خدائی خدمت گاران ؛ باچا خان بابا اور عبدالستار ایدھی

 لمبی تمہد میں جائے بغیر جناب عبدالستار ایدھی کے بارے میں کچھ عوام کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں ۔عبدالستار ایدھی کے مشن کے بارے میں ، ان کی زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں ذرائع ابلاغ نے تفصیل سے ذکر کیا ، لیکن اگر ذکر نہیں کیا تو ، یہ نہیں کیا کہ عبدالستار ایدھی کی یہ عظیم شخصیت کس سے متاثرہ تھی ۔ بلدیہ ٹاؤن میں عوامی نیشنل پارٹی کا جلسہ تھا اور اس میں شرکت کیلئے ریلیاں کھارا در مٹیھادر سے گذر کر جا رہی تھیں ، سرخ انقلابی پر چموں کی بہار تھی۔ ہر طرف سرخ پرچم ہی پرچم تھے ۔اے این پی کے جلسہ عام میں ایک یکدم ہل چل مچ گئی ، کارکنان کو علم ہوا کہ عبدالستار ایدھی تشریف لائے ہیں ، کارکنان کا جوش و خروش اپنے عروج پر تھا ، ان کے خطاب کیلئے مطالبات کا شور آسمان کا سینہ چاک کر رہے تھے۔ بالاآخرعبدالستار ایدھی اسٹیج پر آئے ، تو سب کارکنان نے کھڑے ہوکر استقبال کیا ، سب ہم تن گوش ہوئے ، ایدھی کی لرزتی آواز کسی شیر کی گھن گرج سے زیادہ دل کو گرما دینے والی تھی ۔ انھوں نے وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک بہت بڑی ریلی میرے دفتر کے سامنے سے گذری، میں نے سرخ پرچم دیکھے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور اپنی بیماری کے باوجود میں بن بلائے ریلی میں شریک ہوگیا ۔ اب بھلا سورج کس طرح چھپ سکتا تھا ، کارکنان نے انھیں دیکھ لیا ، احترام و تعظیم کے ساتھ اپنی پلکوں میں بیٹھا کر انھیں اسٹیج پر لایا گیا۔جناح کیپ پہنے ایدھی ، انسانیت کے مسیحا گویا تھا کہ ، میں پختون قوم کو پسند کرتا ہوں ، کیونکہ یہ سچے اور بہادر ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں باچا خان بابا کی شخصیت سے متاثر ہوں ، میں نے اپنے فلاحی کام باچا خان کی شخصیت سے متاثر ہو کر شروع کئے۔مجھے پہلا امن ایوارڈ بھی باچا خان امن ایوارڈ ملا۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس پہننے کے لئے دو کپڑے جوڑے ہیں ، جو باچا خان بابا کی شخصیت سے متاثر ہوکر کھدر کے بنائے ہیں ، ایک جوڑا میلا ہوجاتا ، تو دوسرا پہن لیتا اور میلے جوڑے کو خود دھو لیتا ہوں ، کیونکہ باچا خان بابا کے پاس بھی زندگی بھر دو جوڑے تھے ۔ جب وہ عظیم شخصیت دو جوڑوں میں انسانیت کی خدمت کرسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کرسکتا ۔ اس لئے میں بھی باچا خان بابا کی طرح صرف دو جوڑے پہنتا ہوں ، میں جتنے بھی فلاحی کام کررہا ہوں ، یہ سب باچا خان کی شخصیت سے متاثر ہو کر کر رہا ہوں ۔عبدالستار ایدھی نے کہا کہ میں ولی خان بابا ، اور خان عبدالغفار خان بابا عرف باچا خان بابا کو اچھی طرح جانتا ہوں ، تم لوگ ایسے اتنا نہیں جانتے جتنا میں جانتا ہوں ، وہ انسانیت و خدمت کے عظیم انسان تھے ، میں ان کا شاگرد ہوں۔دنیا مجھے ہیرو سمجھتی ہے لیکن اصل ہیرو باچا خان تھے ۔ان کی چھوٹی سے تقریر پوری دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھیں ، لیکن ہمارے الیکڑونک میڈیا کی آنکھیں تعصب نے بند کی ہوئی تھیں ۔ انھوں نے ایدھی کی خدمات کے اعتراف میں مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہوئے عبدالستار ایدھی کی خدمت کی اہم وجہ بتانے سے عوام کو بے خبر رکھنے کی کوشش کی۔لیکن آنکھیں بند کرنے سے سورج کی روشنی چھپ نہیں سکتی ۔ سوشل میڈیا میں عبدالستار ایدھی کے دشمنوں نے ایدھی کی شخصیت متنازعہ بنانے کیلئے انھیں قادیانی نواز ثابت کی کوشش کی گئی۔ ان کا نماز جنازہ پڑھنے سے مولانا مفتی منیب الرحمن نے درخواست کے باوجود انکار کردیا ۔اگر معاملہ قندیل بلوچ کا ہوتا تو یہ نام نہاد علما سو اپنے ٹوپی رکھ سیلفی بنانے کیلئے ہر اخلاقی حدود کراس کرسکتے ہیں ۔ شراب کے نشے میں آیات قرآنی آن ائیر پڑھ سکتے ہیں کہ میں تو میٹھا پان کھا رہا تھا ۔ایک مسلمان کو کافر بنانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتے ۔ لیکن یہاں معاملہ عبدالستار ایدھی کا تھا ، کیونکہ ان کو ملنے والے چندے ، فطرے اور زکوۃ ایدھی ٹرسٹ کو ملا کرتے تھے ، انھیں دھمکیاں دیں جاتیں تھیں ۔لاشیں اٹھانے نہیں دیں جاتیں تھیں ، ان کی نقالی کرتے ہوئے ، ان جیسا لباس پہن کر داڑھی رکھ ، عوام کو بے وقوف بنایا جاتا تھا ۔ کراچی کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جب کراچی کے گلی کوچوں سے نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے ہونے والوں کی لاشیں اٹھائے نہیں دی جاتی تھی ، تو ایدھی ہی تھا جو لاشیں اٹھا کر لاتا تھا ، ناجائز تعلقات سے پیدا ہونے والے بچوں کا والد ایدھی بن جاتا تھا ، انھوں نے اپنی خدمت کا سلسلہ وقت بھی نہیں روکا ، جب ان کے بچے کو ان کے سینٹر میں کام کرنے والی ایک دائی نے زندہ جلا دیا ۔ انھوں نے اپنی خدمت کا سلسلہ اس وقت بھی نہیں روکا ، جب لسانی تنظیم کی جانب سے انھیں ملک بدر کیا گیا ۔ انھوں نے خدمت کا سلسلہ تمام تر دھمکیوں کے باوجود جاری رکھا ۔ ان کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کیلئے ہر قسم کی گھٹیا کوشش کی گئی ، لیکن ایک مسلمان کو کافر بنانا تو ہم نے ہی سیکھا ہے۔ باچا خان بابا نے جب اپنے گاؤں اتمانزئی میں پہلے مدرسے کی بنیاد رکھی تو انگریز ہی نہیں بلککہ ان کے قوم کے لوگ بھی ان سے ناراض ہوگئے ، ان کے خلاف کفر کے فتوی جاری کردیئے گئے ، انھوں نے مظلوم قوم کے حقوق کیلئے جدوجہد شروع کی ، تو کانگریس نے انھیں دھوکا دیا ، انھوں قائد اعظم سے ملنے نہیں دیا گیا ، قیام پاکستان کے بعد پہلی جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوا اور گورنر راج لگایا گیا تو باچا خان بابا کی حکومت ، ڈاکٹر خانصاب کی تھی۔صوبہ سرحد کو سندھ کی طرح حق اختیار استعمال کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔1940 کی قرار داد لاہور کے مطابق جہاں جہاں مسلم اکثریت کے علاقے تھے ، وہاں مسلم حکومتیں بنانے کی قرارداد خود مسلم لیگ نے منظور کی ۔ لیکن پھر اس قرار داد کے برخلاف عمل کیا گیا ، بلا شبہ باچا خان بٹوارہ ہندوستان کے مخالف تھے ، کیونکہ مسلم تقسیم ہو رہے تھے ۔ لیکن جب فیصلہ ہوگیا تو انھوں نے انگریز حکومت سے مطالبہ کیا کہ صوبہ سرحد کی اسمبلی کو بھی سندھ اسمبلی کی طرح ووٹ کا اختیار دیا جائے ، لیکن خدمت گار تحریک کی حکومت ہونے کے سبب مسلم لیگ کو ڈر تھا کہ ان کے خلاف ووٹ چلا نہ جائے ، انھوں نے ریفرنڈم کرانے کا منصوبہ دے دیا ، باچا خان نے احتجاج کیا ، لیکن پھر کہا کہ صوبہ سرحد کی عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ پاکستان ، ہندوستان یا اپنی آزاد مملکت میں رہنے کا فیصلہ کرلیں ، لیکن ماونٹ بیٹن ،ورکنگ باونڈری کمیشن میں فیصلہ ہوچکا تھا کہ پاکستان یا ہندوستان۔اس لئے باچا خان بابا نے قرارداد لاہور جیسے قرار پاکستان کا نام دیا گیا ، اس کی منظوری اور اس کے برخلاف عمل پر ریفرنڈم سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ۔ فاٹا کے علاقے ، کے عوام نے حصہ نہیں لیا ، سوات پاکستان کا حصہ نہیں تھے،صرف چند ڈویژن نے ریفرنڈم میں ووٹ کاسٹ کئے ۔ ظاہر ہے کہ جب 80فیصد اکثریت ووٹ نہیں ڈالے گی تو فیصلہ وہی آئے گا ، جو ڈبوں میں بند آتا ہے ، لیکن اس کے باوجود باچا خان بابا نے پاکستان کو تسلیم کرلیا ، قانون ساز اسمبلی میں پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا ، آزاد پختونستان کے نعرے سے دستبردار ہوگئے ، صوبے کے حقوق کیلئے جدوجہد شروع کردی ، انھیں انگریز نے جیلوں میں اتنا عرصہ قید نہیں رکھا ، جتنا پاکستان کی حکومت نے رکھا ، انھوں نے عدالت میں ایک پاکستان سے حب الوطنی کا تاریخی بیان ریکارڈ کرایا ۔ ہندوستان کی انگریزوں سے آزادی کیلئے پختونوں کی جان و مال کی قربانی کا ذکر کیا ۔ ہزاروں پختونوں کو احتجاجی تحاریک میں شہید کیا گیا ، نامور شخصیات نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لئے مسلح جدوجہد کی ۔ لیکن ہماری تاریخی کتابوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں ، باچا خان بابا کو پاکستانی ہونے کے باوجودد غدار قرار دیا گیا ۔ ان کی مزار کا افغانستان میں ہونا ثبوت قرار دیا جاتا ہے ۔ سینکڑوں ایسے تحریک آزادی کے مجاہدین ہیں جو اپنی سرزمین پر اس لئے دفن نہیں ہوئے، کیونکہ ان کی خواہش تھی ، ایک ایک فرد کا نام لینے سے ایک صخیم کتاب مرتب ہوجائے گی۔عبدالستار ایدھی رحمتہ اﷲ علیہ کیونکہ باچا خان بابا کے پیروکار تھے ، اس لئے انھیں بھی ، اپنے پیش رو کے ساتھ محبت کی پاداش میں گمراہ کن پروپیگنڈا کا شکار بنانے کی کوشش کی گئی ، ان کا جنازہ پڑھنے سے انکار کردیا گیا ،۔ پاکستان افواج کے جوانوں کے بجائے کتوں کو شہید قرار دینے والے بھی نہیں آئے ، تبدیلی کا نعرہ اور خدمت کادعوی کرنے والے بھی جنازے میں شرکت کرنے سے شرمائے۔لیکن عبدالستار ایدھی رحمتہ اﷲ علیہ کو ان کی ضرورت ، نہ پہلے کبھی تھی اور نہ مرنے کے بعد رہی۔ عظیم الشان رخصتی ہوئی ، جس طرح باچا خان بابا کی ہوئی تھی۔ عظیم انسانوں کو کوتاہ قد و سوچ رکھنے والوں کی ضرورت نہیں ہوتے ، ایدھی اور باچا خان سچے مسلمان و محب الوطن پاکستانی تھے۔آج را کے ایجنٹ سچے پاکستانی کہلائے جاتے ہیں ، لیکن محب الوطن اور جنگ آزادی کے سچے پیروکاروں کو غدار کہا جاتا ہے۔لیکن خدائی خدمت گاروں کو کسی سے سٹریفیکٹ لینے کی ضرورت پہلے کبی تھی اور انہ اب ہے ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744675 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.