حاضر کی تمام
غیر اسلامی باتوں سے نجات دے سکے، اور رفتہ رفتہ خلافت راشدہ کے دور کے
نظام کی جھلک پیدا کردے، جس طرح عہدِ رسالت اور عہدِ خلافت راشدہ میں
مسلمانوں کے درمیان کوئی امتیاز وتفاوت قائم نہیں تھا، حاکم ومحکوم، راعی
اور رعایا، خلیفہ اور عام مسلمان ایک ہی جیسی زندگی بسر کرتے تھے، اور ایک
دوسرے کے معاون اور بھائی بن گئے تھے، ٹھیک ٹھیک وہی صورتِ حال پھر
مسلمانوں میں پیدا ہوجائے، جسے قرآن حکیم میں ان لفظوں کے ساتھ تعبیر کیا
گیا ہے: ﴿فأصبحتم بنعمتہ إخواناً﴾ یعنی اﷲ تعالیٰ کی مہربانی سے تم سب
بھائی بھائی بن گئے۔
ہم پاکستان کے غریب عوام، کسانوں، مزدوروں، طالب علموں اور تمام آدمیوں کو
اس سطح پر لانا چاہتے ہیں، جہاں پاکستان کے تمام مسلمان عملاً بھائی بھائی
نظر آسکیں، اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکے گا، جب بے لاگ طور پر ملک میں قرآن
وسنت کے احکام نافذ کردئیے جائیں، خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
اور خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم کے عہد کا عملی نمونہ اختیار کرلیا جائے،
اور ملک سے سیاسی، اقتصادی اور معاشی ظلم وجبر کاخاتمہ کردیاجائے ‘‘۔
آپ اس قدر سادھا اور پر مغز الفاظ میں حضرت مفتی صاحب کے پروگرام کو ایک
جانب ملاحظہ فرمائیں ،اور دوسری جانب بطور مدرسہ کے ایک بوریہ نشین کے ان
کی شخصیت پر نظر ڈالیں۔ تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مفتی صاحب کی شخصیت میں
کیا غضب کی جامعیت تھی۔
برخود نظر کشا زتہی دامنی مرنج
درسینۂ تو ماہے تمامے نہادہ اند
حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کو اﷲ جل شانہ نے وہ محبوبیت عطا فرمائی تھی کہ جس
کا تصور بھی موجودہ زمانے کے قائدین بطور خاص سیاسی زعماء کے متعلق محال
نہیں تو قریب المحال ضرور ہے۔ اسی محبت ولگاؤ کی بناء پر عرصے سے حضرت مفتی
صاحب پر کام کرنے کی ضرورت کو آپ کے سیاسی وعلمی وارثین بہت شدت سے محسوس
کررہے تھے، مگر مفتی صاحب کی شخصیت کی ہمہ جہتی کی وجہ سے یہ کام ہر کسی کے
بس کا نہیں تھا۔ کہ اﷲ جل شانہ نے اس کا حل ہمارے محترم دوست اور ممتاز
صحافی جناب فاروق قریشی صاحب جیسوں کے دل میں ’’مفتی محمود اکیڈمی‘‘ کی
صورت میں القاء فرمایا، جناب قریشی صاحب اور ان کے صغار وکبار تمام معاون
کار شکریہ کے مستحق ہیں، کہ انہوں نے ہم سب کی طرف سے یہ فرض کفایہ ادا
کرنے کی غرض سے کمر کس لی ہے۔
’’مفتی محمود اکیڈمی‘‘ کی بنیادی اساس پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ابوسلمان
شاہ جہاں پوری صاحب یوں رقمطراز ہیں:
’’حضراتِ گرامی قدر، یہ بات آپ سے پوشیدہ نہیں ہوسکتی کہ ’’مفتی محمود
اکیڈمی‘‘ کے تمام کارکنان دینی اور سماجی معاملات میں ایک خاص نقطۂ نظر اور
ذوق رکھتے ہیں، وہ ایک خاص مکتبۂ فکر سے وابستہ ہیں، حضرت مفتی صاحب سے
اخلاص وعقیدت کے رشتے میں منسلک ہیں، اور بعض حضرات نے مفتی صاحب کی صحبت
