عید پرمبارکبادیوں کے بینرزکاسلسلہ ختم نہ ہواتو پورے شہر میں تحریک چلائی جائے گی
(Ata Ur Rehman Noori, India)
کاش کہ اتنی خطیررقم مالیگاؤں بم بلاسٹ کیس سے بری الذمہ ہوئے نوجوانوں کے کاروبار کو مضبوط کرنے میں لگادی جاتی
پورے مالیگاؤں شہر میں فوٹوزلگے ہے تو کیاپورے مالیگاؤں میں رحمت کے فرشتے نازل نہیں ہوں گے؟ |
|
چند سالوں سے مبارکبادیوں کے بینرز کا
نیاسلسلہ دن بہ دن شہر میں پروان چڑھتاہی جارہا ہے ۔جی ہاں!آئیے اپنی
یادداشت کوتھوڑاساپیچھے لے چلیں۔لوگ عیدکی تیاریوں میں مصروف ہیں،ہرایک کو
’’ہلالِ شوال‘‘کاانتظارہے کہ کب چاند نظرآئے اور عیداپنے جلومیں رونقیں لے
کرحاضرہو۔ایسے میں پورے شہر میں کچھ لوگ ہمیں چوک چوراہوں اور شہرکی اہم
شاہراؤں پر بینرزنصب کرتے ہوئے نظرآئے ہوں گے۔ان بینروں کے ذریعے کسی پیغام
کو پہنچانامقصد نہیں تھابلکہ ا’مت مسلمہ کو عید الفطرکی مبارکبادپیش
کرناتھا۔ان بینروں پر جن جن لوگوں نے عید کی مبارکبادیاں پیش کیں تھیں ان
میں مذہبی،سیاسی،سماجی اور تھوڑابہت اثر و رسوخ رکھنے والے نام نہادافراد
کے نام سرفہرست ہیں۔ہمیں ان افراد سے نا کوئی ذاتی رنجش ہے اور نہ ہی کسی
قسم کابغض وعناد۔بلکہ ایک اہم نکتے کی جانب توجہ کومبذول کرانا ہمارامقصد
ہے۔بینرز پرنٹ کرنے والے ایک دوست نے ہمیں بتایاکہ اس سال ایک مشین پر
800؍سے 1000؍ بینرز پرنٹ ہوئے ہے اور شہر بھر میں اس طرزکی کئی پرنٹ مشینیں
موجودہیں۔اگر شہر میں صرف پانچ مشینوں پر 900؍بینرز کے حساب سے بینرزپرنٹ
ہوئے ہوں گے تو کل بینزر کی تعداد 4500؍ہوگی۔
ایک چھوٹے بینر کی قیمت تقریباً1200؍روپئے ہوتی ہے۔جبکہ شہر بھر میں
2000؍سے 10,000؍کی لاگت سے بنے مختلف قسم کے بینرزآویزاں ہیں۔ اوسطاً ایک
بینر کی قیمت 2500؍روپئے کے حساب سے4500؍بینرس کی مجموعی قیمت
11250000؍(ایک کروڑ بارہ لاکھ پچاس ہزار)ہوتی ہے۔پرنٹ چارج کے علاوہ پیسٹنگ
چارج الگ ہوتاہے اور فریم چارج بھی علاحدہ۔اگر ان اخراجات کو بھی شامل
کرلیں تو یہ رقم دیڑھ کروڑ کاعددپار کرجائے گی۔باوجود اس کہ ہم صرف پچاس
لاکھ تصور کرتے ہیں۔کیاان بینرزہولڈرس کی نگاہ میں عیدکامقصد صرف
مبارکبادپیش کرنا تھا؟کہیں ایساتو نہیں کہ جھوٹی شان وشوکت اورنام ونمود کی
خاطر تقریباً ایک سے دیڑھ کروڑ روپیہ یوں ہی برباد کردیاگیا ؟ یا حصولِ
شہرت اور واہ واہی اس کامقصد ہے؟یا پھر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ہوَس اس
فضول خرچی کامنبع․․․․؟کیااہلیان شہر کوان بینروں کے ذریعے مبارکبادنہیں پیش
کی جائے گی تو عید نہیں ہوگی؟یا عید کارنگ پھیکاہوگا؟یاآپ کی اس شہرت حاصل
کرنے والی مبارکبادی کے بغیرعید نا مکمل ہوگی؟ان بینروں پر ان لوگوں کی بھی
بڑی بڑی تصویریں موجود تھیں جو جائز ومستحسن امرپر ناجائز اور بدعت کا فتویٰ
لگانے میں ذرہ برابربھی رب کا خوف محسوس نہیں کرتے۔ذرابتائیں آپ کایہ عمل
سنّت ہے یا بدعت؟آخر شخصیت سازی کے لیے خرافات کو کیوں جنم دیا جا رہا ہے؟
