لبرل اور لیبر

آسٹریلیا میں آج کل الیکشن ہو رہے ہیں۔قریباََ دو ہفتے ہو چکے ہیں، ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ لبرل پارٹی اپنی حکومت برقرار رکھے گی۔ اور مارلکولم ٹرن بل ہی آسٹریلیا کے وزیراعظم رہیں گے۔ آسٹریلیا میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں، لبرل پارٹی، اور لیبر پارٹی ۔ ان دونوں کے درمیان سنحت مقابلہ رہا، لیکن دوسری سیاسی پارٹیوں کے لبرل کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے لبرل اس وقت ۷۲ سیٹیں اپنے نام کر چکی ہے۔ جبکہ لیبرپارٹی کے پاس ۶۸ سیٹیں ہیں۔ لبرل پارٹی کو صرف چار مزید سیٹیں درکار ہیں، حکومت بنانے کے لئے۔ چار سیٹیں تو وہ گھر سے بھی لا کر لگا سکتے ہیں۔

ہم جو یہاں غیر ملکی رہایش پذیر ہیں، زیادہ تر لیبر کو ووٹ دیتے ہیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ لبرل پارٹی غیر ملکی آباد کاروں، اور پناہ گزینوں کے حق میں کچھ اقدامات نہیں کرتی، بلکہ سخت قانون بنا دیتی ہے۔ لبرل پارٹی جب حکومت میں آئی تھی، تو انہوں نے جو پناہ گزین ایشیا سے کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر آسٹریلیا آتے تھے، اُن پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کا اشتہار آ پ نے پاکستانی میڈیا پر بھی دیکھا ہو گا۔ کشتیاں بند کرنے کے علاوہ، انہوں نے ویزہ پروسیس کا دورانیہ بھی بڑھا دیا۔ فیسیں اس قدر بڑھا دیں، کہ لوگ اپنی بیویوں کوآسٹریلیا بلانے کی بجائے، خود پاکستان چلے جاتے ہیں۔ ایک صاحب کوئٹہ سے کشتی پر آسٹریلیا آئے، مجھے سنڈے بازار ملے۔ بہت پریشان تھے۔ بیوی بچوں کو بلا نا چاہتے تھے، لیکن پانچ سال تک نہیں بلا سکتے تھے، جب تک وہ یہاں کے شہری نہ بن جاتے۔ پاکستان اگر واپس جاتے ، تو پھر کبھی واپس نہیں آسکتے تھے۔ اُنھوں نے پاکستان کی بجائے ، کہیں اور کا ہی رُخ کیا۔ ایسا سفراختیار کیا ، جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ایک گمنام سا شخص ، گمنام سی دنیا میں سپر د خاک ہو گیا۔
ہوئی راستوں میں مجھے یہ خبر مجھے منزلوں کا پتہ ہی نہیں

باوجود اس کے کہ لبرل پارٹی کی کارگردگی کچھ متاثر کن نہیں رہی، پھر بھی لیبر پارٹی سے زیادہ ووٹ لے جانا ، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ گوروں کے دل میں اب ہمارے لئے جگہ کم ہو رہی ہے۔ امریکہ میں بھی ایک ارب پتی سیاست دان ، ڈونلڈ ٹرمپ، مکڈونل کی طرح مقبولیت اختیار کررہا ہے۔ بے شک گوروں کے دل میں ہمارے لئے کوئی چاہت نہ رہی ہو، لیکن ہمارے دل میں تو اُن کے لئے محبت کے سو ا کچھ بھی نہیں۔ ہمارے کچھ مسلم بھائی اس محبت کا وقتاََ فوقتاََ مظاہرہ بھی کرتے رہتے ہیں۔

میرا اگر ووٹ واجب قبول ہوتا، تو میں ضرور لبرل پارٹی کو ووٹ دیتا۔ کیونکہ میں ایک لبرل سا انسان ہوں۔میں ایک ادیب ہوں، لیبر سے مجھے سخت نفرت ہے۔ میں کوئی مزدور نہیں ہوں، جو صبح سے لے کر شام تک، گدھوں کی طرح کام کرتا ہے۔ اور شام کو جو پیسے ملتے ہیں، اُس کی جا کر شراب پی لیتا ہے۔ میں ایک آزاد خیال لکھاری ہوں۔میں ہر طرح کی قید ، اور غلامی سے عاجز آتا ہوں، خاص کر کسی بشر کی جو مجھ سے کسی درجہ بھی بہتر نہیں۔