سے فیض اٹھایا ہے، اور اس کے لئے انہوں نے افکار کی تالیف وتدوین اور
خیالات کے اظہار وبیان میں حضرت مفتی محمود صاحب مرحوم ومغفور کا حوالہ
رکھا ہے، ہمارے خیال میں یہ نہایت اہم حوالہ ہے‘‘۔
تھوڑا سا آگے چل کر مزید فرماتے ہیں:
’’مفتی محمود اکیڈمی کے بزرگوں اور خردوں نے طے کیا کہ اکیڈمی ایک علمی
وتحقیقی ادارہ ہوگی، اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہوگا، اس کا پلیٹ فارم
وقت کی سیاست، سیاسی مسائل اور سیاسی تحریکات کے لئے استعمال نہیں ہوگا،
سیاست کے لئے جمعیت علماء اسلام کا پلیٹ فارم ہے‘‘۔ ص:۳۳، ۳۵۔
محترم محمد فاروق قریشی صاحب نے اکیڈمی کے اغراض ومقاصد کو مفصل انداز میں
بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ اس طرح نکالا جاسکتا ہے:
’’حضرت مفتی صاحب کی شخصیت اور افکار ونظریات کے ساتھ ساتھ آپ کے کارناموں
کو زیر بحث لانا، نیز عصر حاضر کے پیش آمدہ افکار ونظریات اور حالات واحوال
کی اسی تناظر میں ریسرچ کرنا‘‘ص:۱۵۔
اس پر مستزاد میں ایک اور اہم بات کی طرف یہاں اشارہ ضروری سمجھوں گا ، جس
کا قریشی صاحب نے تذکرہ نہیں فرمایا اور وہ یہ کہ ’’مفتی محمود اکیڈمی‘‘ کی
جہاں مندرجہ بالا اغراض ومقاصد کے لئے بنیاد رکھی گئی ہے، وہاں یہ اکیڈمی
ان اغراض ومقاصد کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب کے نام پر ایک مثالی اور
منفرد یادگار ادارہ بھی ہوگا، کہ جس طرح حضرت مفتی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ بظاہر
ایک ہیکل جسمانی میں ایک ہی شخصیت کے حامل نظر آرہے تھے لیکن درحقیقت وہ
افکار ونظریات کے حوالے سے ایک ہی ہیکل میں مجموعۃ الأفکار والشخصیات تھے،
اسی طرح یہ اکیڈمی بظاہر ایک ہی ادارہ ہے مگر حقیقت میں انشاء اﷲ تعالیٰ یہ
ملتقی الأفکار والشخصیات ہوگی۔
بہرحال بات ہورہی تھی اکیڈمی کے حوالے سے، مگر کیا کریں، حضرت مفتی صاحب کا
تذکرہ ہوجائے تو بات میں طول بے ساختہ آہی جاتاہے۔
آمدم برسرِمطلب، فی الوقت مقالات کے جس مجموعے پر احقر کو تبصرہ کے لئے کہا
گیا ہے ، یہ مجموعہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کے افکار وخیالات اور آپ کے
سیاسی بصیرت وکارناموں کے متعلق (مفتی محمود اکیڈمی) کی اولین کاوش ہے،
ہمارے دوست محترم قریشی صاحب اور ان کے رفقاء کار شکریہ کے مستحق ہیں کہ
انہوں نے حضرت مفتی صاحب کے حوالے سے ۲۵ اکتوبر ۱۹۹۸ء بروز اتوار کو پرل
کانٹی نینٹل ہوٹل میں ایک عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد کیا، اور پھر اس
کانفرنس میں پڑھے گئے مقالات اور کی گئیں تقاریر کو یکجا کرکے ایک خوبصورت
اور دیدہ زیب کتاب کی شکل میں آپ حضرات کو بطور سوغات کے پیش کیا۔
متذکرہ بالا مجموعۂ مقالات وخطبات تین حصوں میں منقسم ہے:
تقاریظ وافتتاحیات
مقالات
تقاریر
تقاریظ وافتتاحیات
۱-مذکورہ بالا عنوان کے تحت سب سے پہلی تقریظ شہید اسلام حضرت مولانا محمد
