علامہ بنوریؒ کا عربی ذوق
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
ابو لبید خان المظفر
محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اﷲ کی ذات گرامی ہمہ جہتی،
عبقریت اور کمال کی جامع شخصیت تھی، لیکن عربی زبان سے انہیں جو لگاؤ، محبت
اور شغف تھا، وہ ان کی تحریر وتقریر اور گفت گو کا نمایاں حصہ تھا، ماہ
نامہ ’’بینات‘‘ کراچی میں بصائر وعبر کے عنوان سے جو شاہ کار اداریے انہوں
نے تحریر فرمائے ہیں، وہ کتابی شکل میں دو ضخیم جلدوں میں دست یاب ہیں، جن
کا مطالعہ بطورِ خاص اہلِ قلم علما کے لیے از حد ضروری ہے۔ الحمد ﷲ میں نے
بار بار ان اداریوں کو پڑھا اور جہاں جہاں حضرت نے عربی زبان وادب کو موضوع
سخن بنایا، ان مقامات کو اقتباسات کے طور پر جمع کرکے قارئین کے لیے پیش
کرنے کی کوشش کی ہے۔
علامہ طنطاوی کی تفسیر جواہر القرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت بنوری فرماتے
ہیں:
’’تقریباً انتیس سال پہلے ۱۳۵۷ھ ۱۹۳۷ء کے اوائل میں مصر جانے کا اتفاق ہوا
تھا اور قاہرہ کے ایک دینی ہفتہ وار مجلہ ’’الإسلام‘‘ کے دفتر میں اپنے
رفیق مولانا سیدا حمد رضا صاھب بجنوری کی معیت میں بسلسلہ اشاعتِ مضامین
جانا ہوا تھا، وہیں مجلہ ’’الإسلام‘‘ کے دفتر میں مصر کے ایک مشہور عالم
اور مفسرِ قرآن شیخ جوہری طنطاوی مرحوم سے تعارف اور ملاقات کا موقع ملا،
وہ بھی اس مجلے میں کوئی مضمون شائع کرانے کی غرض سے تشریف لائے تھے، تعارف
کے بعد علامہ موصوف نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا میں نے ان کی تفسیر کا
مطالعہ کیا ہے؟ میں نے جواباً عرض کیا کہ جی ہاں! اس قدر مطالعہ کیا ہے، جس
سے اس کے متعلق رائے قائم کر سکا ہوں کہ وہ کیسی تفسیر ہے۔ علامہ نے فرمایا:
میں وہ رائے سننا چاہتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ علامہ کشمیری کی ’’مشکلات
القرآن‘‘ کے مقدمے میں آپ کی تفسیر کے متعلق مختصر طور پر اپنی رائے دے چکا
ہوں، وہ مختصر سی رائے تھی، اگر آپ اجازت دیں تو اب ذرا تفصیل سے عرض کروں۔
فرمایا بہت خوشی سے۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا:
آپ نے علمائے امت پر یہ تو بڑا احسان کیا کہ علوم جدیدہ خصوصاً طبیعیات
وفلکیات وہیئت وغیرہ کو، جو یورپ کی زبانوں میں تھے اور علما ان سے استفادہ
نہیں کر سکتے تھے، فصیح وبلیغ عربی میں منتقل کر دیا اور اس سے ہمارے لیے
استفادے کی راہیں کھل گئیں، اس احسان کے ہم سب ممنون ہیں، لیکن قرآنی دعوت
کو آپ نے جس انداز سے بیان کیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان
قرآنی حقائق کو سمجھنے میں انتہائی تقصیر کی ہے اور یورپ کی قوموں نے خوب
سمجھا ہے اور انہیں نے صحیح طور پر ان پر عمل کیا اور پورا فائدہ اٹھایا ہے،
یورپین اقوام کی ترقی وتقدم اور مسلمانوں کی پستی وتاخر کا سب سے بڑا سبب
یہی ہے۔ اگر آپ کے اس بیان کو بلا تاویل صحیح مان لیا جائے تو یہ بھی تسلیم
کرنا پڑے گا کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ عملی تقصیر خود اس مقدس شخصیت سے
