بھارت نے ایک بار پھر کشمیریوں کے خلاف
اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ بھارتی فورسز نہتے عوام پر گولیاں چلا رہے ہیں۔
کشمیری اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ کشمیریوں کی جنگ بھارت کے کالے
قوانین کے خلاف نہیں بلکہ وہ اپنی مرضی کا مستقبل چاہتے ہیں۔ وہ آزادی سے
رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کا عزم رکھتے ہیں۔
جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار بھارت نے ان کی جمہوریت چھین رکھی ہے۔ اس نے
پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ بندوق کی نوک پر عوام کو قید کیا گیا ہے۔
مگر کشمیری نسل در نسل آزادی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ ہمیشہ بر سر پیکار
رہے ہیں۔ انھوں نے دنیا مین سب سے زیادہ قیمتی عزت اور جان کی قربانی دی ہے۔
اس سے بڑھ کر ان کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے۔ مگر بھارت مظالم سے آزادی کی
آواز کو دبا رہا ہے۔
دنیا پر باور کیا جا رہا ہے کہ جیسے مسئلہ کشمیر یا تو پاکستان اور بھارت
کا اندرونی مسلہ ہے یا یہ انسانی حقوق کا ایشو ہے۔ بھارت اسے دو طرفہ مسلہ
بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ وہ
آزاد کشمیر پر بھی اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے۔جبکہ بھارت نے دنیا کے سامنے
کشمیر میں رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔ وہ اپنے وعدے سے مکر چکا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیر کو اپنا اندرونی مسلہ قرار دیتا ہے۔ بھارت کا
موقف متضاد ہے۔ کبھی وہ کشمیر کو اپنا اندرونی مسلہ کہتا ہے، کبھی پاک
بھارت کو دوطرفہ مسلہ قرار دیتا ہے اور کبھی اسے متنازعہ ایشو تسلیم کر
لیتا ہے۔ یہ سب حالات پر منحصر ہے۔ جب دہلی پر دباؤ بڑھتا ہے تو کشمیر کو
پاک بھارت کا دو طرفہ مسلہ قرار دیا جاتا ہے۔ جب حالات بہتر ہوں تو پھر اسے
اپنا اندرونی ایشو بان کر پیش کرتا ہے۔ پاکستان کوئی موقف ظاہر کرے تو
بھارت اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کرتا ہے۔ بات چیت کے
دروازے بند کر دیتا ہے۔ جب حالات کشیدہ ہوں تو آل پارٹیز وفد کشمیر روانہ
کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث شروع کی جاتی ہے۔ 2010میں بھی یہی ہوا۔
کشمیر میں مزاحمت نئے انداز سے شروع ہوئی تو بھارت کی کل جماعتی وفد کشمیر
پہنچ گیا۔ اس سے پہلے حریت کانفرنس سے بات چیت شروع کی گئی۔ یہ سب وقت
گزاری کے حربے ہیں۔ دہلی نے وقت کے اپنے سب سے بڑے وفادار شیخ محمد عبداﷲ
کو بھی غدار قرار دے کر جیل بھر دیا۔ بھارت کشمیر کی اندرونی خود مختاری کے
مطالبات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ جب دہلی کے حکمرانوں سے بات چیت
کی بھیک مانگی جائے تو وہ مزید ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وقت نے ثابت
کر دیا ہے کہ مسلہ کشمیر بات چیت سے حل نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ بھارت
مذاکرات کو اہمیت نہیں دیتا۔ اسی وجہ سے وہ تباہ کن اسلحہ جمع کر رہا ہے۔
اس نے خطے میں تباہی پھیلانے والے اسلحہ کی دوڑ شروع کر رکھی ہے۔ ایٹم بم،
میزائل، ایٹمی آبدوزیں، ٹینک ، توپیں، ڈیفنس شیلڈ، جنگی طیارے، سپیس اور
سائیبر وار ٹیکنالوجی کا حصول اسی کی کڑیاں ہیں۔
بھارتی فوج کشمیر میں جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ کشمیری پاکستان اور دنیا سے
توقع رکھتے ہیں کہ وہ عالمی عدالت انصاف میں بھارت پر جنگی جرائم کے مقدمات
قائم کرنے پر توجہ دے گی۔ پاکستان نے پہلی بار بھارت کو گلے سے پکڑنے کی
حکمت عملی اپنائی ہے۔ سب سے پہلے پاک دفتر خارجہ نے کشمیر پر بیان دیا۔ اس
کے بعد بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔
اسلام آباد میں سلامتی کونسل کے مستقل ممبر اور ویٹو پاور ممالک امریکہ،
روس، چین، برطانیہ، فرانس کے سفیروں کو بریفنگ دی گئی۔ جبکہ دنیا بھر میں
پاکستانی سفارتکاروں کو ضروری ہدایات کے لئے اسلام آباد طلب کر لیا ہے۔