یوسف لدھیانوی رحمہ اﷲ کی ہے، جس میں حضرت شہید نے حضرت مفتی صاحب کی شخصیت
اور ان پر کام کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالنے کے بعد ’’مفتی محمود اکیڈمی‘‘
اور اس کی اس اولین تخلیق کی تحسین فرمائی ہے۔ نیز اپنی مستجاب دعاؤں سے
بھی اکیڈمی کے منتظمین کو نوازا ہے۔
۲-دوسری تقریظ بطور دیباچہ کے شامل کتاب ہے۔ وہ فقیہ الملۃ حضرت ڈاکٹر مفتی
نظام الدین شامزئی دامت برکاتہم کی ہے۔ اس میں حضرت مفتی صاحب زید مجدہم نے
اکیڈمی کے پس منظر پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ پی سی ہوٹل میں ’’مفتی
محمود بحیثیت ایک قومی رہنما‘‘ کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس کی ضرورت واہمیت
کو بھی اجاگر کیا، کانفرنس کا مختصر خاکہ کھینچتے ہوئے اس میں پڑھے گئے،
مقالات اور القاء کی گئیں تقاریر وخطبات کی تدوین کے بعد حضرت شامزئی صاحب
نے اپنی دعاؤں کے ساتھ اپنی بات ختم کی ہے۔
۳- تیسرے نمبر پر گرامی قدر جناب قریشی صاحب نے اپنے تمہیدی مضمون (برائے
ترتیب وتدوین کتاب) میں ’’مفتی محمود اکیڈمی‘‘ کے اغراض ومقاصد بیان کرنے
کے بعد پی سی ہوٹل کانفرنس کی مفصل رپورٹ اور پھر آگے چل کر کانفرنس کے
مقالات و خطبات کی ترتیب وتبویب وغیرہ اور کتاب کی اشاعت میں تاخیر پر بحث
کی ہے۔ آخر میں جاکر حضرت مفتی صاحب کی شخصیت وکردار پر آج تک جتنا کام ہوا
ہے، اس کا ایک خاکہ بھی ذکر کیا ہے۔
۴- ان ابتدائیات میں چوتھے نمبر پر جناب علیم ناصری صاحب کی نظم ہے، جو
انہوں نے حضرت مفتی صاحب کو صوبۂ سرحد کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے پر تہنئتی
پیغام کے طور پر پیش کی، جس کامطلع ہے۔ (مفتی محمود!اے اسلام کے بطل جلیل)
۵-تقاریظ وافتتاحیات میں جناب ڈاکٹر شاہ جہاں پوری صاحب کا وہ خطبۂ صدارت
بھی شامل کرلیا گیا ہے، جس میں انہوں نے کانفرنس کے شرکاء کو مخاطب کیا، اس
افتتاحی خطبے میں بحیثیت چئیرمین اکیڈمی ڈاکٹر صاحب نے اکیڈمی کے اہداف کو
بڑے سلجھے ہوئے انداز میں زیر بحث لایا، نیز اس میں شرکائے کانفرنس کے لئے
خیر مقدمی کلمات کے ساتھ کانفرنس کے مدعیٰ ومقصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
۶-یہ حصۂ افتتاحیات مولانا غلام قادر پنہور کے مختصر سے پیغام پر جاکر
اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔
مقالات
حصۂ دوم اکثر وبیشتر ان مقالات ومضامین پر ہے، جو پی سی ہوٹل کے ’’مفتی
محمود بحیثیت قومی رہنما‘‘ سیمینار میں پڑھے گئے:
ان میں خشتِ اول مولانا عبدالحکیم اکبری صاحب کا مقالہ بعنوان ’’مولانا
مفتی محمود- مختصر سوانح حیات‘‘ ہے، جس کی تفصیل اپنے اجمالی عنوان سے واضح
ہے۔
دوسرا مقالہ ڈاکٹر شاہ جہانپوری صاحب کا ہے ’’مفتی محمود-سیاسی پس منظر‘‘
اس میں حضرت ڈاکٹر صاحب نے مفتی صاحب کے خاندانی، تعلیمی، عصری اور تاریخی
پس منظر کو لے کر حضرت مفتی صاحب کے سیاسی عظمت وپختگی کو دلنشین انداز میں
