فرقہ پرستی کا بڑھتا عفریت اور مسلمان

اس واقعے کو ساٹھ برس ہوچکے ہیں اس عرصے میں ہندوفرقہ پرستی کس قدر طاقت ور ہوچکی ہے اس نے اپنی جارحانہ حکمت عملی اور طاقت سے آج ملک کے اقتدار اعلی ٰ پر تسلط قائم کرلیا ہے، اس کے دامن سے فرقہ پرستی کی ایسی ایسی شکلیں وجود میں آرہی ہیں جو کسی وقت اور کسی لمحہ ملک کے امن و امان کو خاکستر کرسکتی ہیں ،بلکہ کرتی جارہی ہیں
 چھٹی دہائی میں جب کیرالامیں کمیونسٹوں کا زور بے حد بڑھ گیا تھا اور کانگریس مسلسل ناکامیوں سے د وچار ہونے لگی، پارلیمانی ،صوبائی یہاں تک کے لوکل باڈیز کےانتخابات میں بھی اسے سخت ہزیمتوںکاسامنا کرنا پڑا ،تب کیرالا کانگریس ہائی کمانڈ نے فوری طور پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا ،جس کی صدارت اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرونے کی تھی ۔ اجلاس میں تقریبا ً سبھی مقررین نے کمیونسٹ پارٹی کی مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت پر تشویش کا اظہارکیا اور یہ تجویز رکھی کہ کانگریس کےآگے بڑھنے میں چونکہ کمیونسٹ پارٹی زبردست حریف ہے اس لئے اس کو کمزورکیا جانا ضروری ہے۔ لیڈروں کے ایک جیسے بیانات اور کمینٹ سن کرپنڈت نہروپیچ و تاب کھاتے رہے ،بالآخر جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ،اس وقت نہرو جی تقریبا ً چیخ پڑنے والے انداز میں بولے، کمیونسٹ، کمیونسٹ، کمیونسٹ۔ آخر آپ لوگوں کو کمیونسٹوں سے اس قدر خطرہ کیوں محسوس ہورہا ہے ، خطرہ کمیونسٹوںسے نہیں ،فی الوقت ملک کو خطرہ بائیں بازو کی اس کٹر ہندو فرقہ پرستی سے ہے ،جس کی متعصبانہ ذہنیت روز بروز طاقت ور ہوتی جارہی ہے ۔میری آنکھیں آنے والےان ایام اور حالات کو دیکھ رہی ہیں، جب ہندوفرقہ پرستی عفریت بن کر اس ملک کی سالمیت ، یکجہتی ، آپسی بھائی چارے اوررواداری کو نگل جائے گی ، ہمیں بڑی ہوشیاری اور ذمہ داری سے اس غالب ہورہی ملک دشمن ذہنیت کو توڑنے کی فکر کرنی چاہئے،اورتمام سیکولر ذہن لوگو ں اور جماعتوں کو اس کے خلاف پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے ۔

اس واقعے کو ساٹھ برس ہوچکے ہیں اس عرصے میں ہندوفرقہ پرستی کس قدر طاقت ور ہوچکی ہے اس نے اپنی جارحانہ حکمت عملی اور طاقت سے آج ملک کے اقتدار اعلی ٰ پر تسلط قائم کرلیا ہے، اس کے دامن سے فرقہ پرستی کی ایسی ایسی شکلیں وجود میں آرہی ہیں جو کسی وقت اور کسی لمحہ ملک کے امن و امان کو خاکستر کرسکتی ہیں ،بلکہ کرتی جارہی ہیں ۔ بائیں بازو کی بنیاد پرست تنظیموں کے حوصلے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز بیانات دینے میںبھی ایک دوسرے پر سبقت لے جارہی ہیں ، ایک بیان کا زہر ابھی مندمل نہیں ہوپاتا کہ دوسرا اس سے کہیں زیادہ زہریلا بیان سامنے آجاتا ہے جس سے ملک کی فضا ؤں میں زہر ہی زہرپھیلتا جارہا ہے ۔

