مقبوضہ کشمیر میں ایام سیاہ

خدا خدا کرکے حکومت پاکستان کو نواز شریف کی قیادت میں خیال آ ہی گیا کہ مودی سے دوستی اپنی جگہ مگرمقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر زبان کھولنی ہوگی۔ پہلے 19جولائی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا جو کہ دراصل یوم الحاق پاکستان ہے بعد میں کسی دانا کے مشورے سے 20جولائی کو یوم سیاہ منا کر مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام سے اظہار یکجہتی کا فیصلہ کیا گیا۔ چلو دیر آید درست آید۔ 27اکتوبر 1947ء کو کشمیر پر جبری بھارتی فوجی قبضے کے بعد سے آج تک ہر شب شبِ ظلمت اور ہر دن یوم سیاہ ہوتا ہے۔ اب تو مقبوضہ کشمیر میں یوم نہیں بلکہ ایام سیاہ منائے جاتے ہیں۔ لیکن
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیسے ممکن ہے تم ہی کہو

بھارتی فوج کے تمام تر ظلم و ستم کے باوجود کشمیریوں نے حصول آزادی کو مقصد اور الحاق پاکستان کو منزل قرار دیدیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ظالمانہ پالیسی نئی بات نہیں، خالی کئے جانے والے مختلف بھارتی فوجی کیمپوں سے اجتماعی قبروں کی دریافت بڑی ظالمانہ کارروائیوں کا معمولی حصہ ہے جو بے نقاب ہوا ہے۔ بدمعاش بھارتی فوج جو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے جس نے اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق تحریک آزادی جاری رکھنے والے بے گناہ کشمیری عوام کا منظم قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی بدمعاش ’’را‘‘ آزادی کے متوالے کشمیریوں کا حوصلہ توڑنے کے لئے بھارتی فوج کے ذریعے خواتین کی بے حرمتی کا مکروہ حربہ بھی استعمال کرتی رہتی ہے تاہم اس طرح کے انسانیت سوز واقعات سے کشمیریوں کی دینی غیرت اور جذبہ آزادی سرد ہونے کی بجائے مزید گرم ہو جاتا ہے جس کی مثال سانحہ شوپیاں میں ملوث بھارتی فوجیوں کے خلاف جاری تاریخی عوامی احتجاج کا تسلسل تھا۔ اب تو متعلقہ لیڈی ڈاکٹر کے بیان سے یہ حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے کہ بھارتی فوج کے حکم پر سانحہ شوپیاں کے شواہد چھپائے گئے اور قاتل بھارتی فوجیوں کو بچانے کے لئے مقتولین نیلوفر اور آسیہ کی لاشوں کے بجائے پلوامہ ڈسٹرکٹ ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈ میں زیر علاج ایک مریضہ کے جسم سے حاصل کردہ رطوبتوں کے نمونے رپورٹ کا حصہ بنا دیئے گئے۔
 
ہزاروں کشمیریوں کے قتل عام کی مرتکب بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں مذہبی مقامات اور گھروں کو آگ لگانے کا بدترین ریکارڈ بھی رکھتی ہے۔ اجتماعی قبروں کی دریافت سے واضح ہو گیا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور میڈیا کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت کیوں نہیں دیتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سینکڑوں کشمیریوں کے قتل عام میں ملوث بھارتی فوج کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ انٹرنیشنل کریمنل ٹربیونل میں چلایا جائے اور ایک بھرپور مہم کے ذریعے عالمی برادری کو اس مہم سے آگاہ کیا جائے تاکہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد انسانیت سوز مظالم اور قتل عام کے ذمہ داروں کو سزا ملے۔
 