شہرمیں بینروں کا استعمال محض شخصیت کی تعمیر و توسیع،ذہن سازی اور بلند
مقام ومرتبہ کے اظہار کے لیے ہوتا ہے جب کہ پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا:’’اپنی
جانوں کواچھا نہ بتاؤ،خدا خوب جانتا ہے کہ تم میں نیکو کار کون ہے۔‘‘(احکامِ
شریعت،حصہ اول،ص؍۷۳،سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ)
اگر آپ غور کروگے تو آپ کو اس بات کا مشاہدہ ہوگاکہ ان بینرز میں نہ ہی
کوئی قرآنی آیت ہوتی ہے،نہ ہی حدیث ،نہ ہی کسی قسم کاپیغام اور نہ ہی اسلاف
کرام کے اقوال۔بس آپ کوبڑے بڑے بینر لگے ہوئے ملیں گے جس میں ایک صاحب ہاتھ
میں موبائل لیے،چشمہ پہنے ،گھٹیا اِسٹائیل میں کھڑایا بیٹھا ہوگااور اس کی
چپل کے نیچے آٹھ دس چیلوں چپاٹوں کی فوٹوہوگی اور جلی حرفوں میں ’’عیدمبارک‘‘لکھاہوگا۔اس
سال شہر میں اتنے بینرزلگے کہ اگر ان بینروں کا پنڈال بنایاجائے تو ایک
عالمی اجتماع کا پنڈال تیار ہو سکتا ہے۔ساتھ ہی ذہن میں ایک سوال
پیداہوتاہے اہل علم سے جواب کاطلبگارہوں ۔فرمایاگیاجس گھر میں تصویرہوتی ہے
اس گھر میں رحمت کے فرشتے نازل نہیں ہوتے۔ہمارے تو پورے شہر میں فوٹوہی
فوٹو لگے ہے تو کیاپورے مالیگاؤں میں رحمت کے فرشتے نازل نہیں ہوں
گے؟؟کیاہماری پریشانی اور مصیبت کی وجہ یہ بینر زتو نہیں ہے؟صنعتی مندی
کاسبب بھی کہی یہ بینرز تو نہیں ہے؟
کاش کہ یہ ایک کروڑ روپیہ یتیموں ،حاجتمندوں،غریبوں،بیواؤں اورمفلسوں کو دے
دیاجاتا، بھوکوں کوکھاناکھلادیاجاتایا نیکی کے کاموں میں لگادیاجاتا۔یا پھر
ہمارے شہر کے جو بے گناہ نوجوان جو مالیگاؤں بم بلاسٹ کیس سے بری الذمہ
ہوکر آئے ہیں ان کی کفالت اور ان کے کاروبار کو مضبوط کرنے میں
لگادیاجاتا۔مگر افسوس!اب سب کچھ فوٹو بازی کے لیے ہوکررہ گیاہے۔کیاعامی
کیاجاہل؟ سب اس مرض میں ملوث ہیں۔آخرکون کس کی اصلاح کریں؟جبکہ آج ہر ایک
کواصلاح کی ضرروت ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بارے میں جس
چیز سے میں ڈرتا ہوں وہ شرکِ اصغر ہے، صحابۂ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے
عرض کیا یا رسول اﷲ! شرکِ اصغر کیا چیز ہے، فرمایا ریا(یعنی دکھاوے کے لئے
کوئی کام کرنا)۔
اصل میں مالیگاؤں میں ہرچھوٹے بڑے کاموں پر بڑے بڑے بینرلگانے کارجحان بھی
کافی بڑھتا جارہاہے۔گزشتہ تین سالوں سے راقم اپنے مختلف مضامین کے ذریعے سے
اس وَباکو روکنے کی کوشش کررہاہے۔مگر افسوس!یہ وَباہمارے سماج میں دن بہ دن
بڑھتی ہی جارہی ہے۔امسال ملت کی فکر کرنے والے بعض حساس نوجوانوں سے راقم
کی اس ضمن میں خصوصی گفتگوہوئی ہے ،ا ن مخلص احباب نے چند مشورے دیئے ہیں
جو قارئین کی نذر پیش کررہاہوں تاکہ آپ بھی اپنی رائے سے ہمیں باخبر کریں
کہ اس مرض کو روکنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرناچاہیے؟(ا)مفتیان
کرام،علمائے عظام ،ائمہ کرام اور مبلغین شہر بھرکی مسجدوں میں اس نحوست کے