عجیب بات ہے کہ وزیر اعظم سمیت حکومت کا پورا عملہ ان بیانا ت کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا ہے ، جیسے یہ کوئی واقعہ ہی نہ ہو ، کچھ عرصہ قبل بی جے پی اور بائیں بازو کی بنیاد پرست تنظیموں نے ہندی اور تمل فلوں کے مشہور اسٹار رجنی کانت کواس بات کیلئے دھمکی دی تھی کہ وہ ٹیپوسلطان کی زندگی پر بننے والی اشوک کینی کی اس فلم میں کام نہ کریں، ورنہ انجام سوچ لیں ۔ان تنظیموں نے شیر میسورپر یہ کہہ کر الزام تراشی کی تھی کہ ٹیپو تمل مخالف ہی نہیں بلکہ ہندومخالف حکمراں تھا ،ماضی میں اس نے ہندوؤں پر بہت مظالم ڈھائے ہیں اور رجنی کانت کو کسی ایسی فلم میں کام نہیں کرنا چاہئے جو ٹیپو سلطان کو ایک قومی ہیرو کے طور پر پیش کرتی ہو ۔اس وقت بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر ایل گنیشن نے کہاتھا کہ ہمیں ٹیپو سلطان کی ہندودشمنی کا علم ہے اور ہم یہ قطعی برداشت نہیں کرسکتے کہ بیرونی حملہ آوروں کی تعریف کی جائے۔ انہوں نے ہمارے کلچر کو بری طرح سے تباہ کیا ہے۔ ایک اور ہندتووادی لیڈر رام گوپالن نے کہا کہ ٹیپوسلطان نے تملوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے ہیں اور اگر اس ظالم کی تعریف میں یہ فلم بنتی ہے تو یہ تملوں کی بے عزتی اور ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی ۔ایک اورہندوتنظیم مکل کاچی نے تو ٹیپوسلطان کو لٹیرا تک کہہ دیا تھا جس نے ملک کو ہرطرح سے لوٹا اور برباد کیا ہے ۔

ابھی حال ہی میں مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک پر دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے الزامات لگائے گئے اور ان پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ، ان کی تمام مذہبی سرگرمیوں پر روک لگائی جارہی ہے۔ممبئی ( ڈونگری ) میں واقع ان کے دفتر پرپولس کا سخت پہرہ لگا ہوا ہے اور ان کی تمام تر نقل و حرکات کی نگرانی ہورہی ہے ۔ آزادی ٔ اظہار کا دم بھرنے والے اب یہاں کیوں خاموش ہیں ۔کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک اس ضمن میں نہیں آتےاور کیا انہیں اس آزادی کا حق نہیں کہ وہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں ۔حیرت انگیز بات یہ بھی سنتے چلیں کہ ذاکر نائیک کے خلاف ابھی تک کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے ، اس کے باوجود ان کا ناطقہ بند کرنے کی کوششیں سرکاری سطح پر کی جارہی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس ضمن میں میڈیا اس قدر گھناؤنا رول ادا کررہا ہے جو اس کی تعریف کے بالکل برخلاف ہے ۔ابھی گذشتہ دنوں سادھوی پراچی نے ذاکر نائیک کا سر کاٹنے والے کو پچاس لاکھ روپئے انعام دینے کی بات کی تھی۔اب کیا حکومت کا یہی ذمہ دا رانہ کردار ہے کہ وہ کسی ایسے شخص پر جس کی بین الاقوامی شناخت کسی ایسے عالم دین کی ہو جس کی تقریروں میں ہمیشہ امن و آشتی کی بات کہی گئی ہو اورجوہمیشہ آتنک واداور دہشت گردی کے خلاف رہا ہو ۔اس طرح بغیر کسی ثبوت کےپابندیاں لگائے اور اسے ہراساں کرے ۔