کشمیریوں کی اراضی پر قبضے سے پہلے بھارتی شرائن بورڈ کی جانب سے کشمیریوں کی وقف اراضی کو ہندوؤں کی وقف اراضی میں شامل کرلیا گیا جس کے خلاف بھی کشمیری عوام نے قاتل بھارتی فوج کے ظلم کی پرواہ کیے بغیر منظم تحریک چلائی اب جموں و کشمیر میں 41 لاکھ 61 ہزار 140 کنال سے زائد اراضی پر بھارتی فوج کا قبضہ ہے جس نے ہر تحصیل اور ضلع میں بستیاں بسالی ہیں اور تعمیرات کھڑی کرلی ہیں۔

بہرحال کشمیر میں کیا ہورہا ہے اسے سمجھنے کے لئے انڈین لیڈرشپ، انڈین آرمی اور انڈین انٹیلی جنس ایجنسیز کے مقاصد کے بارے میں بتانا ضروری ہے۔ روز اول سے ہی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر جس کی آبادی 93 فیصد مسلمان تھی اور مہاراجہ غیر مسلم تھا۔ جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا روز روشن کی طرح عیاں تھا کہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ بنے گی۔ اس میں تمام عوامل جغرافیائی، قدرتی، تقسیم، زبان، مذہب، کلچر، رشتہ داریاں سب شامل تھے۔ دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ دو قومی نظریہ کا جو فارمولا قائد اعظم اور گاندھی و نہرو نے تسلیم کیا تھا اس کے مطابق بھی کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان حصہ بننا تھا۔ مگر بدقسمتی پنڈت جواہر لال نہرو کا تعلق مقبوضہ ریاست سے تھا اس کی اندر کی خواہش تھی کہ کشمیر کو کسی نہ کسی طرح سے بھارت کا حصہ بنایا جائے۔ کشمیری قیادت اور پاکستانی قیادت اس کو آفاقی سچائی سمجھتی تھی کہ جب پاکستان بنے گا خود بخود کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائیگا اور جب دو قومی نظریے کا فارمولا سامنے آیا تو کشمیری عوام کی قدرتی وابستگی کھل کر سامنے آ گئی مگر پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک ایسی سازش تیار کی کہ جس کے تحت گرداس پور جو بالکل پاکستان کا ضلع بننا تھا وہاں سے زمینی راستہ کشمیر کے اندر ہندوستان کو دیدیا۔ کشمیری عوام کی خواہشات کو نظرانداز کرتے ہوئے دھوکے سے کشمیر پر اپنا قبضہ جما لیا۔ قبضہ جمانے کے بعد آج تک ان کی پالیسی یہ رہی ہے کہ کسی طرح مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے 1947ء میں جموں ریجن میں فوج کے داخل ہوتے ہی 6 دنوں میں 3 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا اور تین چار ضلعوں میں مسلمانوں کا تقریباً صفایا کردیا جس میں ضلع جموں، ضلع اودھمپور اور ضلع کٹھوا کے علاوہ ریاست کے کچھ علاقے شامل تھے۔ اس قتل عام کے علاوہ 22 لاکھ کشمیری مسلمانوں کو پاکستان اور آزاد کشمیر میں ہجرت کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے اس مقصد کے تحت وہ جموں کے تین چار اضلاع میں تو کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد تحریک آزادی جاری رہی، عالمی برادری کا فیصلہ آیا کہ کشمیری اپنی آزادانہ مرضی سے پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں یہ فیصلہ بھی ہندوستان کی ہی درخواست پر ہوا اور سکیورٹی کونسل نے ایک روڈ میپ کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل پیش کیا اور اسے پاکستان ہندوستان نے تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان نے کشمیر کی خوبصورتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور وہاں کی انڈسٹریز جس میں ادویات، ٹورازم ، شال انڈسٹری، کارپٹ انڈسٹری اور فارسٹ اور واٹرریسورسز شامل ہیں کو دیکھتے ہوئے قبضہ کرلیا اور آٹھ لاکھ فوج کو داخل کردیا اور یہ ناجائز قبضہ آج تک جاری ہے۔
Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 39031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.