ہوئی (معاذ اﷲ) جس پر قرآن کریم نازل ہوا تھا، جو سب سے زیادہ قرآنی حقائق
کی عالم تھی اور اس کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام نے بھی یہی تقصیر
کی (معاذ اﷲ) اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام سے زیادہ قرآن کریم
پر صحیح عمل کرنے والی قوم روئے زمین پر پیدا نہیں ہوئی، لیکن آپ کے بیان
کے مطابق حضراتِ صحابہ کی یہی قوم سب سے زیادہ مقصِّر (کوتاہی کرنے والی)
ہوگی۔
آپ فرماتے ہیں کہ جو قوم ان حقائق کونیہ کو زیادہ جانے گی اﷲ تعالی کی
معرفت کے میدان میں وہی قوم گویا سبقت لے جائے گی، گویا یورپ کا ایک سائنس
دان آپ کے فرمانے کے مطابق صحابہ کرام اور عارفین امت سے زیادہ اعرف باﷲ
ہوگا اور ایک یورپین کافر وفاسق سائنس دان آپ کے نزدیک سید الطائفہ حضرت
جنید بغدادی سے بھی زیادہ عارف باﷲہوگا۔
پھر آپ قرآنی آیات سے بسا اوقات ایسے طرز سے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن حکیم
کی شانِ رفیع اس واہی اور کمزور استدلال سے بہت اعلیٰ وارفع ہوتی ہے، مثال
کے طور پر میں نے سورۂ آل عمران کی تفسیر میں ایک موقع پر علامہ موصوف کے
ایک استدلال کا حوالہ دیا، جس میں موصوف نے فوٹو کے جواز پر استدلال کیا
تھا، میں نے اس کی کمزوری اور اس کے رکیک انداز کو اچھی طرح واضح کیا۔علامہ
طنطاوی مرحوم بڑے غور سے میری سنتے رہے اور اس کے بعد ان کا جواب دینا شروع
کیا اور میں موصوف کی ان جوابی وضاحتوں کا رد واعتراض اور جواب در جواب
دیتا رہا، عجیب بات یہ تھی کہ مرحوم کوئی مؤثر اور وزنی بات نہیں فرما سکے
اور اس سے زیادہ عجیب اتفاق یہ تھا کہ اس وقت اﷲ تعالی نے میرا سینہ اس طرح
کھولا اور زبان وبیان میں ایسی طاقت وروانی عطا فرمائی جو میں نے اس سے
پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی اور اس کا میں نے یہ اثر دیکھا کہ گرمیٔ بحث
کے دوران علامہ طنطاوی مرحوم نے بے ساختہ فرمایا: ’’ما أنت عالم ہندي، إنما
أنت ملک نزل من السماء لإصلاحي!!‘‘ تم محض ایک ہندی عالم نہیں، بلکہ در
حقیقت فرشتہ ہو، جو آسمان سے میری اصلاح کے لیے اترا ہے۔
اور بحث کے دوران کبھی کبھی کانوں پر ہاتھ رکھ کر بہت ہی تعجب کے لہجے مین
فرماتے: ’’الآن أفہم منک معنی ہذا الحدیث!‘‘اس وقت میں تم سے اس حدیث کے
معنے سمجھا ہوں۔
یہ اعتراف علامہ مرحوم کا حسنِ اخلاق تھا اور اسی طرح یہ میرا کوئی کمال نہ
تھا، بلکہ اس جماعت کی برکت تھی، جس کی طرف میرا انتساب ہے اور ان اکابر کی
کرامت تھی، جن کے جوتے میں نے اٹھائے تھے کہ اﷲ تعالی نے مجھے رسوا نہیں
فرمایا اور میرے جہل ونادانی سے میرے اکابر بدنام نہیں ہوئے۔‘‘ [بصائر
وعبر: ۳۶/۱۔۳۸]
عربی زبان اور اس کی اہمیت کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’عربی زبان کی دینی اہمیت تو ظاہر ہے کہ اسلام کا بنیادی پیغام ’’قرآن
حکیم‘‘ تمام عالم کے لیے حق تعالی کا آخری پیغام ہے، وہ عربی زبان میں ہے،
دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں توحید ونبوت کے بعد ’’نماز‘‘ جو عماد
دین ہے، اس کے تمام ارکان: قراء ت، اذکار وادعیہ یعنی پوری نماز اول سے آخر
