پہلے زمانے میں لوگ بزرگوں، اولیا کرم اور
اسلام کے شہیدوں کے مزاروں پر حاضری دینے کے لیے میلوں کا سفر ته کرتے تھے.
مگر اب یہ مشکل بہت آسان ہو چکی ہے، اب اگر آپ کو کسی شہید کے مزار یا قبر
پر حاضری دینی ہو تو آپ کسی بھی سیاسی جماعت کے دفتر چلے جائیں وہاں سے آپ
کو شہیدوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست بڑی آسانی سے مل جائے گی.
یہاں ہمارے ملک میں سرکاری، سیاسسی اور جمہوری شہیدوں کی تعداد دنیا میں سب
سے زیادہ ہے اور غور طلب بات یہ ہے کہ ان میں سے ٩٩ فیصد وہ لوگ تھے جو
اپنے مخالفین کے ہاتھوں صرف قبضے اور اقتدار کی لالچ کی وجہ سے قتل ہوئے.
جس ملک میں جمہوریت کے شہید کلو کے حساب سے بازار میں دستیاب ہوں اس ملک
میں تبدیلی اقتدار کی تو آ سکتی ہے مگرایمان کے ساتھ اسلامی ریاست کبھی بھی
قائم نہیں ہو سکتی.
یہاں گزشتہ ٦٨ سالوں سے سیاست دان سے لے کر سرکاری اہلکاروں تک سب کے سب
شہادت کے رتبہ پر فائز ہیں اور پھر ان کے بعد کچھ حصّہ فنکاروں کا بھی آ
جاتا ہے جو فلحال تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں.
باقی رہے عام عوام تو وہ پیدا ہی ہلاک ہونے کے لیے ہوے ہیں.
اس کی ایک مثال یہ ہے کے پاکستان کے قبائلی علاقے میں جاری آپریشن میں اگر
کوئی فوجی مرے تو ہماری نظر میں وہ شہید اور اگر کوئی خورج مرے تو ان کی
نظر میں وہ شہید، باقی دونوں طرف کی گولیوں سے مرنے والے مقامی عام افراد
ہلاک ہی ہوتے ہیں ان کو کوئی شہید نہیں کہتا.
ویسے بھی ایسی قوم کو تو ہلاک ہی ہو جانا چائیے جو ایسے حکمران پیدا کرتی
ہے جو اول تو اپنی طبی موت بہت کم ہی مرتے ہیں اور اگر کوئی ان کو مار دے
تو ہم خود ہی ان کو شہادت کا درجہ دے کر سب سے اعلی مقام پہ فائز کر دیتے
ہیں.
ہر کوئی شہید جمہوریت بنا ہوا اپنے اپنے مزار میں لیٹا ہوا ہے، جمہوریت کو
تو ہم نے جیسے ایمان اور اسلام کا پہلا اور آخری رکن سمجھ رکھا ہے،
اس ملک میں ایمان اور اسلام کی خاطر جان دینے والے تو انگلیوں پر گنے جا
سکتے ہیں مگر جمہوریت کے شہیدوں کی تعداد لاکھوں میں ہے.
مثال مشہور ہے کے "شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے"
اگر یہاں لفظ قوم کو ہٹا کر سیاست لکھ دیا جائے تو بلکل موزوں رہے گا.
بہ حیثیت مسلمان ہم لوگ شریعت کا حکم مانے کے پابند ہیں ورنہ اپنی پسند کے
کسی سیاسی جماعت کے رہنما کو کب کا ولی یا نبی کا درجہ دے کر اپنے آپ کو
دائر اسلام سے خارج کروا چکے ہوتے.
ایک مشہور کہاوت ہے کہ......
"جیسی عوام ویسے حکمران" (یاد رہے کہ یہ صرف ایک کہاوت ہے کوئی حدیث نہیں)
اور لگتا ہے جیسے یہ کہاوت ہمارے لیے ہی بنائی گئی ہے.
الله تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور اپنے خاص بندوں میں شامل کرے...امین. |