چاک گریباں

یورپ اور امریکہ میں کسی بھی قانون ساز ادارے کی رکنیت کے خواہشمند اُمیدوار کے ماضی کو کھنگال کر ہی اُسکی اہلیت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اُمیدوار کسی بھی قسم کی مالی بے ضابطگی ، قانونی خلاف ورزی یا غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب پایا جائے تو ابتدائی مرحلے میں ہی اس دوڑ سے باہر ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ منتخب ہونے کے بعد بھی ممبران پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ اگر کوئی منتخب ممبر مندرجہ بالا کسی حرکت کا مرتکب پایا جائے تو مستفٰی ہونے کے علاوہ اُس کو سزائے قید اور جرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔ نیویارک سٹیٹ میں 2008 سے لیکر اب تک کانگرس سمیت ریاست کے سینٹ اور اسمبلی کے تقریباََ چھ ارکان کو ایسی سزائیں ہو چکی ہیں جن میں ’’باپ اپنے بیٹوں کو بزنس کو غیر قانونی طور پر فاہدہ پہنچانے میں ملوث بھی پا گئے۔ علاوہ ازیں حکمران جماعت کو کسی مسئلے پر اپنے موقف کی حمایت میں ریفرنڈم کرانے پر مخالفت میں زیادہ ووٹ پڑیں تو حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھونے پر مستفیٰ ہونا پڑتا ہے۔ اسکی تازہ مثال برطانیہ میں ہونے والے حالیہ ریفرنڈم کی ہے۔ حکمران جماعت کے یورپی یونین میں رہنے کے مواقف کے خلاف زیادہ ووٹ پڑنے پر وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مستفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ تیسری دنیا کی بوسیدہ جمہوریت میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی خواہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان کی تحفن زدہ جمہوریت تو ایک منفرد اور مضحکہ خیز منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں جو شخص جتنا بددیانت اور بدعنوان ہوتا ہے۔ اتنا ہی زیادہ محترم ہوتا ہے۔ اور اتنے ہی بڑے عہدے پر براجمان ہونے کا اپنا مادر پدر حق سمجھتا ہے۔ دور حاضر کی مثال سابق صدر آصف علی زرداری اور موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف ہیں۔ زرداری صاحب تو سُنا ہے کہ ایک منٹ کی ملاقات کا ایک لاکھ روپیہ حدیہ لیتے تھے۔ 2008 سے لیکر 2014 تک پاکستان کی تاریخ میں دہشت گردی کا بدترین دُور تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کی بجائے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کو ترجیح دی۔ 2013 کی الیکشن مہم میں ن لیگیوں نے کرپشن ، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور معاشی ترقی کے بلند و بانگ دعوے کیے۔ لیکن اقتدار ملنے پر اپنے پیش رو کی طرح ملکی دولت کو نت نئے طریقوں سے لوٹنے کا عمل جاری و ساری رکھا ۔ معاشی ترقی کا ایک نیا عجیب طریقہ وزیر خزانہ نے غلط اعداد و شمار پیش کر کے غیر ملکی قرضوں کی شکل میں متعارف کرایا ہے۔ علامہ طاہر القادری اور عمران خان تواتر سے داعوہ کر رہے ہیں کہ ملک میں کرپشن ہو رہی ہے اور کرپشن کا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھیجا جا رہا ہے۔ علامہ طاہر القادری نے تو ایک ٹی۔