ثابت کیا ہے، لیکن میں بصد ادب یہ عرض کروں گاکہ حضرت ڈاکٹر صاحب نے ص:۶۸
اور پھر ص۷۶ پر جن حضرات پر اشارۃ چوٹیں لگائی ہیں، ان کو اس سے اس لئے
گریز کرنا چاہیے تھا کہ آج کا دور ان مباحث کا متحمل نہیں اولاً، اور
ثانیاً یہ کہنا کہ مفتی صاحب ان میں سے ایک ہی فریق کے پیروکار تھے، یہ بھی
تفصیل طلب مسئلہ ہے۔
’’مولانا مفتی محمود-کچھ یادیں‘‘ یہ محترم ڈاکٹر محمد علی صدیقی صاحب کا
مقالہ ہے، جوا پنے عنوان سے اپنے مندرجات کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اس مقالے
میں ڈاکٹر صدیقی صاحب نے ایک خطرناک موضوع سرسید احمد خان اور سید جمال
الدین افغانی کے درمیان محاکمے کا چھیڑ دیا ہے، جس پر میں ڈاکٹر شامزئی
صاحب مدظلہم اور محترم فاروق قریشی صاحب سے گزارش کروں گا کہ اس پر مبنی
برانصاف حاشیہ لگایاجائے۔ حضرت افغانی صاحب کے حوالے سے جامع ترین تنقیدی
کتاب مصطفی فوزی کی (دعوۃ جمال الدین الأفغاني في میزان الإسلام) ہے، جب کہ
سرسید کے حوالے سے اس قسم کی کتاب ڈاکٹر محمد البہی کی (الفکر الإسلامي
الحدیث- وصلتہ بالاستعمار الغربی) ہے، یہ دونوں کتابیں اپنے موضوع کے لحاظ
سے بڑی مفید ہیں۔
’’ایک باعمل اور مثالی حکمران‘‘ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید صاحب کا مقالہ ہے،
حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقالے میں مفتی صاحب رحمہ اﷲ کی وزارتِ علیا کے
دور کے چند اہم فیصلوں کو لے کر نہایت معقول انداز میں حضرت کی حکمراں
شخصیت کی وضاحت کی۔
’’پاسبانِ شریعت-مفتی محمود‘‘ یہ ڈاکٹر صلاح الدین ثانی کا جاندار اور
باحوالہ مقالہ ہے۔ جس میں دو جگہ انہوں نے جناب مولانا احمد خان شیرانی
خریج الأزہر الشریف کے مقالہ ’’جمعیۃ علماء الإسلام -ودورھا في إصلاح الفرد
والمجتمع، وتطبیق نظام الإسلام‘‘ کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یہ مقالہ شیرانی
صاحب نے بزبان عربی جامعہ ازہر کے کلیہ اصول الدین میں برائے حصول ڈگری آف
ماسٹر پیش کیا ہے، یہ مقالہ قریباً ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے، جس کی
ایک کاپی خالد اسحاق لائبریری میں موجود ہے۔
’’مفتی محمود اور دینی تحریک‘‘ یہ مقالہ جناب اکرام القادری صاحب نے اپنے
موضوع پر ایک مختصر اور جامع مقالے کے طور پر تیار فرمایا ہے۔
’’دورِ محمود‘‘ یہ جناب ڈاکٹر شاہ جہانپوری صاحب کا اس مجموعہ میں تیسرا
مضمون ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے مفتی صاحب اور دیگر سیاسی ومذہبی زعماء میں
موازنہ کیا ہے اور حضرت مفتی صاحب کی قیادت ورہنمائی کو محمود قرار دیا ہے۔
’’حیات محمود- ماہ وسال کے آئینہ میں‘‘ جناب فاروق قریشی صاحب نے حضرت مفتی
صاحب کی حیاتِ طیبہ تاریخ وار بیان کی ہے، اس میں وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے مفتی صاحب کے انتخاب کی طرح اگر آئندہ
ایڈیشن میں ۱۳۹۸ھ میں حضرت مفتی صاحب کا انتخاب بطور صدر وفاق کا بھی تذکرہ
