جمہوریت کے چوتھے ستون تک عام آدمی کی رسائی دشوار کیوں؟

حکومتی وانتظامی سطح پر بالواسطہ اور بلاواسطہ طور ’میڈیا‘پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کے باوجود ایسے صحافیوں کی تعداد آج بھی اکثریت میں ہے، جنہوں نے طرح طرح کی مصیبتوں، آزمائشوں، پابندیوں اور طرح طرح کے چیلنجوں کے باوجود اس شعبہ کے ساتھ انصاف کر رہے ہیںلیکن جمہوریت کے اس چوتھے ستون تک عام آدمی کی رسائی بہت کم ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام پر ظلم وستم، بربریت، زمینی سطح پر ملازمین یا افسران کی عوام کے تئیں غلط رویہ، لاپرواہی یا نا انصافی کی جتنی خبریں شائع ہوتی ہیں، یہ زمینی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات وحالات سے کئی گناہ کم ہیں۔آج بھی میڈیا تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے
میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون تصور کیاجاتاہے لیکن حکومتی سطح پر شعبہ صحافت کو فروغ دینے کے لئے کبھی بھی کوئی قدم نہ اٹھایاگیا بلکہ ہمیشہ برسراقتدار حکومتوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ مختلف حربے وطریقے استعمال کر کے میڈیا سے جوڑے افراد کو اپنے بس میں کرلے۔ حکومتی وانتظامی سطح پر بالواسطہ اور بلاواسطہ طور ’میڈیا‘پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کے باوجود ایسے صحافیوں کی تعداد آج بھی اکثریت میں ہے، جنہوں نے طرح طرح کی مصیبتوں، آزمائشوں، پابندیوں اور طرح طرح کے چیلنجوں کے باوجود اس شعبہ کے ساتھ انصاف کر رہے ہیںلیکن جمہوریت کے اس چوتھے ستون تک عام آدمی کی رسائی بہت کم ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام پر ظلم وستم، بربریت، زمینی سطح پر ملازمین یا افسران کی عوام کے تئیں غلط رویہ، لاپرواہی یا نا انصافی کی جتنی خبریں شائع ہوتی ہیں، یہ زمینی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات وحالات سے کئی گناہ کم ہیں۔آج بھی میڈیا تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ایک عام آدمی کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے لیکن وہ خاموشی سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم یا نا انصافیوں کو برداشت کرتا چلا آرہاہے۔ اگر اس صحافت پیشہ تک عام آدمی کی موثررسائی ممکن ہوجائے تو اس سے نہ صرف حکومت وانتظامی اداروں کو جوابدہ بنایاجاسکتا ہے بلکہ حکومتی پالیسیوں ومنصوبوں کی زمینی سطح پر بہتر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ ’میڈیا ‘کا کام جہاںحکومت و انتظامیہ کی خامیوں، کوتاہوں، غلطیوں کو اجاگر کرنا، اچھے کاموں کی سراہنا کرنا، پالیسیوں ومنصوبوں سے متعلق عوام میں بیداری لانا ہے وہیں عام لوگوں کے مسائل ومشکلات کو پرنٹ والیکٹرنک میڈیا کے ذریعہ اجاگر کر کے ان کے تئیں متعلقہ محکمہ کے حکام وفیلڈ عملہ کی توجہ بھی مبذول کرانا ہوتا ہے ۔ عوام کے لئے بھی انتظامیہ کی کوتاہیوں، غلطیوں کو اجاگر کرنے اور اپنی مشکلات ومسائل کو حکومتی عہدادران تک پہنچانے کے لئے میڈیا ایک اہم بلکہ انتہائی موثر ترین ذریعہ ہے لیکن جموں وکشمیر ریاست کے دور دراز علاقہ جات میں بہت کم لوگوں کی ہی صحافیوں تک رسائی ہوتی ہے۔ اس حوالہ سے میں خصوصی طور پر صوبہ جموں کے خطہ چناب (ڈوڈہ، رام بن، کشتواڑ اضلاع)اور خطہ پیر پنچال(راجوری وپونچھ) اضلاع کا ذکر کرنا چاہوں گا۔خطہ چناب اور پیرپنچال کے تحت پڑنے والے پانچ اضلاع کے بیشتر علاقہ جات دور دراز وپسماندہ ہیں، یہاں پر عوام میں میڈیا کے تئیں شعور وبیداری کم ہے، اگر بیداری ہے بھی تو انہیں اپنے مسائل کو اخبارات میں شائع کروانے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔اس کی ایک بڑی وجہ متعلقہ ضلع ، تحصیل اور بلاک صدور مقامات پر اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے پلیٹ فارم کا نہ ہونا ہے۔ جیسے سرمائی راجدھانی جموں میں ’پریس کلب‘اور سرینگرمیں ’پریس کالونی‘ہے، ا س طرح ریاست کے دیگر اضلاع بالعموم اور بالخصوص خطہ چناب اور پیرپنچال میں کوئی مخصوص جگہ نہ ہے، جہاں پر لوگ آکر اپنے مسائل اجاگر کریں، احتجاجی دھرنے یا مظاہرہ کریں ۔ان علاقوں میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جنہیں علم نہیں ہوتا کہ صحافی کہاں مل سکتا ہے، کون صحافی ہے یا نہیں۔ انہیں اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے کڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ وہیںدوسری اور ان علاقوں میں میڈیا افراد کو بھی طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے لئے ضلع وتحصیل صدرمقامات پر بیٹھنے کے لئے کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ آپس میں اطلاعات بانٹ سکیں، مختلف مسائل ومعاملات پر تبادلہ خیال کرسکیں۔ عصر حاضر میں ایک صحافی کے لئے موبائل، کمپیوٹر و انٹرنیٹ کے بغیر پیشہ ور خدمات انجام دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ خطہ چناب اور پیرپنچال کے بیشتر علاقہ جات ایسے ہیں جہاں پر موبائل وانٹرنیٹ خدمات کی ناقص کارکردگی ہے، وہاں پر سگنل ہی نہیں ہوتا۔ایسے میں صحافی کے لئے پرنٹ والیکٹرنک آرگنائزیشن(اخبارات وٹیلی ویژن چینل)جس سے وہ وابستہ ہوتا ہے، کو ہیڈ آفس تک خبریں، تصاویروغیرہ ارسال کرنے میں کئی دقتوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک مثال موجودہ ایام بھی ہیں، وادی کشمیر میں نامساعد حالات کی وجہ سے پچھلے دو ہفتوںسے انٹرنیٹ سروسز بند ہیں ۔ وادی میں تو اخبارات کی اشاعت پر پابندی ہے البتہ جموں سے جواخبارات شائع بھی ہورہے ہیں، ان میں خطہ پیرپنچال وچناب سے خبروں کی ترسیل گذشتہ دنوں کے مقابلہ کم ہورہی ہے، یہ اس لئے نہیں کہ صحافیوں کے پاس خبروں کی کمی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ وہ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند ہونے سے خبروں کی ترسیل نہیں کر پارہے۔حکومتی سطح پر ترقی کے نام پر کروڑوں روپے ایسے ہی ضائع کئے جاتے ہیںتو اگر ہر ضلع ، تحصیل اور بلاک صدور مقامات پر میڈیا افراد کے لئے ’میڈیا ہاو ¿س‘کے نام پر چھوٹی سی عمارت ہی تعمیر کی ہوتی، جہاں کمپیوٹر وانٹرنیٹ کی مکمل سہولت دستیاب ہوتی تو صحافتی پیشہ کی سرگرمیاںنامساعد حالات کے دوران متاثر ہوتیں۔