تک عربی میں ہے۔ عیدین وجمعے کے خطبے عربی زبان میں ہیں، حضرت رسالت پناہ
(فداہ أبي وأمي صلی اﷲ علیہ وسلم) کی تمام تعلیمات وارشادات کا عظیم الشان
ذخیرہ یعنی احادیث عربی میں ہیں، حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات
گرامی نسباً عربی قریشی ہاشمی ہے، بعض روایات میں عربی زبان سے محبت کرنے
کے لیے یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: ’’میں بھی عربی اللسان ہوں، قرآن بھی
عربی میں ہے اور اہل جنت کی زبان بھی عربی ہے‘‘۔
حضرت خاتم الانبیا صلی اﷲ علیہ وسلم نے امت کو جو اذکار اور دعائیں تلقین
فرمائی ہیں، جو بجائے خود عجیب وغریب دعائیں ہیں، جن میں دین ودنیا کی کوئی
ضرورت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق دعا ارشاد نہ فرمائی گئی ہو، بلکہ دعاؤں کی
جامعیت دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے، کوئی بڑے سے بڑا عاقل انسان بھی اس
جامعیت کا تصور تک نہیں کر سکتا، جس سے ان کا الہامی ہونا ظاہر ہے اور نبوت
کے اعجاز کی مستقل دلیل ہے، یہ سب کچھ عربی زبان میں ہے، بزرگانِ دین،
صحابہ کرام وتابعیں عظام سے لے کر جنید وشبلی تک، پھر شیخ عبدالقادر جیلانی
اور صاحب حزب البحر وصاحب دلائل الخیرات وغیرہ بقیہ بزرگان دین کی دعائیں،
اذکار اور درود شریف سب عربی زبان میں ہیں، اﷲ تعالی کے پیارے ننانوے مبارک
نام بھی عربی میں ہیں، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک نام بھی عربی
میں ہیں، غرض کیا کیا چیزیں گنوائی جائیں؟ خلاصہ یہ کہ پورا دین اور دین کے
ہر ایک جز کا عربی زبان سے تعلق ہے، اس لحاظ سے ایک مسلمان کا بحیثیت دین
جتنا تعلق بھی عربی زبان سے ہو، بجا ہے۔
دنیاوی اور سیاسی حیثیت سے بھی اس کی اہمیت بالکل واضح ہے، تمام عرب ممالک،
حجاز مقدس، مکہ، مدینہ، لبنان، شام، مصر، طرابلس، الجزائر، تیونس، مراکش،
بحرین، کویت وغیرہ وغیرہ چھوٹی بڑی بیسیوں ریاستیں عربی قوموں کی ہیں،
۲۴عربی ممالک ہیں، ان سے تعلقات قائم رکھنے کے لیے اور ان میں اسلامی نفوذ
پیدا کرنے لیے عربی زبان کی کتنی شدید ضرورت ہے؟ ان ممالک میں جو عربی
لٹریچر دینی اور سیاسی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو رہی ہیں، رسائل
واخبارات کا تو ٹھکانہ ہی نہیں، ان ممالک کو معلموں کی ضرورت ہے، انجینئروں
کی حاجت ہے، ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، ان ممالک میں تجارت کے ذرائع پیدا کرنے
کے کارخانے قائم کرنا، ان ممالک میں عربی زبان میں اپنے سیاسی مقاصد
ومفادات کی اشاعت کرنا انتہائی اہم وقتی تقاضے ہیں، ان سب کے لیے عربی زبان
کی کتنی شدید ضرورت ہے؟
علاوہ ازیں ممالک عربیہ میں دنیا کی ثروت ودولت کا جو سیلاب آیا ہے، اس سے
بقیہ غیر عربی ممالک اسلامیہ کو مستفید ہونے کے لیے بھی عربی زبان کی کتنی
اہمیت ہے؟ مشرقی دنیا میں انڈونیشیا، جو مسلمانوں کی بری حکومت ہے، وہاں
عربی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے، اسی لیے امام شافعی کے مذہب میں تو
کچھ نہ کچھ عربی سیکھنا فرض عین کا درجہ رکھتا ہے، بقیہ اماموں مالک
