’میڈیا‘اور ’پریس‘الفاظ کاغلط استعمال پیشہ ور صحافی کیلئے پریشانیوں کا سبب!

۔ ایسے صحافیوں کی بھی ایک فوج ہے جنہوں نے اس پیشہ کو صرف اپنے ذاتی مفادات کی حصولی ،مشکل کاموں کو آسان کرانے اور کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کیا۔ خیر یہ مسئلہ آج زندگی کے ہرشعبہ کو درپیش ہے، ہر جگہ ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہ ایک لمبی چوڑی بحث وتمحیص کا موضوع ہے۔
جمہوری نظامِ حکومت میں عدلیہ، ایگزیکٹیو اور لیجسلیچرکے بعد ’صحافت‘کو ’جمہوریت‘کا چوتھا ستون قرار دیا گیا ہے جس کا ان تینوں اداروں کو متحرک اور فعال بنائے رکھنے ،ان کی خامیوں، اچھائیوں، کامیابیوں اور ناکامیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ’قلم وکیمرہ‘کے ذریعہ ان کی فعالیت کوبہتربنانے میں رول ناگزیر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن ممالک میں بغیرکسی دباؤ کے غیر جانبدارانہ طور شعبہ صحافت نے اپنے فرائض انجام دیئے ہیں وہاں پر باقی تینوں اداروں نے کوتاہی ، غفلت ، لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب برتاہے ۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس شعبہ پر ہمیشہ حکمران وقت نے اپنا غلبہ پانے کی کوشش کی ہے جس کے لئے طرح طرح کے حربے بھی استعمال کئے جاتے رہے ہیں، کافی حد تک حکمران وقت اپنی ان کوششوں میں کامیاب بھی ہوئے لیکن آج بھی پرنٹ والیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ایسے صحافیوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جوکہ اس شعبہ کے تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے اصولوں پر قائم رہ کر ’قلم وکیمرہ‘سے معاشرے میں پائی جارہی بیمارویوں حکومتی وانتظامی سطح پر رشوت خوری، غریب اور بے سہارالوگوں کے ساتھ ہورہے ظلم وستم، متاثرین کی حق تلفی، نا انصافی، بے گناہ اور معصوموں پر مظالم کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایسے صحافیوں کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہے جنہیں بمشکل دو وقت کی روٹی میسرہے لیکن انہوں نے کبھی صحافت کے اصولوں سے سمجھوتہ نہ کیا اور قلم اور اپنے اظہار خیال پر کسی کا سایہ نہیں پڑنے دیا ۔ ایسے صحافیوں کی بھی ایک فوج ہے جنہوں نے اس پیشہ کو صرف اپنے ذاتی مفادات کی حصولی ،مشکل کاموں کو آسان کرانے اور کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کیا۔ خیر یہ مسئلہ آج زندگی کے ہرشعبہ کو درپیش ہے، ہر جگہ ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہ ایک لمبی چوڑی بحث وتمحیص کا موضوع ہے۔ جہاں تک خطہ پیر پنجال میں شعبہ صحافت کا تعلق ہے ، وہاں پر اس پیشہ کو تقدس کو پامال کرنے والوں کی بڑھتی تعداد سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ راجوری پونچھ اضلاع میں سیاسی ورکروں، ٹھیکیداروں اور سرکاری ملازمین کی ایک فوج ”شعبہ صحافت“میں گھس آئی ہے جس سے نہ صرف یہ پیشہ بدنام ہوا بلکہ جو پیشہ وارانہ فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں ، وہ بھی شک کے گھیرے میں ہیں نیز انہیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ راجوری پونچھ اضلاع کے اندر ’Media‘اور ’Press‘الفاظ کا بہت ہی غلط استعمال ہورہا ہے جس پر انتظامیہ کی طرف سے کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔ حالت اس قدر تشویش ناک ہے کہ اس خطہ میں دودھ فروشوں ، چائے بنانے والوں، صفائی کرمچاریوں، سرپنچوں، پنچوں، ٹھیکیداروں، سرکاری ملازمین حتی کہ زندگی کے ہر شعبہ جات سے وابستہ چالاک وہوشیار لوگوں کے پاس ’میڈیا کارڈ ‘ہیں۔ موٹرسائیکلوں، سکوٹروں، کاروں پر کثرت سے یہ الفاظ لکھے ملتے ہیں جنہیں دیکھ کر پولیس یا ٹریفک پولیس گاڑی بھی نہیں روکتی۔ ’میڈیا‘اور ’پریس ‘کے سٹیکر چسپاں کر کے بہت سارے جرائم پیشہ سرگرمیاں بھی انجام دی جارہی ہیں جوکہ باعث تشویش ہے۔ ریاست جموں وکشمیر سے اردو، انگریزی، ہندی زبانوںمیں ہزاروں کی تعداد میں ماہانہ، ہفتہ واراور روزنامہ اخبارات وجرائد شائع ہورہے ہیں، ان میں 20-40اخبارات وجرائد ایسے ہیں ، جن کے نام لوگ جانتے ہیں بلکہ باقی ایسے ہیں جن کے نام صرف مالکان کو ہی پتہ ہیں، باقی کوئی نہیں جانتا لیکن راجوری پونچھ میں ایسے چالاک لوگوں کے پاس ایسے اخبارات کے نام پر میڈیاشناختی کارڈز ہیں جن کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ ’Press‘اور ’Media‘الفاظ کا غلط استعمال کرکے پونچھ وراجوری میں بلیک میلنگ عروج پر ہے جس سے حقیقی طور پر اس پیشہ سے جڑنے لوگوں کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس خطہ میں صورتحال اتنی ابتر ہے کہ اگر یہاں صحافیوں کا ذکر ہی چھیڑتا ہے تولوگ ان کی تعریفیں....رشوت خور، بلیک میلر،انتقام گیر،پیسے لیکر خبریں لگانے والا، افسران کے ساتھ ملنے والا، جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہاں پر ورکنگ جرنلسٹ اپنا تعریف بھی کرانے سے جھجکتے ہیں۔آج کمپیوٹر کے ذریعہ با آسانی بہترین سے بہترین ڈیزائنگ کر کے کارڈ بلاکسی تکلیف وپریشانی کے تیار کئے جاسکتے ہیں۔خطہ پیر پنجال کی پولیس اور سول انتظامیہ کو اس ضمن میں موثر اقدامات اٹھائے چاہئے تاکہ جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جانے والا’صحافت‘پیشہ بدنامی اور بلیک میلنگ جیسے القابات سے بچ سکے۔راجوری اور پونچھ ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسران کو چاہئے کہ فوری طور ایسے نام نہاد اور جعلی صحافیوں کی نشاندہی کی جائے۔ضلع میں کام کر رہے تمام پرنٹ والیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں سے متعلقہ آرگنائزیشنوں کے ہیڈآفس سے جاری کردہ’اتھارٹی لیٹر‘حاصل کر کے متعلقہ تھانہ سے ان کی مکمل ویری فکیشن کے بعد ڈسٹرکٹ انفارمیشن سینٹر میں رجسٹریشن کی جائے اور باقاعدہ ایک شناختی کارڈ جاری کیاجائے جس میں یہ توثیق ہو کہ یہ واقع ایک صحیح اور تسلیم شدہ صحافی ہے۔ان کا مکمل ریکارڈ بھی موجود رہے ۔ضلع، سب ڈویژن، تحصیل، نیابت، بلاک اور پنچایت سطح تک پولیس اور سول انتظامیہ کو ایسے صحافیوں کی فہرست ارسال کی جائے تاکہ نقلی اور نا م نہاد میڈیا رپورٹروں کی شناخت کرنے میں آسانی ہو۔ عام لوگوں میں صحافت پیشہ سے متعلق اعتماد کی بحالی نیز پیشہ ور صحافیوں کو شرمندگی سے شرمسار ہونے سے بچانے اور ان مقام ومرتبہ کی بالادستی کے لئے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس شعبہ میں شامل نام نہاد اور نقلی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
Altaf HUssain janjua
About the Author: Altaf HUssain janjua Read More Articles by Altaf HUssain janjua: 35 Articles with 56105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.