ہوجائے تو میں سمجھتا ہوں یہ اس نقطے کی تکمیل ہوگی۔
۹- ’’مفتی محمود- بحیثیت ایک سیاسی رہنما‘‘ یہ مقالہ ہمارے رفیق محترم جناب
ابن الحسن عباسی کا ہے، بحیثیت مجموعی تو یہ مقالہ بہت شاندار، اس لئے بھی
ہے کہ ابن الحسن عباسی صاحب کی طرف منسوب ہے۔ جنہوں نے عنفوانِ شباب ہی میں
بڑے بڑوں سے سبقت حاصل کی ہے۔ مگر اس میں جو قاری عبدالعزیز جلالی صاحب کا
اقتباس لیا گیاہے، وہ اتنا لمبا ہے کہ اصل مضمون سے بھی طویل ہوگیا ہے۔
البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اقتباس مولانا کے حسن انتخاب پر شاہد عدل
ہے۔
۱۰- ’’مولانا مفتی محمود- ایک جامع جہات شخصیت‘‘ یہ مقالہ برادر مکرم جناب
اکبر شاہ ہاشمی صاحب کا ہے، جو لگتا ہے کہ انہوں نے بڑی عرق ریزی اور
جانفشانی سے تیار کرایا ہے۔ جس میں حضرت مفتی صاحب کے خطبات کے اقتباسات کے
ساتھ ساتھ حضرت شیخ الہند کی ایک تقریر کا اقتباس بھی ہے۔
میں بالترتیب مندرجہ ذیل مقالے ہیں: ۱-’’محمود الملۃ والدین‘‘ حکیم العصر،
شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب رحمہ اﷲ، ۲-’’دین حق کا
داعی‘‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
العالیہ، ۳-’’سفرِ آخرت‘‘ گرامی قدر جناب حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان
صاحب زید مجدہم۔
ان تینوں مقالات پر قریشی صاحب نے پیش لفظ میں جو کچھ لکھا ہے وہ یہاں میں
بعینہ نقل کرتا ہوں:
’’حضرت مفتی صاحب کی آخری مجلس یعنی ۱۴ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو جامعۃ العلوم
الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مہمان خانے میں جہاں کراچی کے علماء سے ایک
فقہی مسئلہ پر گفتگو فرماتے ہوئے (حضرت مفتی صاحب) اپنے خالق حقیقی سے
جاملے تھے، میں شریک تین مقتدر علماء: حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ،
مولانا محمد تقی عثمانی اور مفتی محمد جمیل خان صاحب کے مضامین جن میں حضرت
مفتی صاحب کے آخری لمحات بڑے خوبصورت انداز سے قلم بند کئے گئے ہیں، انہیں
بھی موضوع کی مناسبت اور ان کی افادیت کے پیش نظر اس مجموعے میں شامل کرلیا
گیا ہے‘‘۔ ص: ۱۶، ۱۷۔
ان تینوں حضرات نے اپنے اپنے مضامین میں متعلقہ عنوان کے حوالے سے حق ادا
کردیا ہے، البتہ حضرت شیخ الاسلام مولانامحمد تقی عثمانی صاحب کا مضمون
نوواردین میدانِ سیاست کے لئے کچھ زیادہ سبق آموز ہے۔
خطبات
یہ اس کتاب کا تیسرا اور آخری باب ہے۔ یہ حصہ ان خطبات وتقاریر پر مشتمل
ہے، جو پرل کانٹی نیٹنل ہوٹل میں کی گئیں۔
ان میں اولین خطاب حضرت قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم
العالیہ کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت قائد کا یہ خطاب یہاں پڑھنے سے تعلق
رکھتا ہے۔ اس کی اہمیت وافادیت ، تعمق اور گہرائی کا اندازہ وہی شخص
کرسکتاہے جس کی نسبت کچھ نہ کچھ اہل علم ودانش کے ساتھ ہو اور پھر وہ اسے
