پروانہ حضوری

’’بیٹا منیب جلدی سے نہا کر آؤ نماز کا وقت ہو رہا ہے پھر قربانی کا گوشت بھی لینے جانا ہے میں تمہیں وہ گائے دکھاؤں گاجس میں ہمارا حصہ ہے ۔‘‘
عیدہ گاہ سے واپسی پر ہم اپنا گائے دیکھنے گئے یعنی وہ گائے جس میں ساتواں حصہ ہمارا تھا۔
’’دیکھو وہ …… جو آخری لائن میں تیسری گائے ہے نا……‘‘
’’جی ابو وہی ہے ……جی……جی دیکھ لی میں نے۔ بڑی خوب صورت اور صحت مند ہے۔‘‘
’’ہاں بیٹا اﷲ کی راہ میں بہترین اور پیاری چیز دی جاتی ہے، بے عیب، بے داغ…… وہ بے نیاز ہے ہلکی پھلکی چیز بھی قبول کر لیتا ہے مگر ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ بہترین سے بہترین ، اعلیٰ سے اعلیٰ اس کے حضور پیش کریں۔‘‘
’’ہاں تو جب ہمیں کوئی عمدہ چیز تحفہ میں ملتی ہے تو ہم بہت خوش ہوتے ہیں، گھٹیا پر منہ بنا لیتے ہیں…… آخر ناقص بندے ہیں نا ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ دینے والے نے کتنے خلوص سے دیا ہو گا۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہے ہو تم …… ابھی ناشتا کر کے ہم پھر یہاں آئیں گے۔‘‘
رات میں کتنے ہی لوگوں سے گلے ملنے کے بعد گھر پہنچے اندر داخل ہو ئے تو صحن میں عزیزہ کھڑی تھی۔ نک سک سے درست تیار شیار ٹخنوں تک آیا ہوا ملٹی کلر کیوں کا کرتا چست پاجامہ اور بڑا سا دوپٹہ پہنے ڈھیر ساری چوڑیاں اور انگوٹھیاں پہنے دونوں ہاتھوں میں تین تین جگمگ کرتی بڑی پیاری لگ رہی تھی۔
’’ السلام علیکم عید مبارک ابو جان۔‘‘ اس نے ادب سے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام خیر مبارک ……پیار بیٹی۔‘‘ ابو نے سر پر ہاتھ رکھا ’’ماشاء اﷲ چاند کا ٹکڑا ہے میری بیٹی۔‘‘
’’اوں ہوں ابو چاند کاٹکڑا نہیں پورا چاند ہوں۔‘‘
’’چاند کا ٹکڑا نہیں بھوسی ٹکڑا ویسے تو ہر والدین کو اپنے بچے حسین ہی لگتے ہیں۔‘‘منیب نے مسکرا کر عزیزہ کو چڑایا۔
’’دیکھئیے ابو بھیا مجھے بھوسی ٹکڑا کہہ رہے ہیں۔‘‘
’’ارے کہنے دو میں جو کہہ رہا ہوں وہی ٹھیک ہے۔‘‘
’’آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں۔‘‘ منیب نے آگے بڑھ کراس کی چھوٹی سی انار کلی جیسی ناک مروڑی۔
’’دیکھا اب کیسے لائن پر آئے ابھی آپ نے ہوتے تو کیسے کیسے خطابات دے رہے ہوتے۔‘‘
’’چلو بیٹی ! ناشتا لگاؤ ہمیں ابھی پھر جانا ہے۔‘‘
’’کہاں جاناہے ؟‘‘
’’ارے وہیں اجتماعی قربانی کے کیمپ پر۔‘‘
ناشتا کرتے ہوئے ابرار صاحب نے کہا ’’بیگم لسٹ بنا لی آپ نے جہاں گوشت پہنچانا ہے۔‘‘
’’جی ہاں بنا لی، رات ہی کو بنا کر رکھ لی تھی۔‘‘
’’امی نے سودا منگوا لیا تھا نا شام میں شامی کباب کے ساتھ چائنیز رائس بنا رہی ہوں۔‘‘
’’ہاں منگوالیا سبزیاں تو گلی میں آنے والے سے لے لی تھی……‘‘
’’اور وہ سویا ساس، چلی ساس؟ اس کے بغیر تو کھانا بنے گا نہیں ……‘‘ عزیزہ نے وارننگ دی ۔
’’ارے ارے کیا کہہ رہی ہو تم ساس کو ہنڈیا میں ڈالو گی وہ بھی ایک نہیں دو ، دو ساس کو اتنا بڑا برتن ہے تمہارے پاس؟‘‘
عزیزہ نے گھور کر منیب کو دیکھا اور چڑ کر بولی۔ ’’نہیں برتن آپ لا دیں۔‘‘
’’ارے واہ بھائی واہ آج کل کی لڑکیوں کاجواب نہیں ڈال دو بیٹا ڈال دو، ساس نندوں سب کو چاولوں میں پکا کر کھلا دو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔‘‘
’’ارے بچو! تم نے یہ کیا باتیں شروع کر دیں فضول قسم کی۔‘‘ شائستہ بیم نے جھنجھلا کر کہا۔
’’امی میں تو آپ سے سامان کا کہہ رہی تھی بھیا خواہ مخواہ بیچ میں کود پڑے۔‘‘
’’ارے کیا خواہ مخواہ ؟تم ایک چھوڑ دو ، دو ساسوں کو پکا کر کھانے چلی ہو اور میں چپ رہوں۔‘‘
’’منیب چپ ہو جاؤ یہ مسالوں کے نام ہیں یہ تمہاری فیلڈ نہیں ہے، تم مت دخل دو۔‘‘
’’جی اچھا! بہت بہتر اب یہ پہلے ہی بتا دیتیں تو میں اتنا پریشان نہ ہوتا۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔ جانتا تو وہ بھی تھا دن رات ٹی وی پر پکوان اور ترکیب مسالوں کے نام سنتا آیا تھا بس اسے غصہ دلانا مقصود تھا غصہ میں منہ پھلائے بڑی کیوٹ لگتی تھی نا۔
