(میں نے اپنی اس تحریر میں یہ
بتایا ہے کہ ہر تحریر کے پس پردہ کچھ نہ کچھ محرکات ہوتے ہیں جو اس کو وجود
میں لانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر ہم لکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں وہ تمام
محرکات پیدا کرنے ہوں گے۔ میری اس تحریر کے وجود میں آنے کا بھی ایک خاص
محرک ہے۔ میرے ایک دوست ہیں جو سعودیہ میں رہتے ہیں وہ گزشتہ قریبی ایام
میں مجھ سے کہہ رہے تھے :‘‘ مجھے لکھنے کا بہت شوق ہے، جب میں کسی کی کوئی
خوبصورت سی تحریر پڑھ لیتا ہوں تو میرے تن بدن میں جیسے آگ سی لگ جاتی ہے،
اس وقت میرے اندر لکھنے کے شدید داعیات پیدا ہوتے ہیں مگر میں اس کے باوجود
لکھ نہیں پاتا، اگر کچھ لکھ بھی لیتا ہوں تو وہ میری نظر میں کچھ خاص جچتا
نہیں، کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں نے زبان کو کمالِ ہنرمندی کے ساتھ نہیں
برتا اور کبھی لگتا ہے کہ خیال کچھ بودا بودا سا ہے یا پھر ایسا کچھ لگتا
ہے کہ بات کچھ بنی نہیں، اس کے علاوہ اور بھی خدا جانے کیا کیا کچھ لگتا ہے’’
میں نے اپنی اس تحریر میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے میں ان کو ہماری ویب
کے خاص لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔)
یہ چند روز قبل کی بات ہے، میں اپنے ایک کرم فرما کے پاس بیٹھا ہوا تھا،
دوران گفتگو میں نے کہا:‘‘ آج کل آپ لکھ نہیں رہے ہیں’’ کہنے لگے:‘‘ لکھ تو
رہا ہوں، ابھی ابھی ایک نیا مضمون لکھا ہے۔ ان سے ... صاحبزادے....کہو وہ
لکھا کریں، وہ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں، ہم تو بہت کم پڑھے ہوئے ہیں، وہ تو
ڈاکٹر بھی ہیں’’
‘‘مگر لکھنے کا معاملہ کچھ الگ ہی ہے’’
میں نے بیچ میں لقمہ دیا۔ کہنے لگے:‘‘پڑھے لکھے لوگ لکھیں گے تو اچھا لکھیں
گے’’
اب میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا تاکہ بات زیادہ آگے نہ بڑھے۔ اور پھر
دوسرے کسی موضوع پر بات ہونے لگی۔
بات دراصل وہی ہے جو میں نے کہی ،اس لیے نہیں کہ وہ میں نے کہی ہے بلکہ اس
لیے کہ وہ بات اپنے آپ میں خاصا وزن رکھتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ لکھنے کی
صلاحیت ایک اضافی صلاحیت ہے باوجود اس کے کہ کوئی بھی غیر تعلیم یافتہ
انسان لکھنے پر قدرت حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں دانش و حکمت کی باتیں ضرور
کرسکتا ہے۔ ہر آدمی بالقوہ لکھنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے تاہم بالفعل
لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے کم ہی نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر
ساری دنیا کی تمام کتابوں کو یکجا کیا جائے تو وہ دہلی جیسے بڑے شہر کے
برابر رقبے کو گھیر لیں گی یا اس سے بھی زیادہ بڑے رقبے کو اوراس کے باوجود
آپ دیکھیں گے کہ دنیا کی ساڑھے چھ ارب آبادی میں بمشکل تمام دس فیصد لوگ
ایسے ہوں گے جو پوری طرح لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے جبکہ یہ بات ہم اور
آپ سب کو معلوم ہے کہ بعض ممالک میں ساٹھ فیصد اور بعض ممالک میں اسی اور
نوے فیصد لو گ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے کا فن ہر
پڑھے لکھے فرد کو نہیں آتا۔ اس کو بطور پیشہ یا کم از کم بطور شوق اپنانے
کی ضرورت ہوتی ہے۔ لکھ لینا ایک الگ چیز ہے اور لکھتے رہنا بالکل دوسری طرح