وابوحنیفہ واحمد بن حنبل کے نزدیک بھی عربی سیکھنا فرض کفایہ ہے، ادبی
حیثیت سے بھی عربی کی خصوصیات بے حد لطیف، مگر تفصیل طلب ہیں، کاش! ہمارے
ملک میں ہماری یونی ورسٹیوں، کالجوں، اسکولوں اور ان کے ارباب اقتدار کو اس
طرف توجہ ہوجائے اور اس کی اہمیت محسوس کرنے لگیں۔
ہمارے اسلاف کرام کے علمی وفنی ذخائر، علوم ومعارف کے حیرت انگیزذخیرے تمام
کے تمام عربی زبان میں ہیں، عالم اسلام اور عالم عربی کے اتحاد کے لیے عربی
زبان ایک قومی رابطہ ثابت ہو سکتی ہے، ہمارے حکم ران دین کے لیے نہیں، اپنی
سیاسی ودنیوی اغراض کے لیے ہی عربی زبان پر توجہ دیتے تو آج پاکستان اور
عالم اسلام کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
بہرحال کہنا یہ ہے کہ عربی زبان کی عظمت واہمیت دینی، سیاسی، ادبی ہر جہت
سے مسلَّم ہے، ہم سے تقاضا ہو رہا ہے کہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ (جامعۃ العلوم
الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن) کی طرف سے کوئی عربی پرچہ بھی جاری کیا جائے۔ بہت
سوچا، لیکن ہماری دینی درس گاہوں کی کم ذوقی وغفلت، ہمارے طلبہ وعلما کی بے
حسی اور عربی زبان سے بے رغبتی یا عدمِ مہارت اس کی اجازت نہیں دیتی، تاہم
فی الوقت یہ ارادہ کر لیا ہے کہ بینات میں چار پانچ صفحے عربی مضامین کے
لیے مخصوص کیے جائیں، لیکن ساتھ ساتھ اس کا اردو ترجمہ بھی ہو، تاکہ عربی
اور ادبی ذوق کے مالک حضرات عربی سے لطف اندوز ہوں اور عام قائین کرام اس
کے ترجمے سے محظوظ ہوں، اﷲ تعالی توفیق عطا فرمائے، آمین۔‘‘
[بینات عربی زبان میں ڈاکٹر حبیب اﷲ مختار شہید رحمۃ اﷲ علیہ کے دور سے
شائع ہو رہا ہے۔]
(بصائر وعبر: ۲۹۶/۱)
عربی زبان پر عبور کے بغیر لوگ قرآن کریم کی تفسیر اور حدیث کی تشریح جیسے
حساس موضوعات تک پر قلم اٹھاتے ہیں، حضرت شیخ عربی زبان سے نابلد مفسرین
ومفکرین پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بہرحال جب انتہائی علمی قابلیت والے، انتہائی ذکاوت والے فتنوں میں مبتلا
ہو سکتے ہیں تو ایسے حضرات کہ جن میں علمی قابلیت بہت کم،لیکن قلمی قابلیت
بہت زیادہ ہو، صحبتِ ارباب کمال سے یکسر محروم ہوں، طباع وذہین ہوں، وہ تو
بہت جلد اعجاب بالرای کی خطرناک بلا میں مبتلا ہو کر تمام امت کی تحقیر اور
تمام تحقیقات امت کا استخفاف اور تمام سلف صالحین کے کارناموں کی تضحیک اور
اول سے لے کر آخر تک تمام تنقید پر تنقید کر کے خطرناک گہرے گڑھے میں گر کر
تمام نسل کے لیے گمراہی کا باعث بن جاتے ہیں، اس قسم کے لوگوں میں سے آج کل
کی ایک مشہور شخصیت جناب ابوالاعلیٰ مودودی کی ہے، جو بچپن ہی سے طباع
وذہین، مگر معاشی پریشانی میں مبتلا تھے، ابتدا میں اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور
میں ملازم ہوئے اور پھر دہلی میں جمعیت علمائے ہند کے اخبار ’’مسلم‘‘ سے
وابستہ رہے، پھر چند سالوں کے بعد اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی میں ملازم ہوئے،
جو جمعیت علمائے ہند کا ترجمان تھا، دہلی سے نکلتا تھا، غالباً سہ روزہ
