ترکی میں فوجی بغاوت ۔ ہمارے لیے کوئی سبق ہے

ترکی میں عسکری بغاوت یعنی مارشل لا ء نافذ کرنے ، جمہوریت پر شب خور مانے کی کوشش ترکی کے غیور عوام نے ناکام بنا دی۔ ترکی کے عوام کا جمہوریت کے لیے یہ عمل بے مثال ، بہادرانہ و دلیرانہ عمل ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کے لیے تقلید مثال ہے خاص طور پر جن ممالک میں فوجی بغاوتیں ہوتی رہتی ہیں۔ بد قسمتی سے ان ریاستوں میں ہم بھی شامل ہیں۔ پاکستان اپنی آزادی کی 69سالہ (1947ء۔2016ء)تاریخ میں چار مرتبہ مارشل لاء کی کڑوی بہاریں دیکھ چکا ہے ، جنرل ایوب خان(1958۔1971) , اس میں جنرل یحیحیٰ خان کا دور بھی شامل ہے، جنرل ضیاء الحق (4جولائی1988-1977) اور جنرل پرویز مشرف (اکتوبر1999۔2008) وقفے وقفے سے پاکستان پر حکمرانی کرچکے ہیں۔ کسی ایک جنرل کے فوجی اقدام پر، فوجی بغاوت پر، جمہوریت کو پاؤں تلے روندنے پر انہیں کسی بھی قسم کی خاص طور پر عوام کی جانب سے مُزاحَمَت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ہر ایک جنرل نے بڑے آرام سے، سکون کے ساتھ جمہوری حکمرانوں کو ، جمہوریت کا خاتمہ کر کے اپنی حکمرانی کا اعلان فخریہ انداز سے کیا۔ یہی نہیں بلکہ فوجی حکمرانوں کے اس عمل پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ فوجی مداخلت کے آثار و امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے ،حکمرانوں کے خلاف جب بھی تحریک شدو مد سے ہوتی ہے تو فوجی مداخلت کے لیے اصطلاحات مثلاً تیسرے امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے وغیرہ قسم کی باتیں کھلے عام کہی جانے لگتی ہیں۔ آج ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 17جولائی 2016کشمیر کے شہر اسلام گڑھ میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’پاکستان میں فوج آئی تو لوگ خوشیاں منائیں گے ، مٹھائی بانٹی جائیگی اور خوشیاں منائی جائیں گے ‘۔ وجہ انہوں نے کچھ بھی بیان کی ہو موجودہ حکومت میں لاکھ کیڑے نکالے، خرابیاں بیان کی، نواز شریف کے طرز حکمرانی میں سو برائیاں بیان کی، ہوں قومی سطح کے لیڈر کی سوچ اس کے چاہنے والوں میں منتقل ہوتی ہے اور یہ سوچ تمام عوام کی نہ سہی تحریک انصاف کے کارکنوں کی یقینا ہوچکی ہوگی، یہ سوچ کا یہ انداز کسی بی اعتبار سے مناسب نہیں، قومی لیڈر تو عوام کی تربیت کرتا ہے، انہیں صحیح اور غلط راستوں کی کی نشاندھی کرتا ہے۔ اختلاف کس قدر بھی شدید ہو کم از کم جمہوریت کے مقابلے میں فوجی حکمرانی کو ، ڈکٹیٹر کی چھڑی کو، مارشل لاء کو درست کہنا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ عمران خان نے مٹھائی کی بات کے ساتھ جو باتیں نواز شریف اور ان کی حکمرانی کے بارے میں کہیں وہ اپنی جگہ درست ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جنہوریت کو فوج سے نہیں نواز شریف کی بادشاہت سے خطرہ ہے وزیر اعظم باہر جائیں تو ان کی بیٹی شہزادی بن جاتی ہے، قذافی اور صدام بھی عوام کو جواب نہیں دیتے تھے آج نواز شریف بھی عوام کو جواب دینا پسند نہیں کرتے، دونوں کا انجام دنیا