کی چیز۔ جو لوگ لکھ لیتے ہیں انہیں لکھنے والا نہیں کہا جائے گا البتہ جو
لوگ لکھتے رہتے ہیں انہیں لکھنے والا ضرور کہا جائے گا تاہم معیاری اور غیر
معیاری نیز اہم اور غیر اہم کے فرق کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔
کوئی بھی آدمی اس وقت تک نہیں لکھ سکتا جب تک اس پر وہی حالت نہ گزرے جو
ایک پپیتے پر گزرتی ہے جب وہ ٹرک کے نیچے آجاتا ہے۔ آدمی پر یہ حالت کئی
طرح سے گزرتی ہے۔ کبھی اس کا شوق اس کو ایسی یا اس جیسی حالت میں لے آتا ہے،
کبھی بالکل نجی قسم کے حالات اور کبھی اس کے آس پاس کی دنیا کے حالات، اور
آج کل کے گلوبلائزیشن کے دور میں عالمی حالات کی ناہمواری، اتھل پتھل اور
غیر یکسانیت نیز ظلم وزیادتی پر مبنی حالات اس کی وہی درگت بنا دیتے ہیں جو
ایک ٹرک اس پپیتے کی بناتا ہے جواس کے قوی ہیکل پہیے کے نیچے آجاتا ہے۔ جب
تک ایک جبر والی کیفیت پیدا نہیں ہوگی تب تک قلم حرکت میں نہیں آسکتا۔ میں
سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں ذوق و شوق اور پھر مبارک سلامت کے نام سے وقتاً
فوقتاً ملنے والی تہنیت اور دادو دہش بھی ایک قلم کار کے قلم کو شوق کے
پروں پر اڑنا سکھاتی ہے۔
شاعر نے یہ جو کہا ہے ‘‘درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا’’ کچھ یوں ہی
نہیں کہا ہے۔ جب تک جگر خون بن کر آنکھ سے نہیں ٹپکتا اس وقت تک قلم کو
تحریک نہیں ملتی۔ میں نے اور آپ نے اب تک بے شمار تحریریں پڑھی ہیں۔ اگر ہم
ان تمام محرکات پر غور کریں جو ان تحریوں کے وجود میں آنے کے حقیقی اسباب
میں شامل ہو سکتے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ ان محرکات کی فہرست کافی لمبی
چوڑی ہے۔ کہیں محبت اپنی تمامتر جلوہ سامانیوں کے ساتھ کار فرما دکھائی دے
گی تو کہیں دشمنی اپنی تمام تر ہلاکت آفرینیوں کے ساتھ نظر آئے گی، کہیں
درد و غم کی لہریں جوش مارتی ہوئی دکھائی دیں گی تو کہیں مسرت وانبساط کے
داعیات برقی رو کی طرح قلم کار کے ہر تار نفس میں دوڑ رہے ہوں گے، کہیں
بوالہوسی اپنے سامانِ صد ہزار کے ساتھ موجود ہوگی تو کہیں قدسیت اپنا رنگ
جمائے ہوئے ملے گی، کہیں محض ایسا ہوگا کہ عورت کے لمس کی خوشبو اور اس کی
قربت کے احساسات کی تپش نے قلم کو صبا کا حریف بنادیا ہوگا تو کہیں عورت
ذات کے دل میں مرد کے لیے محبت کے اتھاہ سمندر میں جانے انجانے میں پیدا
ہونے والی ایک ہلکی سی لہر نے قلم کو ہم دوش سریا کردیا ہوگا، کہیں ایسا
ہوگا اور کہیں ویسا ہوگا، کہیں کچھ بھی نہیں ہوگا اور کہیں بہت کچھ ہوگا۔
اس سمت میں ہم اور آپ جتنا غور کرتے جائیں گے اسی قدر عجیب وغریب اور بالکل
انوکھی قسم کی چیزیں یہاں تک بعض اوقات وہ چیزیں بھی جن کو آج تک ہم نے
اپنی زندگی میں کوئی بھی اہمیت دینا گوارہ نہ کیا ہوگا، ہمارے سامنے یکے
بعد دیگر آتی جائیں گی اور ہم بیٹھے منہ بسورتے رہیں گے۔
میرے ہاتھ میں ایک اسپنچ ہے اس میں پانی بھرا ہوا ہے، میں بیک وقت اس کا
تمام پانی اسی وقت نکال سکتا ہوں جب اس پر چاروں طرف سے دباؤ بناؤں۔ نہیں
تو اس کا سارا پانی قطرہ قطرہ بہہ جائے گا۔ بالکل اسی طرح لکھنے کا تعلق ہے۔
لکھنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود اس بات کی مزید ضرورت ہوتی ہے کہ لکھنے
والے پر جبری یا اختیاری کسی قسم کا دباؤ ہونا چاہئے۔ میں یہاں ایک واقعہ