تھا، تاریخ کے جواہر پاروں کے عنوان سے ان کے مضامین بڑے آب وتاب سے نکلے
تھے، اس طرح مودودی صاحب کی تربیت مولانا سعید احمد صاحب کے ذریعے ہوتی
گئی، والد مرحوم کی وفات کی وجہ سے اپنی تعلیم نہ صرف یہ کہ مکمل نہ کر
سکے، بلکہ بالکل ابتدائی عربی تعلیم کی کتابوں میں رہ گئے، نہ جدید تعلیم
سے بہرہ ور ہو سکے، پرائیویٹ انگریزی تعلیم حاصل کی اور انگریزی سے کچھ
مناسبت ہو گئی، اس دور کے اچھے لکھنے والوں کی کتابوں اور تحریرات اور
مجلات وجرائد سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا اور قلمی قابلیت روز افزوں ہوتی گئی،
بدقسمتی سے نہ کسی دینی درس گاہ سے فیض حاصل کر سکے، نہ جدید علوم کے
گریجویٹ بن سکے، نہ کسی پختہ کار عالم دین کی صحبت نصیب ہو سکی اور ایک
مضمون میں خود اس کا اعتراف کیا ہے، جو عرصہ ہوا کہ ہندوستان متحدہ میں
مولانا عبدالحق مدنی مراد آبادی کے جواب میں شائع ہوا تھا، بلکہ بد نصیبی
سے نیاز فتح پوری جیسے ملحد وزندیق کی صحبت نصیب ہوئی، ان سے دوستی رہی، ان
کی صحبت ورفاقت سے بہت کچھ غلط رجحانات ومیلانات پیدا ہوگئے، حیدر آباد دکن
سے ۱۹۳۳ء میں ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جاری کیا، آب وتاب سے مضامین
لکھے، بہتر سے بہتر پیرائے میں کچھ علمی وقلمی چیزیں ابھرنے لگیں، ان دونوں
ملک کی سیاسی فضا مرتعش تھی، تحریک آزادیٔ ہند فیصلہ کن مراحل میں تھی،
ہندوستان کے بہترین دماغ اس طرف متوجہ تھے، مودودی صاحب نے سب سے ہٹ کر
اقامتِ دین اور حکومت الٰہیہ کا نعرہ لگایا اور تحریک آزادی کی تمام قوتوں
پر بھر پور تنقید کی، ان کے بھولے بھالے مداح یہ سمجھے کہ شاید دین قیم کا
آخری سہارا بس مودودی صاحب کی ذات رہ گئی ہے، چناں چہ بہت جلد سید سلیمان
ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی اور عبدالماجد دریا آبادی کے قلم سے خراج
تحسین وصول ہونے لگا، ظاہر ہے کہ اس وقت مودودی صرف ایک شخص کا نام تھا، نہ
اس وقت اس کی دعوت تھی، نہ جماعت تھی، نہ تحریک تھی، ان کی تحریرات اور
زوردار بیانات سے بعض اہل حق کو ان سے توقعات وابستہ ہوئیں، ان کی آمادگی
اور چوہدری محمد نیاز کی حوصلہ افزائی سے پٹھان کوٹ میں ’’دارالاسلام‘‘ کی
بنیاد ڈالی گئی، لیگ وکانگریس کی رسہ کشی شروع ہو گئی تھی، ان کے قلم سے
ایسے مضامین نکلے اور سیاسی کش مکش کے نام سے ایسی کتاب وجود میں آگئی کہ
ہم نوا حضرات سے اس کو خراج تحسین حاصل ہوا اور سیاسی مصالح نے اس کو پروان
چڑھایا، لاہور میں اجتماع ہوا اور باقاعدہ امارت کی بنیاد ڈالی گئی اور ان
کی لکھی تقریر پڑھی گئی، جس میں بتایا گیا کہ امیر وقت کے لیے کیا کیا امور
ضروری ہیں، ارباب اجتماع میں مشہور شخصیتیں جناب مولانا محمد منظور نعمانی،
مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا مسعود عالم
ندوی بھی تھے، بڑے امیر منتخب ہو گئے اور چار امرا یہ حضرات امیرِ ما تحت
منتخب ہو گئے، جماعت اسلامی باقاعدہ وجود میں آگئی، اس کا دستور آیا، اس کا
منشور آیا، لوگوں کی نگاہیں اٹھیں، ہر طرف سے امیدیں وابستہ ہو گئیں، لیکن