کے سامنے ہے، حسنی مبارک کے بچوں کی طرح نواز شریف کے بچوں کے پیسے بھی ملک سے باہر پڑے ہیں، جمہوریت کے نام پر ملک کو لوٹا جارہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ترک قوم سڑکوں پر اس لیے آئی کہ طیب اردوان وہاں خوشحالی لے کر آئے اور ملک کی دولت بڑھائی یہاں ، وہ ملک میں خوحالی لے کر آئے، تعلیم اور عوام کی صحت کی سہولیات کے لیے پیشہ خرچ کیا، ترک صدر نے اپنی عوام کی خدمت کی ار تمام قرضے ختم کیے، ترکی میں عوام کی خدمات کرنے والے حکومت کے ساتھ عوام کھڑے ہوگئے۔ہمارے وزیر اعظم نے اقتداار میں آکر اپنی دولت اور جائیدابڑھائی، نواز شریف نے تین سالوں میں چھ ہزار ارب کا قرضہ چڑھایا، ہر پاکستانی بچہ آج بیس ہزار کا مقروض ہے۔ کپتان کی باتیں میں کچھ وزن نظر آتا ہے، نواز شریف کیوں کہ تیسری بارحکمرانی کر رہے ہیں ، اس وجہ سے بھی اور کچھ ان کے مزاج میں بھی اقتدار کی اہمیت کم سے کم ہوگئی ہے، انہیں یہ اندازہ ہے کہ جب تک پنجاب ان کی گرفت میں ہے ان کی حکمرانی پر حرف نہیں آئے گا اور بے شمار اہم معاملات کو بہت ہی معمولی گردانتے ہیں اور اہمیت نہیں دیتے۔ان کی سابقہ دوبار حکومتیں وقت سے پہلے ہی ختم کی گئیں اب تیسری بار محتاط اور بھونک بھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت تھی لیکن ان کے طرز حکمرانی بتا رہا ہے کہ انہیں کوئی ڈر و خوف نہیں ، لگتا ہے کہ وہ اب جب کہ حکمرانی کا زیادہ وقت گزرچکا ہے کم وقت باقی ہے ، اگر اس بار بھی ان کے اقتدار کا خاتمہ سابقہ ادوار کی مانند ہوجائے تو وہ پھر سے مظلوم بن جائیں گے اور پھر عوام خاص طور پر پنجاب کے عوام انہیں پھر سے اپنے کاندھوں پر بٹھا لیں گے۔

بات ترکی میں فوجی بغاوت اور اس کی ناکامی کی شروع کی تھی بیچ میں کپتان اور نواز شریف صاحب نے بات کہاں سے کہاں پہنچا دی۔ لیکن یہ بھی ضروری تھی۔ ترکی میں فوجی بغاوت کی کئی وجاہات اوپر آچکی ہیں اب انہیں دھرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی ایک مختلف قسم کا ملک ہے، تاریخی اعتبار سے وہاں مذہب سے عقیدت پائی جاتی ہے، ترکی نے سالوں خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی حفاظت اور اسے ترقی دینے میں گزرے ہیں۔ ترکی کی سیاسی، تمدنی، تہذیبی اور مذہبی تاریخ ہے۔اتاترک مصطفی کمال نے ترکی 1922میں جمہوریہ یا ری پبلیکن بنایا لیکن یہ سلطنت دنیا کے نقشہ پر ایسے مقام پر واقعہ ہے جو اہمت کی حامل ہے ۔یہ ایک یوریشائی ملک جو جنوب میں مغربی ایشیاء میں جزیرہ نما انو طولیہ اور جنوب مشرقی یورپ کے علاقے بلقان تک پھیلا ہوا ہے۔ جن میں بلغاریہ، مغرب میں یونان، شمال میں جارجیا، مشرق میں آرمینا، ایران ، مشرق میں عراق اور شام واوقع ہیں۔ اسی طرح شمال میں ملکی سرحدیں بحیرہ اسود اور مغرب میں بحیرہ روم ہے۔ اس طرح ترکی ایس ملک ہے جس کی سرحدیں آٹھ ملکوں سے ملتی ہیں۔ اس اعتبار سے اس ملک کے عوام اور یہاں کے حکمرنوں کاخاص مزاج اور منفرد سوچ پائی جاتی ہے۔