نقل کرنا چاہتا ہوں۔ ایک استاد تھے انہوں نے اپنے ایک شاگر سے کہا کہ فلاں
انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ کردو۔ شاگرد نے معذوری ظاہر کی اور خود کو اس
کام کے لئے نا اہل بتایا۔ استاد ان کے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے انہوں
نے تقریبا حکم دیتے ہوئے کہا:‘‘یہ کتاب ہے، یہ قلم ہے، یہ کاغذ ہے اور یہ
تمہارا کمرہ ہے، باقی تمہارا کھانا پانی اپنے وقت پر تمہارے پاس پہنچ جایا
کرے گا’’۔ پھر کیا ہوا۔ چند ماہ بعد ایک کتاب تیار ہوکر آگئی اور جس نے وہ
ترجمہ دیکھا تعریف کئے بنا نہ رہ سکا۔ تو جناب ایسا بھی ہوتا ہے۔ آپ کتابوں
کے پیش لفظ پڑھئے ان میں سے اکثر میں یہ وضاحت مل جائے گی کہ یہ کتاب فلاں
فلاں صاحب کے اصرار یا حکم کی وجہ سے منصہ شہود پر آسکی ہے ورنہ راقم خود
کو اس کا اہل نہیں سمجھتا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ اس میں تھوڑی بہت کسر نفسی
بھی پائی جاتی ہے تاہم اس کے پس پردہ موجود حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا
جاسکتا۔
اکثر کاوشوں کی ابتدا ایک دانے کی مانند حقیر ہوتی ہے اور ان کی انتہا ریاض
طور کی طرح دیوہیکل ہوتی ہے۔ اکثر قلم کاروں کی کہانی یہی ہے کہ اول اول
کوئی چھوٹا موٹا مقالہ لکھتے ہیں اور پھر انہیں وہیں سے ایک کتاب لکھنے
کاحوصلہ یا خیال ملتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسی بہت ساری کتابوں کو جانتا
ہوں کہ ابتداء ان کی حیثیت محض ایک مقالے کی تھی مگر بعد میں وہ انتہائی
ضخیم اور اہم کتابیں بن گئیں۔ جن کی عظمت کو ساری دنیا میں سراہا گیا۔
علم کے بارے میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے: ''العلم لایعطیک بعضہ حتی تعطیہ
کلک'' تقریباً یہی بات لکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے پر بھی صادق آتی ہے۔
باوجود اس کے کہ 'علم' بہت وسیع معنی رکھتا ہے اور لکھنے لکھانے کا فن اس
کے محض ایک چھوٹے سے جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح ایک غریب آدمی اپنا ایک
چھوٹا سا گھر بنانے کے لئے اپنی پوری زندگی لگا دیتا ہے بالکل اسی طرح
لکھنے کا فن بھی شاید اسی طرح کی قربانی چاہتا ہے۔
یہ لکھنے لکھانے کا معاملہ بھی عجب ہے بالکل اسی طرح، جس طرح شعر کہنے کا
معاملہ عجب ہے۔ ذرا ان حضرتِ کلیم عاجز کو دیکھئے، یہ کس لیے غزل کہنا
چاہتے ہیں:
وہ جو شاعری کا سبب ہوا وہ معاملہ بھی عجب ہوا
میں غزل سناؤں ہوں اس لیے کہ زمانہ اس کو بھلا نہ دے
یہ صرف اس لیے غزل کہنا چاہتے ہیں کہ غزل کو یاد رکھا جائے، کوئی خود ان کو
بھلا دے تو کوئی حرج نہیں مگر غزل کو نہ بھلایا جائے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ
غزل نے انسان کو آج تک کچھ نہیں دیا سوائے اس ایک خاص چیز کے جو نوحہ غم کو
دوبالا کرتی ہے اور سوائے اس ایک خاص بات کے جو نغمہ شادی کو دوآتشہ بناتی
ہے۔ اور سوائے اس لذت کے جو کسی انسان کو دوعالم سے بیگانہ کرتی ہے، جو زخم
پیدا نہیں ہوئے انہیں پیدا کرتی ہے اور جو سوکھ گئے ہیں انہیں پھر سے ہرا
کرتی ہے۔ آپ کسی ادیب سے پوچھیں گے تو وہ کہے گا کہ یہی تو اس کا اعجاز ہے
اور اگر مجھ سے پوچھیں گے تو میں کہوں مگر اس اعجاز کا کیا حاصل، جس سے
بھوک نہ مٹے اور جس سے درد رفع نہ ہو۔
ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ لکھنے کے لئے صحافیوں کے طرز نگارش کو سامنے