۶ماہ کا عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ مولانا نعمانی، مولانا علی میاں مستعفی ہو
گئے اور ان کو ان کی علمی کمزوریاں اور اخلاص کا فقدان نظر آیا، ساتھ نہیں
دے سکے، لیکن ان حضرات نے پھر بھی پردہ پوشی کی اور امت کے سامنے صاف وصریح
وجہِ علیحدگی ظاہر نہیں فرمائی، میں اس وقت جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں
تدریسی خدمات انجام دیتا تھا، میں نے ان دونوں بزرگوں سے جدائی کی وجوہ
دریافت کیے، بہت کچھ کہا، لیکن کوئی صاف بات نہیں بتلائی، لیکن میں سمجھ
گیا، مولانا مسعود عالم مرحوم اور مولانا امین احسن اصلاحی کو بہت کچھ
معتقدات وطریقہ کار میں موافقت تھی اور یہ دونوں بزرگ عرصہ تک مودودی صاحب
کے دست وبازو بنے رہے، مولانا مسعود عالم مرحوم نے عربی ادب کے ذریعے خدمات
انجام دیں اور مودودی صاحب کی تحریرات اور کتابوں کے آب وتاب سے عربی تراجم
کیے اور ادبی تربیت کر کے چند شاگردوں کو بھی تیار کر دیا، مولانا اصلاحی
نے اپنے خاص علمی ذوق وانداز سے مودودی صاحب کی تحریک کو پروان چڑھایا،
اچھے اچھے رفقائے کار، ارباب قلم اور ارباب فن شامل ہو گئے، کمیونزم کے
خلاف اور بعض دینی مسائل پر عمدہ کتابیں لکھی گئیں، سود خوری، شراب نوشی،
پردہ وغیرہ پر اچھی کتابیں آگئیں، تفہیمات وتنقیحات میں بعض اچھے اچھے
مضامین آگئے، جدید نسل کی اصلاح کے لیے کتابیں تالیف کی گئیں، عرب ممالک
میں خصوصاً سعودی عرب کو متاثر کرنے کے لیے اور وہاں کے شیوخ کو ہم نوا
بنانے کے لیے مختلف انداز سے کام کیا اور کام یاب تدبیریں اختیار کیں اور
جو رفقائے کار کے قلم سے معرض اشاعت میں آیا، اسے اس انداز میں پیش کیا
جاتا رہا کہ یہ سب کچھ مودودی صاحب کی توجیہات کا رہینِ منت ہیں، اس سے ان
کی شخصیت بننا شروع ہو گئی اور تمام جماعت کے افراد کی تالیف سے خود وجاہت
کا فائدہ اٹھایا، خود عربی لکھنے سے معذور، انگریزی لکھنے سے معذور، نہ
عربی لکھ سکتا ہے نہ بول سکتا ہے، یہی انگریزی کا حال بھی ہے، لیکن جو
کتابیں ترجمہ کی گئیں ان کے سرِورق پر بھی لکھا گیا ’’تالیفات المودودی‘‘!
کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ ترجمہ مسعود عالم کا ہے یا عاصم حداد کا ہے، لوگ
یہ سمجھے کہ اردو کا یہ ادیب کیا ٹھکانا، عربی ادب کا بھی امام ہے، لیکن
چند دن گزرے تھے کہ مولانا گیلانی مرحوم اور حضرت سید سلیمان ندوی مرحوم
متنبہ ہو گئے کہ یہ تحریرات جدید فتنہ انگیزی کا سامان مہیا کر رہی ہیں، جو
کچھ خطابات تھے اور متکلم اسلام وغیرہ القاب تھے، اس کو روک دیا اور مولانا
گیلانی نے ’’صدقِ جدید‘‘ میں ’’خارجیت جدیدہ‘‘ کے عنوان سے تنقیدی مضمون
لکھا، علمائے کرام کے زمرے میں شاید حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ
اﷲ پہلی شخصیت ہیں، جنہوں نے اپنے مکاتیب میں اس فتنے کی نشان دہی فرمائی،
رفتہ رفتہ علمائے امت کچھ نہ کچھ لکھتے رہے، حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد
زکریاصاحب نے اس وقت، جو مطبوعہ ذخیرہ تھا، سب کو مطالعہ فرما کر ایک مبسوط