اخباری اور ٹی وی خبروں کے مطابق ترک عوام فوجی باغیوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے ، لوگوں نے تینکوں کے سامنے سینے تان لیے، جانیں دے کر فوجی ٹولے کو پسپہ ہونے پر مجبور کردیا اورجمہوریت کے خلاف سازش کو ناکام بنا دیا۔ ترکی عوام نے اپنے لیڈر ترک صدر رجب طیب ایردوان کی ہدایت پر جمہوریت اور موجودہ حکومت کو بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے گریز نہیں کیا۔ اطلاعات کے مطابق چھ ہرزار فوجی گرفتار کیے جاچکے ہیں جن میں 70جرنیل اور ایڈمرل شامل ہیں،265افراد ہلاک ،1440افراد زخمی حکومت نے 2745کرنل اور ججوں کو برطرف کردیا ہے۔ تمام تر تفصیلات اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ترکی کے عوام نے فوجی مداخلت اور فوجی بغاوت کو دوسری بار ناکام بنادیا، 15جون کو ہونے والی فوجی بغاوت آخری سانسیں لے رہی ہے، جمہوری حکومت نے باغیوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، ترکی صدر کا کہنا ہے کہ باغیوں کو سزائے موت دینا ہوگی۔ بغاوت کے پیچھے امریکی ہاتھ بھی ہوسکتا ہے کہ اس لیے کہ موجودہ حکومت مخالف لیڈر گولن اور ان کے ساتھیوں کی حوالگی کے لیے حکومت امریکہ اور یورپی ممالک سے رابطہ کرنے کی تیاری بھی کررہی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس سازش میں گولن اور ان کے حامی بھی ملوث ہوں۔ ترکی میں فوجی بغاوت کو تو عوام نے ناکام بنا دیا ۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کیا اس عمل کے اثرات پاکستان پر بھی ہوسکتے ہیں، کیا ہم پاکستانی عوام ترکی کے لوگوں سے کچھ سبق سیکھ سکتے ہیں یا نہیں؟ترکی کے عوام کا عمل پاکستانیوں کے لیے یہ کھلا پیغام ہے کہ جمہوریت فوجی حکمرانی کا نعمل البدل ہر گز نہیں، کمزور جمہورت، بیساکی پر چلنے والے جمہوری حکومت فوجی ڈکٹیٹر کی حکمرانی سے بہتر ہے۔ اس کے ساتھ ہی ترک عوام کا یہ عمل جمہوریت کے علمبردار حکمراں ٹولے کو بھی یہ پیغام دے رہا ہے کہ دیکھو ، ہوش کے ناخن لو، اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا، عوام کی جانب توجہ کرو، ان کی بھلائی کو سوچو، تم کتنی دولت جمع کروگے، کتنی جائیداد بناؤگے، ایک نہ ایک دن تمہیں یہ سب کچھ چھوڑ کر چلے جانا ہے، اگر یہ دولت اپنے ملک میں ہوگی تو یہ کم از کم اپنے وطن کے تو کام آجائے گی، بیرون ملک جو دولت تم نے جمع کر رکھی ہے وہ توتمہارے مرنے کے بعد وطن میں نہیں لائی جاسکے گی، کیا سرے محل پاکستان کی ملکیت بنا، کیا آفشور کمپیوں میں لگایا گیا تمہارا پیشہ تمہارے وطن کے کام آسکے گا۔ حکمرانوں صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ وہ حکمران جو آئندہ حکمران بنیں گے یا جو اب بھی سندھ اور خیبر پختونخواہ میں حکمرانی کر رہے ہیں اگر تم نے عوام کی بھلائی کے لیے کام کیے، ان کی خیر خواہی کے منصوبے بنائے ، صحت، تعلیم، حفظان صحت ، خوراک اور دیگر کاموں میں نیک نامی کے کام کیے تو عوام تمہیں اسی طرح محفوظ رکھیں گے، فوجی انقلاب سے بچائیں گے جس طرح ترکی کے عوام نے اپنی جمہوری حکومت کو جان دے کر بچایا ۔ اگر نہیں تو پھر عمران خان کی بات سچ ثابت ہوگی کہ ’پاکستان میں فوج آئی تو مٹھائی بانٹی جائیگی‘۔ فوجی قوت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجانا ترکی کے عوام کا یہ عمل ثابت کررہا ہے کہ ملک کے حکمراں ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پرترجیح دیں، لوٹ کھسوٹ نہ کریں، ملکی دولت بیرون ملک نہ بھیجیں، آف شور کمپینوں میں ملکی دولت نہ لگائیں، اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو ملک کے سے محبت کا درس دیں، انہیں لاڈ و پیار میں نہ بگاڑیں اس کے برعکس عوام کی بھلائی اور مشکلات کا خیال رکھیں، عوام اپنے دل کا آپریش ملک کے ہی اسپتال میں کراتے ہیں تو حکمراں بھی ایسا ہی کریں، اگر حکمراں عوام کے صحیح معنوں میں خدمت گزار ہوں گے تو عوام بھی ترکی کے عوام کی طرح برے وقت میں، آڑے وقت میں ، فوجی یا کسی بھی قسم کی بغاوت میں حکمرانوں کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ان کے اقتدار کو ہر قیمت پر بچائیں گے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوگا تو مٹھائی ہی تقسیم ہوگی۔

پاکستان کی تاریخ میں بھی حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوت ناکام ہوتی رہی ہیں لیکن ان بغاوتوں کو عوام نے ناکام نہیں بنایا بلکہ وہ بغاوتیں بغاوت کرنے والوں کی ناقص حکمت عملی یا پھر حکومت وقت کے اداروں نے انہیں ناکام بنا یا۔ 1951میں راولپنڈی سازش کیس جس کے روح روں جنرل اکبر تھے، یہ پاکستان کے اولین وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کا زمانہ تھا، 1980میں فوجی حکمراں جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں بغاوت ہوئی جس کے سر کردہ میجر جنرل تجمل حسن ملک تھے، 1995میں بے نطیر بھٹو کے دور وزارت اعظمیٰ میں میجرجنرل ظہر السلام عباسی کی سرکردگی میں بغاوت کی کوشش ہوئی جو ناکام بنا دی گئی۔کسی بھی فوجی بغاوت کو عوام ناکام بنائیں اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ترکی کے عوام قابل ستائش ہیں۔ جمہوریت کے الم کو بلند رکھنے میں ترکی کے عوام کا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ اس ناکام فوجی بغاوت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر عوام کی خوش حالی کے کام کیے جائیں گے تو عوام بھی ان کے لیے کام کرنے والوں کے کام آئیں گے، خواہ انہیں اس میں اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ پاکستان کے حکمرانوں کے لیے اب بھی وقت ہے۔ دل کا آپریشن اگر واقعی ہوا ہے تو بہت آرام ہوچکا ، غریب لوگ بائی پاس کے بعد دوسرے ہی دن سے اپنا کام شروع کردیتے ہیں ، آخر وہ بھی تو انسان ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے ڈیڑ ماہ لندن میں آرام کیا، آنے کے بعد لاہور میں آرام فرما ہیں آخر یہ آرام کب تک چلے گا، ملک کی فکر کریں۔ اگر حکمرانی سے دل بھر چکا تو مستقل آرام کیجئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے قوم کو ذہنی عذاب سے نکال کر دعائیں لیں۔ (١٩ جولائی ٢٠١٦)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1290821 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More