او آئی سی کے ارکان سعودی عرب ترکی اور دیگر ممالک سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔
تا کہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کیا جائے۔ بھارت پر سفارتی دباؤ کے
لئے ان کا تعاون طلب کیا گیا۔ او آئی سی مماک میں لاکھوں کی تعداد میں
بھارتی شہری موجود ہیں۔ اگر یہ ممالک توجہ دیں اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں
تو بھارت سفارتی اور معاشی طور پر دباؤ میں آ سکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف
نے مسلہ کشمیر پر غور کرنے کے لئے کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا۔ پارلیمنٹ
کی کشمیر کمیٹی کو بھی متحرک کیا گیا۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے پر
بھی غور کیا جا رہا ہے۔ ہم نے ان کالموں میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں
کشمیر پر بحث کا مطالبہ کیا تھا۔ چین کی مدد سے اقوام متحدہ میں پاکستان کی
مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی مسلہ کشمیر اقوام متحدہ کے مختلف فورمز پر
مسلہ کشمیر اٹھا رہی ہیں۔ جس پر بھارت سیخ پا ہو رہا ہے۔ سلامتی کونسل پر
زوردیا جارہا ہے کہ وہ مسلہ کشمیر کو چیپٹر 7کے تحت لائے۔ جیسے کہ جنوبی
سوڈان میں اس کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ چیپٹر 6کے تحت مسلہ کشمیر کو لانا
بالکل ظلم ہے۔ کیوں کہ مسلہ کے دونوں فریق بات چیت کے لئے متفق نہیں ہیں۔
بھارت دنیا کو ثالت بنانے سے گریز کرتا ہے۔ کیوں کہ اس کا کیس کمزور ہے۔
لیکن بھارت کی فوج کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اس لئے اس قتل عام کو
روکنے کے لئے اقوام متحدہ کو مداخلت کا اختیار حاصل ہے۔ پاکستان دہلی سے
اپنا ہائی کمشنر واپس بلانے کا اعلان کر سکتا ہے۔ یہ بھارت کے لئے سیٹ بیک
ہو گا۔ کشمیر میں امدادی سامان پہنچانے، ادویات اور ڈاکٹرز روانہ کرنے کے
لئے اقوام متحدہ سے رجوع کیا جا نا چاہیئے۔ اقوام متھدہ کے فوجی مبصرین کی
تعداد میں اضافہ کر کے کشمیر کی جنگ بندی لائن کو امدادی سامان اور سرینگر
راولپنڈی روڈ کا کھولا جانا بھی انتہائی ضروری ہے تا کہ نصف صدی سے بھی
زیادہ عرصہ بچھڑے کشمیر آزادی سے ملاپ کر سکیں۔ اور لاکھوں مہاجرین گھروں
کو واپس جا سکیں۔ جنھیں بھارتی فورسز نے ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔ بھارتی
فوج کے کشمیر سے انخلاء تک ان کی واپسی ناممکن ہے۔
پاکستان کی تحریک پر او آئی سی کے آزاد انسانی حقوق سے متعلق کمیشن نے بھی
بھارت سے فوری طور پر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرنے اور
کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت نے چالیس
سے زیادہ کشمیریوں کو قتل کر دیا ہے۔ ایک سو سے زیادہ نوجوانوں کو مہلک
اسلحہ سے اندھا بنا دیا ہے۔ اڑھائی ہزار کے قریب شہری زخمی ہیں۔ ہسپتالوں
میں آنسولانے والی ار دیگر گیسیں استعمال ہو رہی ہیں۔ عوام کو ایمرجنسی
سروسز اور طبی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے۔
پاکستان مطالبہ کر رہا کہ بھارت کشمیرمیں رائے شماری کرائے جیسا کہ اس نے
سلامتی کونسل میں وعدہ کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب
سے مسلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا پاکستان نے اسی وجہ سے خیر مقدم کیا ہے
کہ پاکستان اقوام متحدہ کے تحت کشمیر میں رائے شماری کا موقف پیش کر رہا
ہے۔ جس کا بھارتی حکمرانوں نے وعدہ کیا ہوا ہے۔ کشمیر میں رائے شماری کے
مطالبے کو رد کرنے کے لئے بھارت کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ تا کہ اس
کا کشمیر پر فوجی قبضہ قائم رہ سکے۔یہی وجہ ہے وہ کشمیر میں زیادہ سے زیادہ
فوجی چھاؤنیاں تعمیر کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ فوج کے لئے رہائشی کالونیاں بھی
قائم کی جا رہی ہیں۔اس لئے اقوام متحدہ کے تحت کشمیر میں رائے شماری کے لئے
بھارت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
|