دوستی ایک ایسی چیز ہے کہ اس کی
تمنا ہر کس وناکس کو رہتی ہے، حیات مستعار کے طویل سفر میں ہر کسی کو ایک
مخلص دوست کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی خوشیوں میں برابر کا شریک ہو اور
مصیبت کے ایّام میں اس کا ہم رکاب رہے۔ کسی مخلص دوست کی تمنا کے باب میں
نہ کسی بادشاہ و امیر کا استثنا ہے اور نہ ہی کسی محتاج وفقیر کا۔ کتنی
عجیب سی بات ہے کہ ہزاروں انداز کے رشتے ناتے اور صدہا قسم کے تعلقات کے
باوجود انسان کو ’’دوستی‘‘ کے رشتہ کی مزید ضرورت ہوتی ہے۔ ددہیال و ننہیال
کے رشتہ داروں میں بزرگواروں کے بعد بھائی بہن، ماموں بھانجے اور چچا
بھتیجے، سسرالی رشتہ داروں میں بڑوں کے بعد سالے اور سالیاں، تعلیمی وفنی
رہ گزر پر استاد اور شاگرد، گرو اور چیلے، نیز بیسیوں قسم کے سچے اور خیر
خواہ پڑوسیوں کے بیچ دوستی کے اس رشتے کی خواہش انسان کے تئیں اس کی ضرورت
اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ زندگی کے سفر میں کئی مقام ایسے آتے ہیں جہاں ایک
مخلص دوست کی ضرورت بہت بڑی مجبوری بن کر سامنے آتی ہے۔ انسان کی نفسیاتی
کشمکش اور عمل ورد عمل کی ستیزہ کاری کے درمیان یہ کتنی عجیب طرح کی ٹریجڈی
ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ دوستوں کی بھی اچھی خاصی تعداد رکھتے ہیں اور
ان کی مجلسوں اور صحبتوں سے حظ بھی اٹھاتے ہیں مگر جیسے ہی وہ تنہا ہوتے
ہیں اور اپنے بالکل نجی اور ذاتی قسم کے احوال ونظریات کو بانٹنا چاہتے ہیں
تو وہ دوستوں کی بھیڑ میں بھی خود کو تنہا پاتے ہیں اور ایک بار پھر کسی ہم
دم وہم راز کی صحبت کی خواہش جسم وجان کے ہر بن مو سے آہ بن کر ابھرتی ہے۔
موجود دوستوں سے گلہ وشکوہ اور نئے دوستوں کی تلاش ہم سب کی آپ بیتی ہے۔ یہ
کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار
ہوتا دوستی کے لیے اس بات کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ شخص رشتہ داروں
کی فہرست سے باہر کا ہو، دوست جہاں ایک اجنبی شخص ہوسکتا ہے وہیں اپنا سب
سے قریبی رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے۔ اپنے حقیقی بھائی سے بھی دوستی کی جاسکتی
ہے اور پڑوس کی دیوار کے اس پار کسی گبرو نوجوان سے بھی۔ دوستانہ بے تکلفی
ایک استاد کے ساتھ بھی قائم کی جاسکتی ہے اور ایک شاگرد کے ساتھ بھی۔ کسی
کے ساتھ زندگی کا معتدبہ حصہ گزارنا دوستی کی شرائط صحت میں ہرگز داخل نہیں
ہے، پل دو پل کا ساتھ اور لمحہ بھر کا سفر بھی خوشگوار موسم اور خوش آئند
نقطہ آغاز ہوسکتا ہے۔ دوستی کا رنگ مذکورہ تمام رشتوں کے رنگ سے مختلف ہوتا
ہے، بعض اوقات ان سے زیادہ خوشنما بھی اور ان سے بڑھ کر خالص اور گہرا بھی۔
دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ دیگر تمام رشتے ناتے امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ بے
رنگ و بے مزہ ہونے لگتے ہیں جبکہ دوستی کے رشتہ میں گزرنے والے ہر لمحہ کے
ساتھ پائیداری کی مزید ایک دو گرہیں لگ جاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں
کو یہ چیز بہت بھاتی ہے اور تاریخ انسانی کے ہر موڑ پر ہر کس وناکس کو راس
آتی ہے۔ حدیہ ہے کہ بہت سارے لوگ صلبی رشتوں پر دوستی کو ترجیح دینے لگتے
ہیں اور جب یہ چیز غلوآمیز رویہ اختیار کرلیتی ہے تو صلبی رشتوں کے حقوق و
واجبات ادا کرنے میں انسان کوتاہ رہ جاتا ہے۔ دوستی کو ترجیحی حیثیت دینے
کی ایک سادہ اور فطری وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ دو انسانوں کے مابین دیگر
تمام رشتے فطری طور پر قائم ہوتے ہیں۔ آپ چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ دنیا
جہان کے خالق ومالک نے جس طرح انسان کی تخلیق اس کی اپنی مرضی و ارادہ جانے
بغیر کی اسی طرح رشتوں کو بھی اس کی رضا و خوشنودی کے بغیر ہی آخری شکل دے
دی۔ اس چیز کو شاعر نے کتنی گہرائی کے ساتھ محسوس کیا ہے اور پھر اس احساس
کو کتنی صفائی وہنر مندی سے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔ لائی حیات آئے، قضا
لے چلی چلے اپنی خوشی سے آئے، نہ اپنی خوشی چلے صلبی رشتے ناتے پیدا کرنے
میں انسان کی اپنی مرضی اور رجحان کو کچھ دخل نہیں ہوتا۔ کوئی کسی کا باپ
ہے یا بھائی، ماں ہے یا بہن، وہ اللہ کے تخلیقی منصوبوں اور حکمتوں کے تحت
ہے۔ یقیناً اس نے ان میں سے کسی کو بھی اپنی مرضی سے نہیں چنا تھا۔ حتیٰ کہ
اب اس کو اس بات کا اختیار بھی نہیں کہ وہ ان میں سے کسی کا انکار کردے اور
اس کے حقوق وفرائض سے سبکدوش ہو جائے۔ اس بات کی اجازت نہ اللہ کا قانون
دیتا ہے اور نہ انسانی قانون، نہ انسانی حقوق سے متعلق تنظیمیں نہ کسی ملک
کی پارلیمینٹ۔ کوئی باپ ہے اور کوئی بیٹا، کوئی ماں ہے اور کوئی بیٹی، کوئی
بھائی ہے اور کوئی بہن، ہر کوئی ایسا کچھ بھی ہونے کے لیے مجبور محض ہے اور
پوری طرح فطرت کے رحم وکرم پر بھی۔ جبکہ دوستی کا رشتہ اپنانے اور اختیار
کرنے میں انسان مکمل طور پر آزاد وخود مختار ہے، یہاں تک کہ اس کو نبھانے
یا نہ نبھانے کے لیے بھی وہ قانونی طور پر مجبور نہیں ہے۔ نہ خالق کائنات
کا قانون اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور نہ انسانی قوانین اس کی راہ میں آتے ہیں۔
دوستی کا رشتہ ہرچند کے اللہ نے نہیں بنایا تاہم اس کو پسند ضرور کیا ہے۔
خود اللہ نے حضرت ابراہیم کو اپنا دوست’’خلیل‘‘ کہا ہے۔اور خود رسول اکرمﷺ
کے اصحاب میں ایسے افراد بھی رہے ہیں جنہیں آپ قولاً بھی دوست یعنی خلیل
کہا کرتے تھے اور عملی طور پر بھی ان کے ساتھ مخلص دوستوں جیسا ہی برتاؤ
کرتے تھے۔ ایک رسول کی حیثیت سے آپﷺ اپنے اور ان کے درمیان جو کچھ بھی اور
جیسا کچھ بھی فرق مراتب رکھتے ہوں تاہم ایک انسان کی حیثیت سے ان کے درمیان
دوستوں کی طرح رہنا پسند کرتے تھے۔ قرآن کریم میں دوستی کے لئے ’’صدیق‘‘ کا
لفظ کئی طرح کے سیاق میں آیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے:اَلْاَخِلاَّءُ
یَوْمَءِذٍ بَّعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلاَّ الْمُتَّقِیْنَ (زخرف۔رکوع
۶)’’روز محشر دوست واحباب ایک دوسرے کے دشمن کی طرح ہوجائیں گے، البتہ متقی