رکھے ناکہ ادیبوں کے طرز نگارش کو، اگر یہ تھوڑی بہت کوشش سے پیدا ہوجائے
تو سبحان اللہ۔ صحافیوں کو اظہار مدعا سے سروکار ہوتا ہے جبکہ ادیب الفاظ
کے پیچوں میں الجھ جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے باوجود اس
کے کہ وہ بھی پائے کے ادیب تھے اور انہوں نے زبان کو اس کے تمام مالہ وما
علیہ کے ساتھ برتا ہے، کہتے ہیں:
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا غواص کو مطلب ہے گوہر سے، نہ صدف سے
الفاظ صدف کی طرح ہیں اور مطلب گوہر کی مانند۔
آپ نے اپنے تعلق سے جس صورت حال کا ذکر کیا ہے تقریباً تمام لکھنے والے اسی
طرح کی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی قلم
کار اپنے آپ کو کم از کم جیتے جی ادیب کہلانے کا مستحق نہیں سمجھتا۔ ہوسکتا
ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے حضور میں تسلیم کر لے کہ ‘ہاں میں ادیب ہوں’۔ اسی
لیے آپ دیکھیں گے کہ کسی بھی دور میں اگر عام لکھنے والے ہزاروں کی تعداد
میں ہوں تو ادیب محض دوچار ہی ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ آٹھ دس۔ اور ان
کو بھی ادیب کہتے ہوئے نقاد لوگ سہم سہم جاتے ہیں۔ کئی سارے لکھنے والے اس
طرح کی سچویشن سے بھی گزرتے ہیں کہ وہ زندگی بھر لکھتے رہتے ہیں اور جب
زندگی کے آخری پڑاؤ پر پہنچ جاتے ہیں تو ایک لمحے کے لیے پیچھے مڑ کر
دیکھتے ہیں، ناگواری اور پشیمانی کی ایک شکن ان کی پیشانی پر نمودار ہوتی
ہے، دماغ کے کسی حصہ میں ایک حقیر سا کیڑا کلبلاتا ہے اور لبوں کی طرف رینگ
جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘‘ہم نے کیوں لکھنا شروع کیا اور پھر کیوں لکھتے رہے؟
آخر یہ سب کر کے ہم نے ایسا کیا اکھاڑ لیا جو دوسرے نہ اکھاڑ سکے اور ایسا
کیا ٹھونک دیا جو دوسرے نہ ٹھونک سکتے تھے’’من حیث الفرد یہ کیڑا ہر کس
وناکس کے دماغ میں پیدا ہوسکتا ہے لیکن من حیث المجموع ایسا کوئی کیڑا کسی
ایک فرد کے دماغ میں بھی پیدا نہیں ہوسکتا، شاید قیامت تک بھی نہیں۔ بعض
چیزوں کی اہمیت انفرادی سطح پر اتنی زیادہ واضح ہوکر نہیں ابھرتی جتنی
زیادہ واضح ہوکر اجتماعی سطح پر ابھرتی ہے۔ ویسے یہ بات دنیا کے ہر شخص کے
ساتھ پیش آتی ہے چاہے اس کا میدان کوئی بھی اور اس نے کتنا کچھ بھی کیوں نہ
اکھاڑ لیا اور کتنا کچھ بھی کیوں نہ ٹھونک دیا ہو۔
ایک بار میں ایک ادبی نوعیت کے پروگرام میں بحیثیت سامع شریک ہوا، میرے
ساتھ میرا ایک دوست بھی تھا۔ کوئی غزل گائی جارہی تھی جس کا مفہوم کچھ کچھ
اس شعر کی طرح کا تھا:
جس کو چاہا اسے اپنا نہ سکے، جو ملا اس سے محبت نہ ہوئی
کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی، چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی
میں نے اپنے دوست سے کہا: ‘‘ادب کی ساری سرگزشت یہ ہے کہ ایک عورت ایک مرد
کی تلاش میں ہے اور ایک مرد ایک عورت کی جستجو میں ہے، حالانکہ وہ دونوں
ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں’’ میرے دوست ایک دم جیسے چونک پڑے
اور بولے بالکل صحیح کہا آپ نے۔ آپ بھی غور کیجئے کہ یہ کہاں تک درست ہے۔
جی میں تو آرہا ہے کہ اور لکھوں مگر پھر خیال کرتا ہوں کہ عقلمندوں کے لیے
زیادہ لکھنا ان کو بے وقوف ثابت کرنے جیسی ایک کوشش ہے۔ اور یہ میں نہیں
چاہتا۔ کم از کم اس وقت جب مخاطب آپ ہوں یا پھر آپ جیسے دانا وبینا لوگ۔
والسلام |