اب دیکھئے کہ یہاں آسٹریلیا میں ہر کسی کے لئے ووٹ ڈالنا ضروری ہے۔کیسی بے تکی سی بات ہے، یہ کہاں کی جمہوریت ہوئی؟ اصل آزادی تو پاکستان میں ہے۔ آپ کا جی چاہے ، آپ ووٹ ڈالیں، نہ چاہے نہ ڈالیں۔ آپ کے ایک ووٹ سے کونسا نتائج پر کوئی اثر پڑنے والا ہے۔ اکثر نتائج تو الیکشن سے پہلے ہی نکل آتے ہیں۔

آسٹریلیا میں اگر آپ ووٹ نہ ڈالیں، تو کچھ دنوں میں ، آپ کے گھر ایک سنہری سے لفافے میں خط میں آجاتا ہے۔ جس میں آپ سے با عزت طور پر درخواست کی جاتی ہے، کہ یا تو آپ کوئی وجہ بتائیں، ووٹ نہ ڈالنے کی، یا بیس ڈالر بتائے ہوئے پتے پر بھیج دیں۔ بیس ڈالر چھوٹی رقم نہیں ہوتی، قریباََ پندرہ سو روپے بنتے ہیں پاکستانی۔ پندرہ سو روپے میں آپ کیا نہیں کر سکتے ؟ کسی اچھے سے ریستوران میں گرل فرینڈ کے ساتھ ڈنر کر سکتے ہیں۔ سینما میں جا کر فلم دیکھ سکتے ہیں۔ اچھا سا سوٹ سلوا سکتے ہیں۔ معاف کیجئے گا، ایک تو ہم غیر ملکی پاکستانی ضربیں بڑی دیتے ہیں۔ بات بیس ڈالر کی ہورہی تھی، کہاں پندرہ سو پر چلی گئی۔ آسٹریلیا میں بھی بیس ڈالر کی بہت وقعت ہے۔ بیس ڈالر میں دو مکڈونل کے برگر آجاتے ہیں، ساتھ کوک بھی۔ بیس ڈالر میں، گاڑی کی آدھی ٹینکی فل ہو جاتی ہے۔ بیس ڈالر میں آپ دو بار حجامت کروا سکتے ہیں۔ غرض،ہم جیسے مڈل کلاس لوگوں کے لئے بیس ڈالر کی بہت اہمیت ہے۔

اگر آپ کے پاس بیس ڈالر نہیں ہیں، تو پھر کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہئے، ووٹ نہ ڈالنے کی۔ آپ کے تمام عذر مسترد کر دئیے جائیں گے، سوائے اس کے کہ آپ اس دن آپریشن تھیٹر میں موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اگر آپ یہ وجہ بتائیں گے، کہ آ پ کی پھوپھی کا آپریشن تھا، تو شاید آپ سے چالیس ڈالر لئے جائیں، بیس آپ کے، اور بیس آ پ کی پھوپھی کے۔ اگر آپ بیس ڈالر بھی جمع نہیں کرواتے، اور نہ کوئی کارن پیش کرتے ہیں، تو پھر آپ کو ۱۸۰ ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا، اور عدالت میں حاضری الگ۔ اس لئے یہاں عموماََ لوگ ووٹ دینے ہی وقت پر حاضر ہو جاتے ہیں۔ ابا جی تو ووٹ والے دن سے ہفتہ بھر پہلے ہی جاکر ووٹ ڈال آتے ہیں۔

ایک بار میرا بھی اُن کے ساتھ جانا ہوا، ہال کے گیٹ پر ہی امید وار اشتہارات پکڑے ، مسکراتے ہوئے لوگوں کا استقبال کررہے تھے۔ اُنھیں دیکھ کر مجھے محاورہ یاد آیا، کہ ضرور ت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔ ہم گدھے ہی سہی، اُن کے باپ تو ہیں۔ مجھ سے یوں ملے، جیسے میرے ووٹ سے ہی اُن کی جیت اور ہار کا فیصلہ ہو نا ہے۔ حالانکہ میرا ووٹ تھا ہی نہیں۔ کیونکہ میں یہاں کا شہری نہیں ہوں۔ میں اُ س بدنام زمانہ ملک کا شہری ہوں، جہاں سے آئے ہوئے ،مجھے چار سال ہو گئے ہیں۔ لیکن کم بخت ابھی تک دل اُنھی اُجڑی بستیوں میں گم ہے۔ یہاں کی صاف شفاف سڑکیں، پر فضا ماحول، حسین ساحلوں، سے دل ابھی تک مانوس نہیں ہو پایا۔ شاید اس خراب کا ٹھکانہ اُسی خرابے میں ہے،جہاں سے یہ نکالا گیا تھا۔ لیاقت علی عاصم نے اپنا اور میرا حال کچھ یوں بیان کیا ہے۔
عشق بارِ دگر ہو ا ہی نہیں دل لگا یا بہت دل لگا ہی نہیں
Vicky Baloch
About the Author: Vicky Baloch Read More Articles by Vicky Baloch: 6 Articles with 4051 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.