اس طرح کی ہذیانی باتیں ہندوتنظیموں میں عام ہوگئی ہیں ، ان کے لیڈران جو جی میں آتا ہے بول دیتے ہیں،کیونکہ انہیں نہ تو کسی بازپرس کا خطرہ ہے نہ ہی گرفتاری کا کوئی ڈر ۔کچھ دنوںقبل ہندو مہاسبھا کے رکن کملیش تیواری کی پیغمبر اسلام محمد الرسول اللہ صلی علیہ وسلم کی شان اقدس میں کی جانے والی دریدہ دہنی نے پورے عالم اسلام کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا تھا جس کے خلاف ملک کے بیشتر علاقوں میں پرامن احتجاج کئے گئے لیکن مرکزی حکومت اور وزیراعظم کی جانب سے اس دریدہ دہن انسان کو کوئی تنبیہ کی گئی نہ ہی مسلمانوں کو کوئی تیقن ہی دلایا گیا کہ آئندہ اس طرح کے دل آزاری کے واقعات نہیں ہوں گے ۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ٹیپوسلطان نے ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کو کبھی پسند نہیں کیا اور بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے کچھ اپنوں کی ہی بے وفائی اور غداری کے سبب قلعے کے بند دروازے کے باہر ہی شہید ہوگئے ۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ شہادت کےبعد بھی انگریز فوجی افسران ہمت نہیں کرپارہے تھے کہ وہ سلطان کے قریب جاسکیں۔کیونکہ ان پر سلطان کا خوف و دبدبہ پوری طرح سے غالب تھا ۔یہی سبب ہے کہ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریز کمانڈر نے کہا تھا کہ اب ہمیں ہندوستان کو فتح کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ، تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس حکمراں کے دورمیں ہندومسلم سبھی کو یکساں انصاف حاصل تھا ، اس نے مندروں کو جاگیریں دیں اور اس کے دور حکومت میں ہندوؤں پر کوئی جبر نہیں کیا گیا ۔ہندوتنظیمیں تاریخ کو تبدیل کرنے یا مسخ کرنے کا کام برسوں سے کررہی ہیں ۔ایسا نہیں کہ بی جے پی کے دوراقتدار سے یہ کام شروع ہوا ہے بلکہ یہ کام بلا شبہ کانگریس کے دورحکومت سے ہی ہورہا ہے۔ اگر کانگریس سنجیدہ اور مخلص ہوتی اور ووٹ بینک کیلئے ہندو کارڈنہ کھیلتی تواس پر بہت پہلے سے قدغن لگائی جا سکتی تھی اور اگر ایساہو ا ہوتا تو آج فرقہ پرستی کا یہ عفریت اتنا طاقت ور نہ ہوتا ۔

یہی سبب ہے کہ ان تنظیموں کی ہمت بڑھتی گئی اور وہ مسلم سلاطین کو بیرونی حملہ آور اور لٹیرا قرار دے کر ان کی وفاداریوں اور ملکی خدمات پر پردہ ڈالتی رہیں اور ان پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرتی رہیںاور حکومتیںمسلسل خاموش رہیںاور یہی خاموشی ان کے حوصلے بڑھاتی رہی جس کا نتیجہ اس بھیانک صورت میں برآمدہوا کہ آج ملک کی سالمیت اور یکجہتی ہی داؤ پر لگ گئی ہے ۔راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں ارون نہرو اور بوٹا سنگھ جیسے چاپلوس اوربداندیش سیاستدانوں کی شہ پر شلا نیاس کی صورت میں کانگریس نے ہندوکارڈ کھیل کر ہندوؤں کے ووٹ بٹورنے کی کوشش کی، لیکن صد فیصدناکامی کے سو ا کچھ ہاتھ نہ آیا ، ظاہر ہے فصل وہی کاٹے گاجوبوئے گا ۔

ملک کی موجودہ صورتحال بے حد نازک ہوتی جارہی ہے پورا ملک تباہی کے دہانے پر کھڑ ا ہے اور اب وہی کٹر ہندو فرقہ پرستی پورے شباب پر ہے۔ جس کا خدشہ پنڈت جواہر لال نہرونے ۱۹۵۶ء میں کیرالا میں منعقدہ اجلاس میں کیا تھا۔مسلمانوں کو ہر طرح سے ، خاص طور پر مذہبی حوالے سے خوف زدہ اور پریشان کرنے کی مسلسل کوششیں ہورہی ہیں۔ ایسے میں بارود کا ڈھیر کہیں پھٹتا ہے تو سب سے زیادہ مسلمان ہی متاثر ہوتے ہیں ۔ ایسے نازک وقت میں مسلم لیڈران کی ذمہ داریا ں کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ عوامی جذبات کو مشتعل کرنے والی سطحی قیادت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے سنجیدہ اور مدبرانہ قیادت کا مظاہرہ کریں ، یہ وقت جذبات کا نہیں عقل و شعور کا متقاضی ہے اور بار بار ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم بارود کے پھٹ پڑنے سے پہلے ہی اسے ڈیفیوز کردیں ۔ کیا آپ اس کیلئے تیار ہیں ۔
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.