رسالہ مرتب فرمایا، لیکن افسوس کہ طبع نہ ہو سکا اور اس سلسلے میں ایک مدرس
مظاہر العلوم مولانا محمد زکریا قدوسی صاحب مودودی صاحب کی طرف مائل ہو گئے
تھے، ان کی اصلاح کے پیش نظر ایک مکتوب لکھا، جو ’’فتنۂ مودودیت‘‘ کے نام
سے ایک رسالے کی شکل میں شائع ہو گیا ہے۔
مودودی صاحب کی بہت چیزیں پسند بھی آئیں اور بہت ناپسند بھی، لیکن عرصہ
دراز تک جی نہ چاہا کہ ان کو مجروح کیا جائے اور اس کے جدید انداز بیان سے
جی چاہتا تھا کہ جدید نسل فائدہ اٹھائے، اگرچہ بعض اوقات ان کی تحریرات میں
ناقابل برداشت باتیں بھی آئیں، لیکن دینی مصلحت کے پیش نظر برداشت کرتا رہا
اور خاموش رہا، لیکن اتنا اندازہ نہ تھا کہ یہ فتنہ عالم گیر صورت اختیار
کرے گا اور اکثر عرب ممالک میں یہ فتنہ بری صورت اختیار کرے گا اور دن بدن
ان کے شاہکار قلم سے نئے نئے شگوفے پھوٹتے رہیں گے، صحابہ کرام رضوان اﷲ
علیہم اجمعین اور انبیائے کرام علیہم السلام کے حق میں ناشائستہ الفاظ
استعمال ہوں گے، آخر ’’تفہیم القرآن‘‘ اور ’’خلافت وملوکیت‘‘ اور ’’ترجمان
القرآن‘‘ میں روز بروز ایسی چیزیں نظر آئیں کہ اب معلوم ہوا کہ بلاشبہ ان
کی تحریرات وتالیفات عہد حاضر کا سب سے بڑا فتنہ ہے، اگرچہ مفید ابحاث بھی
آگئی ہیں، ’’وإثمہما أکبر من نفعہما‘‘ والی بات ہے، اب حالت یہاں تک پہنچ
گئی ہے کہ سکوت جرم عظیم معلوم ہوتا ہے اور چالیس سال، جو مجرمانہ سکوت
کیا، اس پر بھی افسوس ہوا اور اب وقت آگیا ہے کہ بلا خوف لومۃ لائم، الف سے
یاء تک، ان کی تالیفات وتحریرات کو مطالعہ کرکے، جو حق وانصاف ودین کی
حفاظت کا تقاضا ہو، وہ پورا کیا جائے، واﷲ سبحانہ ولی التوفیق۔ (چناں چہ
’’الأستاذ المودودي وشيء من حیاتہ وأفکارہ‘‘ نامی کتاب لکھ کر حضرت بنوری
نے یہ تقاضا پورا فرمایا۔)
رجب المرجب، ۱۳۹۶ھ۔اگست۱۹۷۶ء۔ [بصائر وعبر: ۲۹۹/۱۔۲۰۳]
اہل علم واہل قلم حضرات کا فریضہ:
تحریر وتقریر میں کم مائیگی، عربی استعداد سے شدبد کے فقدان کے باوجود کچھ
لوگ حرفت وپیشے کے طور پر لکھاری بنتے ہیں، ایسے میں اصحاب استعداد اور
رسوخ فی العلم والے علما کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ دیکھیے! حضرت کیا فرما
رہے ہیں:۔
’’افسوس کہ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں، جس میں ارباب علم اپنے علمی
تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں اور ارباب جہل علمی مسائل میں دخل دے رہے
ہیں، ہر صاحبِ قلم، صاحبِ علم بننے کا مدعی ہے، کتابوں کے اردو تراجم نے اس
فتنے کو فروغ اور وسعت دی ہے، اردو تراجم جہاں ایک اصلاحی، مفید خدمات
انجام دے سکتے تھے، افسوس کہ عصر حاضر میں ’’وإثمہما أکبر من نفعہما‘‘ کا
مصداق بنتے جا رہے ہیں، جن کا ضرر ونقصان، فائدے ونفع سے کہیں بڑھ گیا ہے۔
دور حاضر جہاں مختلف فتنوں کی آماج گاہ ہے، وہاں قلم کا فتنہ شاید سب سے
گویا سبقت لے جا رہا ہے، علمی میدان ان حضرات کا نہ صرف بہت محدود وتنگ ہے،
بلکہ ہے ہی نہیں۔ (عربی ادب سے بے خبری کے عالم میں) اردو کے تراجم سے کچھ
سطحی معلومات حاصل کر کے ہر شخص دور حاضر کا مجتہد بنتا جا رہا ہے اور