’’چلو بھئی منیب کھڑے ہو جاؤ وہاں ہمارا انتظار ہو رہا ہو گا۔‘‘
’’چلئیے ابو……‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ہاں ابو دو منٹ ٹھہریں گڑیا کو سامان لا دوں آخر کو ساسیں لانی ہیں دو دو کہیں تو ایک بھی نہیں ملتی یہ دو کی فرمائش کر رہی ہے…… گڑیا ایک ساس ہی بہت ہے…… سچ بہت ظالم ہوتی ہیں مار مار کا انڈا پراٹھا کھلاتی ہیں تاکہ بہو گول مٹول ہو جائے۔‘‘
’’دیکھئے امی ……‘‘‘ اس نے دھائی دی۔
امی نے کچن سے ڈوئی اٹھائی اور لہراتے ہوئے بولیں’’جاتے ہو یا لگاؤں دو چار۔‘‘
امی پلیز پلیزآپ یہ خطرناک ہتھیار واپس رکھ دیں سچ اس سے تو جنرل ، کرنل بھی ڈرتے ہیں ماں کے ہاتھ میں ڈوئی دیکھ کر بڑے سے بڑے آدمی کی گھگھی بندھ جاتی ہے …… چلئے ابا حضور دیر ہو رہی ہے۔‘‘
کیمپ پہنچے تو دیکھا دھڑ دھڑا جانور گرائے جا رہے تھے ، تکبیر کے ساتھ ذبح ہو رہے تھے ، سنت ابراہیمی ؑادا ہو رہی ہے۔ ذبح ہونیوالے جانور زور زور سے آوازیں نکال رہے تھے مگر جو باقی بچے ہوئے تھے وہ مزے میں دیکھ رہے تھے، جگالی بھی کر رہے تھے ان کی آنکھوں میں کوئی تشویش، کوئی خوف نہیں تھا ۔ یقینا وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کی باری نہیں آئے گی، جانور جو ٹھہرے۔
اپنے حصے کے دو تھیلے انہوں نے اٹھائے اور چل پڑے۔
منیب خاموشی سے چل رہا تھا۔ خاموشی اور منیب ……حیرت انگیز بات تھی اس کی باتوں سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے مذاق میں بھی بڑی شستہ گفتگو کرتا تھا۔
’’کیا بات ہے بیٹا؟بڑے چپ چپ ہو ؟‘‘
’’اباجان آپ نے دیکھا یہ جانور کس طرح قربان ہو رہے تھے اور قربانی کے علاوہ بھی روز ہی یہ ذبح ہوتے ہیں مگر کوئی احتجاج، مظاہرہ، ہڑتال، جلسہ ، جلوس کچھ نہیں ان کی برادری کے جانور کٹ رہے ہیں اور وہ خاموش اس کے کیا معنی ہیں ابو؟‘‘
’’بیٹا ان کو اﷲ نے جس مقصد کے لئے بنایا ہے وہ پورا کر رہے ہیں، ان میں عقل نہیں تو احتجاج کیسا؟ یہ اتحاد نہیں کر سکتے، یونین نہیں بنا سکتے ، بھوک ہڑتال نہیں کر سکتے، اپنی بات منوانے کے لئے مظاہرہ ، دھرنا، جلسہ جلوس بھی نہیں ……‘‘
’’ایک بات اور بیٹے ‘‘ انہوں نے نہایت دل گیر لہجے میں کہا۔
’’جی فرمائیے میں ہمہ تن گوش ہوں۔‘‘
’’تو سنو! جب حضرت انسان بھی بحیثیت ایک قوم کے متحدنہیں ہوتے، ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں اور انفرادی امور میں کھو جاتے ہیں صرف کھانا، پینا، سونا ہی مقصد زندگی بنالیتے ہیں، ہر طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں تو قدرت کا کوڑا حرکت میں آتا ہے اور کوئی ظالم جتھہ ان پر ٹوٹ پڑتا ہے پھر چنگیز خان سروں کے مینار بناتا ہے اور اقوام کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ جانوروں جیسی زندگی گزارنے والوں سے جانور وں جیسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ رب فرماتا ہے کہ ’’تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں درد ناک سزا دے گااور تمہاری جگہ کسی اور کو اٹھائے گا اور تم خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے۔‘‘ سمجھے میرے بیٹے۔‘‘
’’جی سمجھ گیا مگر ابو ہمیں کیا کرناچاہئے…… آج حالات بالکل ایسے ہیں بے حسی جیسے۔‘‘
’’بس اس کی راہ میں نکلنے کا ارادہ کرو مگر پہلے اس سے تعلق استوار کرو ایسا گہرا تعلق جو صرف تمہارے اور اس کے بیچ ہو کسی اور کا کوئی عمل دخل نہ ہو راتوں کو اٹھ کر اس سے توفیق مانگو، آنسو بہاؤ پر وہ راستے بھی بنائے گا اور اپنے حضور باریابی کا پروانہ بھی جاری کرے گا۔ اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ کو سرخرو کرے۔‘‘
’’آمین ‘‘ منیب نے بڑے خلوص نیت سے آمین کہا اور گھر کی جانب چلتا رہا۔
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 20416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.