بغور مطالعہ فرمالیں۔ بطور نمونہ اس کا تھوڑا سا اقتباس پیش خدمت ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ ہم ان اکابر کی زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کے لئے
سیمینار منعقد کرتے ہیں، جلسے کرتے ہیں، کتابیں لکھتے ہیں، مقالے لکھتے
ہیں، یہ سب ان حضرات کو زندہ رکھنے کے لئے نہیں، بلکہ ان کی تعلیمات اور ان
کے کردار سے خود کو زندہ رکھنے کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں، اس کے بغیر ہم
زندہ نہیں رہ سکتے، اس کے بغیر قوم زندہ نہیں رہ سکتی، اس کے بغیر آنے والی
نسل زندہ نہیں رہ سکتی۔ آنے والی نسل کو آپ کہاں سے غذا دیں گے، کہاں سے آپ
ان کو تربیت دیں گے؟ اور یقین جانئیے کہ جب ہم اپنے اکابر کے حوالے سے کوئی
اجتماع منعقد کرتے ہیں اور ان کے کردار کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارا ضمیر
ہمیں ملامت کرتا ہے، اور ان کا کردار اور ان کی عظمت ہمیں متنبہ کرتی ہے،
کہ تمہارے اندر یہ کمزوریاں ہیں، ان کی اصلاح کرلو۔ اگر ہم ان اکابر کا
تذکرہ نہیں کریں گے، ان کے کردار کو دھرائیں گے نہیں، ان کی تعلیمات کو
بیان نہیں کریں گے، تو ہمارے اندر کی کمزوریوں کی اصلاح کون کرے گا…… حضرت
شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ سے لے کر حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ علیہ تک یہ ایک
سلسلۃ الذہب کی مختلف سنہری کڑیاں ہیں، ان میں پوری امت کے لئے ایک تعلیم
ہے، یہ ایک فلسفہ ہے، جو علمائے کرام کو خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کرتا
ہے‘‘۔ ص: ۲۰۳، ۲۰۴۔
حضرت قائد محترم نے اپنی اس تقریر کے شروعات میں حضرت مفتی صاحب کا مختصر
سوانحی خاکہ کھینچا ہے، اور پھر حضرت مفتی صاحب اور ان جیسی دیگر یکتائے
روزگار شخصیات کے سوانح پر کام کی اہمیت کو اپنے فلسفیانہ اور نہایت معقول
انداز میں پیش کیا ہے، پھر ملکی اور بین الاقوامی حالاتِ حاضرہ اور ماضیٔ
قریب کے تناظر میں حضرت مفتی صاحب کے نقش قدم پر چلنے کی مدلل اور بہت بلیغ
گفتگو فرمائی ہے۔ مقالات کے اس مجموعے میں حضرت قائد کاخطاب سب سے طویل
ترین اور سب سے بلامبالغہ موضوع ومقام کی مناسبت سے بہترین بھی ہے۔
اس حصہ کادوسر امکتوب حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم کا
ہے، جس میں حضرت ڈاکٹر صاحب نے قریباً قریباً حضرت مفتی صاحب سے اپنی
رفاقتوں اور ملاقاتوں کا تذکرہ فرمایاہے۔
تیسرا خطبہ حضرت مولانا مفتی محمد زرولی خان صاحب زید مجدہم کا ہے، جو
انہوں نے والہانہ انداز میں القاء فرمایا ہے، مولانا زر ولی خان صاحب دامت
برکاتہم نے حضرت مفتی صاحب پر بحیثیت محدث، مفسر، ادیب عربی اور حاکم کے
کلام کیا ہے۔
’’جب پاکستان پیپلز پارٹی کا پورے ملک میں طوطی بول رہا تھا، جب ذوالفقار
علی بھٹو کی مقبولیت کے مدمقابل کوئی سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کرسکتا