’’إعجاب کل ذي رأي برأیہ‘‘ (ہر شخص کو اپنی رائے پسند ہے) اس فتنے نے مزید
’’کریلا اور پھر نیم چڑھا‘‘ والی مثل صادق کردی ہے اور ناشرین نے محض
تجارتی مصالح کے خیال سے سستے داموں عالم نما جاہلوں سے تراجم کرا کر فتنے
کو اور بڑھا دیا ہے، غرض کہ فتنوں کا دور ہے، ہر طرح کے فتنے اور ہر طرف سے
فتنے ہی فتنے نظر آتے ہیں، ان فتنوں کے سد باب کے لیے مستقل اداروں کی
ضرورت ہے، جن کا اساسی مقصود صرف یہی ہو کہ ان تراجم کا جائزہ لیا جائے اور
اخبارات میں شائع ہونے والے مقامات کی نگرانی ہو، ارباب جرائد ومجلات کا
مقصد محض تجارت ہے اور ارباب قلم کا مقصد محض شہرت ہے، یا پھر کچھ مادی
منفعت بھی پیش نظر ہے……۔‘‘ [بصائر وعبر: ۳۱۸/۱]․
اہل بصیرت جانتے ہیں کہ فقہ اسلامی دستور کی صورت میں امت کی راہ نمائی کے
لیے موجود ہے، لیکن اس سے صحیح استفادہ عربی کے ماہرین ہی کر سکتے ہیں ہر
ایرا غیرا نتھو خیرا نہیں، حضرت بنوری اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے
ہیں:
’’ہمارے ان حضرات کا دوسرا بہانہ یہ ہے کہ اسلامی قانون بنا بنایا موجود
نہیں، مرتب کرنے میں ایک بڑا عرصہ چاہیے۔ لیکن غور کرنے سے یہ بات بالکل
واضح ہو جاتی ہے کہ یہ محض دل فریب دھوکا ہے۔
اولاً۔ ’’اسلامی قانون‘‘ ’’فقہ اسلامی‘‘ کی صورت میں مدون موجود ہے، جو شخص
عربی میں مہارت اور قانون سے مناسبت رکھتا ہو، وہ آسانی سے ہر حادثے کا
شرعی حکم معلوم کر سکتا ہے اور اسے واقعات پر تطبیق دے سکتا ہے اور اگر
ہمارے قانون دانوں کی عربی سے ناواقفیت کو عذر قرار دیا جائے، تو یہ بھی
صحیح نہیں، کیوں کہ جہاں آپ ایل۔ایل۔بی۔ کی شرط عائد کرتے ہیں، وہاں عربی
فقہ میں مہارت کو کیوں شرط قرار نہیں دیتے؟ علاوہ ازیں فقہ اسلامی کی تمام
اہم کتابوں کے تراجم اردو میں موجود ہیں، کنز الدقائق، ہدایہ، شرح وقایہ،
عالمگیری وغیرہ وغیرہ کی تمام کتابیں اردو میں منتقل ہو گئی ہیں اور بعض
اہم کتابوں کے انگریزی تراجم بھی دست یاب ہیں۔
ثانیاً۔ اگر مقصد یہ ہے کہ اسلامی دفعات پر مرتب شدہ موجود، موجودہ قوانین
کے مرکز (کی جگہ) پر ہونا چاہیے تو اس پر بھی کسی قدر کام ہو چکا ہے، ترکی
میں سلطان عبدالحمید خان کے دور میں ’’المجلۃ العدلیۃ‘‘ کے نام سے دفعات پر
ترتیب شدہ مواد موجود ہے، افغانستان میں ’’تمسک القضاۃ الأمانیۃ؟؟‘‘ اور
’’تشکیلات جزا عمومی افغانستان‘‘ کے نام سے مجموعے موجود ہیں، ان کتابوں کو
اردو یا انگریزی میں منتقل کرنے میں کتنا عرصہ لگے گا، (ظاہر ہے) مختصر
عرصے میں یہ سب کام ہو سکتا ہے۔
ثالثاً۔ اگر اسلامی فقہ کسی طرح بھی ہمارے قانون دانوں کے بس کا روگ نہیں
تو کم از کم اتنا ہی کر لیا جائے کہ ہر محکمے میں ایک مستند عالم دین کا
تقرر ہو اور اس کی رائے واعانت سے شرعی حکم معلوم کرکے نافذ کیا جائے،
بہرحال اگر خدا کا خوف ہو اور آخرت کا محاسبہ پیش نظر ہو اور اس ملک کو
صحیح اسلامی مملکت بنانا مقصود ہو تو پھر نہ اسلامی قانون نافذ کرنا مشکل
ہے، نہ مرتب قانون کو اردو میں منتقل کرنا دشوار، نیت درست سب آسان۔‘‘
(ذی الحجہ۱۳۸۹ھ فروری ۱۹۷۰ء) [بصائر وعبر: ۳۳۲/۱۔۳۳۳]․
|
|