ضلع، تحصیل اور بلاک صدور مقامات پر ”میڈیا ہاو ¿س“تعمیر کرنے سے کئی فائیدے ہیں۔ ایک طرف عام لوگ با آسانی ان میڈیا ہاو ¿س تک رجوع کر کے اپنے مسائل ومشکلات اجاگر کرسکیں گے اور اس کی تمام اخبارات وچینلوں میں نشریات/اشاعت بھی ممکن ہوسکے گی، دوسری اور میڈیا افراد کو اچھی خبریں ملنے کے ساتھ ساتھ بیٹھنے، آپس میں معلومات شیئر کرنے، کمپیوٹر وانٹرنیٹ کی باآسانی دستیابی بھی ملتی۔جموں پریس کلب اس کی بہترین مثال ہے، جہاں روزانہ مختلف علاقوں سے کسان، مزدور ، ملازمین، تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان، طلبا کے علاوہ متعدد سیاسی، سماجی، تجارتی ومذہبی تنظیمیں آکر پریس کانفرنسوں، احتجاجی مظاہروں یا دھرنوں کے ذریعہ اپنے مسائل ومطالبا ت کو اجاگر کرتیں ہیں اور دوسری روز سرمائی راجدھانی جموں سے شائع ہونے والے بیشتر اخبارات میں انہیں کوریج ملی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جموں سے شائع ہونے والے انگریزی، اردو، ہندی اخبارات میں اگر پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، کشتواڑ اور رام بن اضلاع سے متعلق شائع خبروں کاموازانہ کیاجائے توہر اخبار میں اعلیحدہ ہی خبر شائع ہوتی ہے، بہت کم خبریں ایسی ہوتی ہیں جوسبھی اخبارات میں شائع ہوں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر لوگوں کی جس کسی میڈیا افراد سے جان پہچان یا رسائی ہوتی ہے تو وہ اس کو خبر دیتے ہیں۔’میڈیا ہاؤس ‘تعمیر کرنے میں کوئی کروڑوں کا خرچہ نہیں آئے گا۔ مختلف سکیموں سے فنڈز ڈائی ورٹ کر کے اس اہم مقصد کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ حکومت وانتظامیہ بالخصوص محکمہ اطلاعات ونشریات کو چاہئے کہ نجی اخبارات وچینلوں سے وابستہ صحافیوں کے لئے ضلع، تحصیل اور بلاک صدور مقامات پر کسی مخصوص جگہ کوئی میڈیا گھر تعمیر کیاجائے جہاں پر کمپیوٹر وانٹرنیٹ کی سہولیات دستیاب ہوں۔ اس سے دور دراز پسماندہ علاقہ جات میں بھی تعمیر وترقی ہوسکے گی۔ لوگوں کو اپنے مسائل ومشکلات کو بذریعہ اخبارات ، ٹیلی ویژن چینل حکومت وانتظامیہ کے اعلیٰ عہدادران تک پہنچانے میں آسانی ہوگی ساتھ ہی پسماندہ علاقوں میں انتظامیہ میں جوابدہی اور شفافیت آئے گی۔ حکومت کے لئے ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اراکین قانون سازیہ ودیگر تنظیموں کو بھی اس بارے سوچنا چاہئے۔ مختلف سکیموں وپروگراموں کے تحت دستیاب وسائل کو بروئے کار لایاجاسکتا ہے۔ اگر ایسا کیاجاتا ہے تو یقینی طور شعبہ صحافت کی ترقی کے تئیں یہ ایک بہت بڑا انقلابی قدم ہوگا۔ ’میڈیا گھر‘ہونے سے صحافی حضرات بھی خود کوزیادہ اپ ڈیٹ رکھ سکیں گے اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے کئی طریقہ کے پروگرام، ورکشاپ وغیرہ بھی منعقد کرسکیں گے۔سول سوسائٹی اور معزز شہریوں کو چاہئے کہ وہ اس اہم مسئلہ کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرانے کے لئے اپنا موثر کردار ادا کریں۔
Altaf HUssain janjua
About the Author: Altaf HUssain janjua Read More Articles by Altaf HUssain janjua: 35 Articles with 52916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.