خلاف خطابات کریں اور لوگوں کی ذہن سازی کریں(۲)مشین مالکان سے ملاقات کریں
اورا نہیں سمجھائیں(۳)ان سال جن جن لوگوں نے بینرز لگائیں ہیں انھیں اس کام
سے منع کریں اور بطور کفارہ انھیں دوسرے لوگوں کو روکنے کے لیے کہیں(۴)اہل
سیاست اور پولس محکمے کے تعاون سے عید پر ہرقسم کے بینرز پر پابندی لگادی
جائے(۵)تہواروں کے بینرز پر ٹیکس نہیں لگتاہے اس لیے بھاری بھرکم ٹیکس عائد
کرنے کی گذارش کی جائے تاکہ کسی کی ہمت ہی نہ ہو(۶)نوجوانوں کی ایسی ٹیم
تیارکی جائے جو پوسڑ کے لگتے ہی خفیہ طریقے سے بینرزکو پھاڑ دے۔مگر سوال یہ
پیداہوتاہے کہ کیااس طرح قانون ہاتھ میں لیناچاہیے؟(۷)ماہ رجب سے ہی پورے
شہر میں بینرز کے خلاف باضابطہ تحریک چھیڑی جائے جس میں اتنی شدت ہوکہ اسے
روکنے والاخود کے جل جانے کا خوف محسوس کریں۔
ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کاش !!یہ روپیہ قوم کے ان افراد تک پہنچادیا
جاتا جنھوں نے عید کادن بھی پرانے اور بوسیدہ لباس میں گزارا۔کاش!ان لوگوں
تک اگر یہ رقم پہنچائی جاتی جن کے بچے عید کے دن بھوک سے بلبلاتے ہوئے
بریانی کی فرمائش کررہے تھے اورماں سوکھی روٹی کاٹکڑایہ کہہ کرکھلارہی تھی
بیٹا!صبر کرویہ دن بھی گزرجائیں گے۔کاش ! ان بیواؤں تک پیسوں کی رسائی
ہوجاتی جن کاکوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔کاش!ان یتیم بچوں تک ان روپیوں
کوپہنچادیاجاتاجن کے دل سے باربار یہی ہوک اُٹھ رہی تھی ’’کاش!ماں تم زندہ
ہوتی تو بے سروسامانی کاعالم نہ ہوتا‘‘۔کاش! ان روپیوں کوکسی
مذہبی،طبی،فلاحی اور سماجی کاموں ہی میں صرف کردیاجاتا۔مگرافسوس صد افسوس!
جھوٹی شان وشوکت اور دِکھاوے کی خاطر خطیر رقم بے مقصد اور فضول کاموں میں
صرف کی گئی۔یہ تو بینر کے اخراجات پر ایک سرسری جائزہ پیش کیاگیاہے ،اخبارات
میں شائع ہونے والے مبارکبادی کے اشتہارات کے اخراجات بھی اس میں شامل
کرلئے جائیں تو یہ رقم پتہ نہیں کہاں تک پہنچ جائے۔یاد رہے اﷲ پاک نے قرآن
کریم میں فرمایا:’’بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔‘‘(القرآن)
قارئین کرام!صرف بینرز ہی نہیں بلکہ لاکھوں روپیہ بے جا سیر وتفریح
میں،کروڑوں روپیہ فلم بینی کی نذر اور دیگر خرافات میں خرچ سے احترازکرنا
ازحدضروری ہے۔ہماری گزارش ہے کہ شہر سے کچھ ایسے نوجوان کھڑے ہوں جو اس
بدعت کا خاتمہ کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکافریضہ انجام
دیں۔قارئین کرام!ہمیں چا ہئے کہ ہم اپنی زندگی میں میانہ روی اختیار کریں
تاکہ اسراف کی وعیدوں سے محفوظ رہیں اور قرب خداوندی کی دولت نصیب ہو۔خود
کے چاہنے سے کوئی ذلت کاشکارہوسکتاہے اور نہ ہی عزت حاصل کی جاسکتی ہے۔عزت
و ذلت رب کی جانب سے ہے،وہ جسے چاہے ذلیل کرے اور وہ جسے چاہے عزت دے۔اﷲ
پاک ہمیں فضول خرچی اور نام ونمودسے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |
|