وی انٹرویو میں طریقہ واردات تفصیلاََ بتایا لیکن اُن کے داعوے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تاوقتکہ ایان علی منی لانڈرنگ میں ملوث پائی گئی اورکراچی کے سمندر سے نوٹوں بھری لانچ پکڑی گئی۔ لیکن ابھی تک اصل مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ اس مسئلے پر بحث و تکرار جاری تھی کہ امریکہ کے ایک جریدے میکلاچی کے چیف ایگزیکٹو کی کوششوں سے پانامہ میں آف شور کمپنیز کا انکشاف ہوا جن کے مالکان کا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔ جن میں پاکستان سے میاں نوازشریف کی فیملی بھی ہے۔ کچھ سربراہان مملکت نے پانامہ لیکس کے منظر عام آنے پر استعفےٰ بھی دئیے جبکہ پاکستان مین اس ضمن میں غیر جانبدارانہ انکوائری پر زور دیا گیا۔ لیکن حکمران ابھی تک لت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ میاں صاحب کو ویسے ہی غیر ملکی دُوروں کا غیر ضروری خبط طاری ہے۔ پانامہ لیکس پر انکوائری کرانے کا دباؤ بڑھا تو ایک بار پھر اُپن ہارٹ سرجری کروانے لندن چلے گئے۔ اُن کی سرجری پر بھی طرح طرح شکوک و شہبات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ جنہیں ویڈیو فلم جو کہ سرجری کے دوران بنائی جاتی ہے کو دیکھا کہ دور کیا جا سکتا تھا۔ اب مبینہ سرجری کے بعد ن لیگیوں کے پیاواپس پاکستان جلوہ فروش تو ہو چکے ہیں لیکن اُنکی رنگون واپسی کا بھی اہتمام ہو رہا ہے۔ جیسا کہ آزاد کشمیر میں آئندہ ہفتے الیکشن ہو رہے ہیں۔ غالباََ وہ اب کی بار جھوٹے اعلان کرنے آزادکشمیر نہیں آ پائیں گے۔ اب تو لگتا ہے کہ ن لیگ کے رانجھے نصرت فتح علی کاکلام ’’آ جا دے تہنوں اکھیاں او ڈیک دی یاں‘‘ 21 جولائی تک گنگناتے رہیں گے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ن لیگ وسطی کے رانجھے کو وہ قید و جو اُنکے ارد گرد جمع ہیں۔ 21 جولائی کی شام کو شکست کا جام زہر پلا کر ہی دم لیں گے۔ ویسے موصوف کو اگر کوئی تگڑا خریدار ملتا تو شاہد جان خلاصی ہو جاتی جیسا کہ اُنہوں نے 2001 میں میں راجہ سبیل صاحب سے دولاکھ لیکر کیا تھا۔ لیکن روزنامہ خبریں کی ماہ جون کی ایک اشاعت میں اُن کے متعلق ایک سنسنی خیز انکشاف بھی ہوا ہے۔ جو کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی کے چیئرمین میں اربوں رپوں کی کرپشن سے متعلق ہے جو کہ موصوف کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کی۔ اور پھر یہ عہدہ چوہدری یسٰین کے بیٹے کو کروڑوں کے عوض فروخت کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سابق صدر آزاد کشمیر راجہ ذوالقرنین کے بیٹے کو زمینوں کے ناجائز قبضے اور فروخت کرنے پر گرفتار کرنے کے بعد چند اور اشخاص کو بھی گرفتار کیا جانا تھا۔ جن میں سابق چیئرمین کشمیر ہوسنگ سوسائٹی بھی شامل ہیں ۔ اس گرفتاری سے بچنے کے لیے موصوف کو سیانوں نے مشورہ دیا کہ آزاد کشمیر کی سیاست میں کُود جاؤ۔ تو موصوف نے سب سے پہلا قدم باغ سٹیڈیم کے افتتاح کے بہانے وزیراعظم پاکستان کو لا کر دومیگا پراجیکٹس ماہلدارہ پل اور باغ میں امراض قلب کے ہسپتال کا جھوٹا اعلان کروا کر اُٹھایا ۔ اﷲ تعالیٰ نے میاں نواز شریف کو باغ کے سادہ لوح عوام سے جھوٹے وعدے کی پاداش میں ایسا پکڑا کہ میاں صاحب کو خود اپنے ہی دل کی بائی پاس سرجری کروانی پڑی۔ اُنکے مبینہ منظور نظر سے گزشتہ سال عید ملن پارٹی میں کرنل نسیم صاحب محروم کو یقین دلایا کہ وہ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے اس لیے موصوف ان کی حمایت کریں گے۔ لیکن بعد میں شاہد کرپشن کے جرم میں ملوث متوقع گرفتاری سے بچنے کے لیے آزاد کشمیر کی سیاست میں حصہ لینے کے لیے پہلے اپنے چند حواریوں کو وسطی باغ میں انکی راہ ہموار کرنے کے لیے بھیجا اور پھر چند ماہ بعد خود نمودار ہوئے۔ اور وسطی باغ سے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا جہاں محروم کرنل نسیم صاحب گزشتہ چار سال سے خرابی صحت کے باوجود سرگرم عمل تھے۔ انہوں نے جہاں ن لیگ کو مضبوط کیا وہاں اپنی پوزیشن بھی مستحکم کی۔ لیکن موصوفنے وفاقی خواجہ سراؤں کو کرنل نسیم صاحب محروم کے پیچھے لگایا کہ وہ موصوف کے حق میں دستبردار ہوں۔ ان اوچھے ہتھگنڈؤں سے تنگ آ کر کرنل صاحب محروم نے پی۔ٹی۔آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ محروم اور ستم زدہ طبقے کے حقوق کی جنگ جاری رکھے عارضہ قلب میں مبتلا وہ عظیم اور نڈر لیڈر 8مئی 2016 کو ہزاروں چاہنے والوں کو آؤں اور سسکیوں میں جھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملا۔
؂ قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا

اُنکی اچانک رحلت کے بعد اُنکے چاہنے والوں اور وسطی باغ پی۔ٹی۔آئی کی قیادت نے متفقہ طور پر اُن کے چھوٹے بھائی راجہ خورشید احمد کو اُنکی جگہ پی۔ٹی۔آئی کے ٹکٹ پر وسطی باغ سے الیکشن لڑنے پر آمادہ کیا تو ن لیگ کے اُمیدوار بوکھلائٹ کا شکار ہو گئے۔ دھوندار کے گاؤں میں ایک تعزیتی پروگرام میں اسی بوکھلائٹ کے عالم میں کہہ بیٹھے کہ اُنہیں نارموں کے ووٹوں کی ضرورت ہی نہیں۔ اُن کے ووٹ تو بریگیڈ میں پڑھیں گے۔ موصوف کی علیٰ ظریفی کا کیا کہنا باغ الیکشن آفس کے افتتاح کے موقع پر کرنل نسیم صاحب محروم کی میت تک کو للکار گئے کہ وہ اب اُن کا کیا مقابلہ کرے گی۔ یہی نہیں بلکہ حسب و نسب تک پہنچ گئے۔ اُن کے حواریوں نے بھی اسی کم ظریفی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے نارمے کنجر ، مالدیال دلے مشتاق منہاس بلے بلے کے نہرے لگائے۔ لیکن انہوں نے اخلاقی جُرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن شیطانوں کی ملامت تک نہیں کی۔ اور نہ ہی اینٹی برادری ازم کے ٹھکیداروں نے ایسا کیا۔ نواز شریف کی بیساکھی ایک بغل کے نیچے ، وزیراعظم آزاد کشمیر کی کرسی ایک کندھے پر لٹکائے ، ن شریفی مٹکا سرپر اُٹھائے جس میں میاں نواز شریف کو ڈال کر جنرل پرویز مشرف کے عقاب سے بچا کر سعودیہ پہنچایا تھا آجکل منہاس اس مٹکے کو درھموں، ریالوں ، دیناروں اور ڈالروں سے بھرے جارہے ہیں ۔ دیاڑی دار اپنا حصہ اس لیے جا رہے ہیں۔ اور ضمیر بھی خریدے جا رہے ہیں۔ ویسے ایک یہ مٹکا مقدس ہے۔ اور دوسرا وہ مٹکا صاحب جس کا ذکر قدرت اﷲ شہاب محروم نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں کیا ہے وہ تھا جس میں بابا شہاب الدین نے سرداروں (سیکھوں) کے گرد کو ڈال کر مغل فوج سے بچایا تھا۔ کوئی چار نسلوں کے بعد چوہدری مہتاب الدین نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مٹکے کو سجا کر ایک چوبارے پر رکھ دیا اور مشہور کرنا شروع کر دیا کہ یہ وہی مٹکا ہے جس میں سیکھوں کے گرد کو بابا شہاب الدین نے ڈال کر اوپر سے بند کر کے مغل فوج سے بچایا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سادہ لوح سیکھ اُس مٹکے کو سونے اور چاندی سے بھرتے گئے۔ چوہدری مہتاب الدین کے پاس جب بہت دولت جمع ہو گئی تو اُس نے راجہ بھوپ کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس دعوت میں اُس نے بابا شہاب الدین کی روایات کی بے حرمتی کی تو لوگ اُس سے نالاں ہو گئے۔ غلطی کا احساس ہونے پر چوہدری مہتاب الدین نے اپنا شہر چھوڑ کر کہیں اور جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہاں گیا اس بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہیں۔ اب وہ شریفی مٹکے والے کی قسمت کا فیصلہ 21جولائی کو ہی ہو گالیکن اس سے پہلے موصوف جھوٹے وعدوں کی G.M.O (Genetically Modified) بھینس لیے جو کہ ہر ایک کو کٹے ہی دئیے جا رہی ہے۔ اور اینٹی برادری ازم کا پھٹا ہوا ڈھول پیٹتے ہوئے اپنی سیاست کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ چند احباب اُنکے بہکاؤے میں آ گئے ہیں۔ باوجود اس کے کرنل نسیم صاحب محروم جس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اُس نے کبھی بھی چھوٹی برادریوں کو نہ مایوس کیا ہے اور نہ ہی کوئی زیادتی کی ہے۔
؂ جھوتی تہمت ہی سہی دامن ِ یوسف پہ مگر
مصر میں اب بھی زلیخا کی سنی جاتی ہے

گو کہ رلیخا تہمت کو جھوٹا ثابت کر نے کے لیے اﷲ پاک نے دو سال کے بچے کو بولنے کی صلاحیت سے نوازہ جس نے گواہی دی کہ زلیخا نے یوسف علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے اُنکی قمیض کو پیچھے سے پکڑنا چاہا تو قمیض پیچھے سے پھٹ گئی۔ اور یوسف علیہ السلام جان چھڑانے میں کامیاب ہوئے۔ چنانچہ قمیض کا معائنہ کرنے کے بعد رلیخا جھوٹی ثابت ہوئی اوریوسف علیہ السلام سچے کہتے ہیں کہ نیت میں کھوٹ ہو تو ایک نہ ایک دن عیاں ہو ہی جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ن لیگ وسطی کے ٹکٹ ہولڈر کے ساتھ ہوا ہے۔ اُن کے چھوٹی برادریوں کے حقوق اور اُن کے تحفظ کا بھانڈا چورائے پر خود موصوف سے پھوڑا گیا جب ایک رات موصوف نے سُدھن قبیلے سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے مرکزی مجلس عاملہ کے رکن سردار زوہب فیاض کو مخصوص اس لیے گالم گلوچ سے نوازہ کہ انہوں نے راجہ فاروق حیدر کو اس حقیقت سے کیوں آگاہ کیا کہ ن لیگ کے وسطی باغ کے اُمیدوار کی پوزیشن چوتھے نمبر پر ہے۔ پھر قریشی قبیلے کے ایک آدمی کو پی۔ٹی۔آئی کا جھنڈا لہرانے پر اُن کے گاؤں میں مارا پیٹا گیا۔ لیکن اُسکی ایف۔آئی۔آر بھی درج ہونے نہ دی۔ موصوف نے چھوتی برادریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کوٹھے ٹپنی کی طرح بڑے بڑے سیاسی سورماؤں کو ڈورے ڈال کر انتخابی مہم کو پوری ذمہ داریاں اُنکے سپرد کر دی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف سدُھن گلی میں ن لیگ اور پی پی کے کارکنان کے درمیان ہونے والے پتھراؤ کے دوران اپنے نئے سیاسی سورماؤں کے ساتھ مسجد کے حمام پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اب قابل غور بات یہ ہے کہ الیسے جرات لیڈر دوروں کو کیا تحفظ دے سکتے ہیں۔ موصوف کی سیاسی ناپختگی اور غیر سنجیدگی کی ایک اور مثال ملاحظ ہو۔ کہتے ہیں کہ بارہ برس بعد گھوڑے کے بھی دن پھرتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی وسطی باغ کی دو نامور شخصیات کے سیاسی گھوڑوں کے ساتھ ہوا۔ بارہ برس بعد جب سردار طاہر اقبال کے سیاسی گھوڑے کے دن پھرے تو کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جب جماعت اسلامی اور ن لیگ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ طے پایا تو بارہ برس بعد امیر جماعت اسلامی برادرم عبدالرشید ترابی کے سیاسی گھوڑے کے دن پھیرے تو ن لیگی وسطی باغ والوں کے پیٹ میں ایسی مروڑ اُٹھی کہ پہلے بھاگتے ہوئے راجہ فاروق حیدر کے پاس پہنچے کہ یہ معاہدہ انہیں منظور نہیں ہے۔ وہاں سے ٹکا سا جواب ملا تو پھر بھاگتے بھاگتے راجہ ظفرالحق صاحب کے پاس پہنچے لیکن جواب ملا کہ ٹکٹ مل گیا ہے۔ اپنے حلقے میں کام کرو۔ مجبوراََ ترابی صاحب کی تعریفیں شروع تو کر دی لیکن ’’ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ ‘‘ تم قتل کرے ہو کہ کرامات کرے ہو‘‘

ترابی صاحب کو سادگی اور درگزری پر قربان ہونے کو جی کرتا ہے ۔راجہ ظفرالحق کے اُس بیان کے باوجود کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ غیر مشروط ہے۔ جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کسی خاص اُمیدوار کی انتخابی مہم زور و شور سے چلانے کی پابند نہیں پر محترم ترابی صاحب کو اچھے خاصے متحرک ہوتے ہوئے تعریفیں سمیٹے جا رہے ہیں۔
؂ پھر بھی کیا کیا سادہ ہمیں بیمار ہوئے جسکے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

جماعت اسلامی کے دیگر لیڈران گرامی کو دیکھ کر تو اور بھی تعجب ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ بیگانی شادی میں عبداﷲ نے دیوانے بستہ اُٹھانے اور قصیدہ گوئی کرنے کے لیے باے تاب تھے۔ حیرت تو حاجی افراہیم کا یہ بیان پڑھ کر ہوئی جس میں انہوں نے پی پی کے اُمیدوار کو فرعون اور ن لیگ کے اُمیدوار کو موسیٰ قرار دیا۔ حالانکہ دونوں پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ اُن کے س بیان نے تو مجھے فتنہ دجال کے دور میں جھونکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جس میں دجال بہت سی کرامات دیکھائے ۔ جن میں ایک آدمی کو مار کر زندہ کرنا۔ حاجی افراہیم صاحب جیسی سوچ رکھنے والے تو فوراََ متاثر ہو جائیں گے۔ لیکن پختہ ایمان والے اُسکو اُسی آدمی کو مار کر پھر زندہ کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ دجال ایسا نہیں کر سکے گا۔ اس طرح دجال کے جھوٹا ہونے کی کلی کھول جائے گی۔ اور پختہ ایمان والے غالب آئیں گے۔ اس طرح کہ کمزور ایمان والوں کو اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُن کے دور میں فتنہ دجال نمودار ہوتا نہیں دیکھائی دے رہا۔ گڑ کھائیں اور گلگلوں سے پرہیز یہ محاورہ وسطی حلقے کے ن لیگی اُمیدوار کے بیان جو کہ چند دن پہلے اخبارات کی زینت بنا سے مطابقت رکھتا ہے۔ موصوف نے سرکاری ملازمین کو انتباہ کیا کہ انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے اداروں کے تقدس کو پامال نہ کریں۔ معلوم نہیں اُن کا اشارہ کن ملازمین کی طرف ہے۔ بہرحال ہماری اطلاع کے مطابق ایک عزیز جو کہ محکمہ تعلیم میں کلیدی اسامی پر متعین ہیں سرے عام موصوف کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اپنے ماتحت عملے کو تنبیہ کرتے پھر رہے ہیں کہ موصوف کو ووٹ نہ دیا تو اُن کی ترقی اور تنخواہ میں اضافہ رُک لیا جائے گا۔ اُس نے تو اپنے بیٹے کے نام سے موصوف کے حق میں مفروضوں پر مبنی کالم بھی لکھنے شروع کر دئیے ہیں ۔ احباب کے سمجھانے کے باوجود نہ سمجھنے پر مجھے شک گزر رہ کہ شاہد یہ عزیز Hypochondria کا مریض ہو گیا ہے۔ اس مرض میں مبتلا آدمی خرابی ہضمے کی وجہ سے ذہنی مریض ہو جاتا ۔ لیکن اُنہی کلاسفیلو نے انکشاف کیا کہ اس عزیز کو اُستاد محترم شیخ محمد حسین محروم نے گستاخی کرنے پر بددُعا سے نوازہ تھا کہ یہ کبھی بھی باعزت کامیاب آدمی نہیں بن سکتا۔ گو کہ موصوف گزشتہ دو دھائیوں سے سردار قمرالزمان کی چاپلوسی کرتے ہوئے پیشہ ورانہ ترقی تو کر گئے لیکن اسکی ذہنی کیفیت اور قابل نفرت حرکات سے لگتا ہے کہ بددعا اثر کر گئی ۔ سننے میں آیا ہے کہ اسکی سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں اسے OSD بنا کر مظفرآباد بھیجا جا رہا ہے۔ بہرحال اُستاد محترم تو اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب اس عزیز کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ کسی جید سے رجوع کریں اُنکے مفید مشورے سے شاہد آفاقہ آ جائے۔ علاوہ ازیں بعض حضرات اس غلط فہمی کاشکار ہیں کہ ن لیگ کی مرکز میں حکومت ہے۔ اس لیے آزاد کشمیر میں اسی جماعت کی حکومت ہو گی۔ غالباََ وہ پانامہ لیکس اور نیپ کو نظر انداز کرتے ہوئے دانشمندی کا ثبوت نہیں دے رہے ۔ یہی دو فیکٹرز ن لیگ کی سیاسی موت کا سبب بنتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ اور آزاد کشمیر میں پی۔ٹی۔آئی ا، ایم۔سی اتحاد کے حکومت بنانے کے قوی امکانات ہیں۔ آخر میں کرنل نسیم صاحب مرحوم سے بے وفائی کرنے والی کوٹھے ٹپینوں اور مفاد پرست سیاسی ٹولے کو تنبیہ کرتا ہوں کہ یہ سیاسی جنگ آپ نے شروع کی ہے اس کا خاتمہ کرنل صاحب مرحوم کے چاہنے والوں کی مرضی سے ہو گا۔ ہم اس جنگ میں آپ کا پیچھا قبر تک کریں گے اورآپ کے منحوس سیاسی عزئم کو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔
؂ کوئی ٹھہرا ہو لوگوں کے مدمقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں ناز جنہیں اپنے تائیں تھا
آج سوئے ہیں تہہ خاک جانے کتنے
کوئی شعلہ ، کوئی شبنم ، کوئی مہتاب جبیں تھا
Arshad Suleman
About the Author: Arshad Suleman Read More Articles by Arshad Suleman: 2 Articles with 1185 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.