تھا، اور اگر جرأت کرتا تو شکست کے علاوہ اس کے مقدر میں کیا لکھا تھا؟ اس
وقت پاکستان کی تاریخ میں واحد شخصیت جو مدمقابل اور فاتح کی حیثیت سے
ابھری، وہ مولانا مفتی محمود کی شخصیت تھی‘‘۔ ص:۲۴۲۔
’’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مولانا سیاسی اعتبار سے ایک عالم دین ہونے کے
باوصف، ایک مکمل سیاسی شخصیت تھے، ان کی جڑیں عوام میں تھیں، ان کا عوام سے
بہت گہرا رابطہ تھا، آپ تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجئے، کہ بڑے بڑے دینی دانشور
ہیں، جنہوں نے عوام کے محاذ پر شکست بھی کھائی۔ مولانا مفتی محمود مرحوم
واحد شخصیت تھے جن کی جڑیں عوام کے دلوں میں تھیں، اسی لئے ان کے مقابل
پاکستان کی بہت بڑی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو نے شکست کھائی تھی‘‘۔ ص: ۲۴۶۔
مندرجہ بالا دو قطعے محترم پروفیسر این ڈی خان صاحب کی تقریر سے مأخوذ ہیں،
ان کی پوری تقریر اس قسم کے خراج عقیدت وخراج تحسین سے عبارت ہے۔ والفضل
ماشہدت بہ الأعداء․ (یہاں الأعداء سے حقیقی اعداء مراد نہیں) کے مصداق آپ
پروفیسر صاحب کی تقریر پر اسی تناظر میں ملاحظہ فرمائیے۔
حضرت حافظ عبدالقیوم نعمانی صاحب اور حضرت قاری شیر افضل خان صاحب نے بھی
مختصر مختصر انداز میں ایک دو چشم دید واقعات کی روشنی میں حضرت مفتی صاحب
مرحوم ومغفور کی شخصیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اور حضرت قاری صاحب زید مجدہم کی
تقریر پر یہ مجموعہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
رفتیم وکارہائے نمایاں گذا شتیم
ہریک ازاں بعلم وأدب یادگارِ ماست
حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ علیہ کی شہرت ملک کے طول وعرض میں زیادہ تر سیاست
کے حوالے سے ہے، حالانکہ حضرت مفتی صاحب جہاں ایک بلند نایہ سیاستدان تھے،
وہیں وہ ایک نابغۂ روزگار فقیہ، ایک عظیم الشان محدث، ایک محقق مفسر، ایک
عبقری عربی أدیب وشاعر، ایک ولولہ انگیز خطیب اور ایک باقاعدہ چاروں سلسلوں
میں مجازِ خلافت وبیعت پیرومرشد بھی تھے۔ لہٰذا میں مفتی محمود اکیڈمی کے
ارباب بست وکشاد کی خدمت میں درخواست کروں گا کہ وہ حضرت مفتی صاحب کے
حوالے سے اپنے کام کو ان تمام جہات کی طرف علی وجہ الاستقلال مبذول کرائیں۔
تاکہ اس میں کہیں بھی جامعیت کا عنصر فوت نہ ہو۔
آخر میں ایک مرتبہ پھر اکیڈمی کے جمیع کارکنان بالخصوص قریشی صاحب کا تہہ
دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے ’’مفتی محمود-ایک قومی رہنما‘‘ کی تقریب
رونمائی کے لئے اس پرکیف مجلس کا اہتمام فرمایا اور اس میں احقر کو مذکورہ
وقیع کتاب پر مفصل تبصرے کا موقع فراہم کیا۔
میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اکیڈمی اور اس کے کار پردازاں کو روز افزوں
ترقیوں سے نوازیں اور اس کتاب کو ظاہری وباطنی ہر قسم کی قبولیت تامہ نصیب
فرمائیں اور ہم سب کو حضرت مفتی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین․ |
|