وپرہیزگار لوگوں کی دوستی اس دن بھی قائم رہے گی‘‘یعنی جس طرح دنیا میں ایک
دوست دوسرے دوست کے کام آتا ہے، کسی بھی آڑے وقت میں اس کی مدد کرتا ہے اور
خوشی ومسرت کے مواقع پر شریک کار ہوکر اس کی خوشیوں کو دوبالا کرتا ہے۔
قیامت کے دن ایسے دو مخلص اور ہمدردوغم گسار دوست بھی ایک دوسرے سے دشمنوں
جیسا معاملہ کریں گے، کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اور یہ سب اس لیے
ہوگا کہ روز محشر انصاف کے تقاضے بغیر کسی کمی وبیشی کے پورے کردئے جائیں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ موت دنیا میں قائم کئے گئے تمام رشتے ناتے توڑ دے
گی، حتیٰ کہ صلبی رشتے بھی جن کا خالق خود اللہ تبارک وتعالیٰ ہے غیر معتبر
ہوجائیں گے۔ قرآن میں ہے:یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ
وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیْہِ، لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ
شَاْنُ یُّغْنِیْہِ(سورہ۔عبس آیت نمبر۳۴۔۳۷)’’جس دن آدمی اپنے بھائی، ماں
باپ اور بیوی بچوں سے بھاگے گا وہ دن کچھ ایسا ہولناک ہوگا کہ ہر ایک کو
اپنی ہی فکر لگی ہوگی‘‘اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے دن تمام رشتے
ناتے ٹوٹ جائیں گے تاہم اہل ایمان اور متقی لوگوں کے رشتے اس دن بھی قائم
ہوں گے، اوپر والی آیت کی رو سے بطور خاص دوستی کا رشتہ قائم رہے گا۔ جہنمی
لوگ جب عذاب کی سختیاں جھیل رہے ہوں گے تو حسرت ویاس کے ساتھ کہیں گے کہ اب
ہمارا کوئی نہیں جو ہم کو بچا سکے۔ قرآن نے اس سیاق میں بھی لفظ’’ صدیق‘‘
استعمال کیا ہے:فَمَالَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ وَلاَصَدِیْقٍ حَمِیْمٍ (سورہ
شعراء ۔۱۰۰)’’اب ہمارا نہ کوئی سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست‘‘ماضی میں
مسلم اور غیر مسلم فلاسفہ وادباء نے دوستی کے تعلق سے بہت کچھ لکھا ہے۔
دوستانہ تعلقات کو لے کر سے مثبت ومنفی دونوں طرح کی آراء کا اظہار کیا گیا
ہے۔ ابن حیان،ابن مقفع،ابوبکر زکریا رازی، ابویوسف یعقوب کندی اور ابن حزم
اندلسی وغیرہ نے اس موضوع پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اور اس کے
فوائد ونقصانات پر سیر حاصل بحث کی ہے، دوستوں کی قسمیں بھی بتائی ہیں اور
پھر ان کے مزاج وافتاد طبع پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ماضی بعید سے لے کر زمانہ
حاضر تک اس موضوع پر کسی نہ کسی حیثیت سے مستقل لکھا جارہا ہے اور آئندہ
بھی اسی طرح لکھا جاتا رہے گا۔ جب دوست اور دوستی کی بات نوک قلم پر آئی ہے
تو لازماً’’ صحبت ‘‘کا تذکرہ بھی کرنا ہوگا کہ انسان کی تربیت میں صحبت کا
بہت بڑا رول ہوتا ہے۔ صحبت اگر اچھی ہے تو تعمیر حیات کا ذریعہ بنتی ہے اور
اگر اچھی نہیں ہے تو زوال علم وعرفاں کا سبب ہونے کے ساتھ ساتھ غارت گر دین
وایمان بھی ہوتی ہے۔ شیخ سعدی نے کہا ہے:صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح
ترا طالح کند یعنی بروں کی صحبت انسان کو برا بناتی ہے اور اچھوں کی صحبت
اچھا بناتی ہے۔ اہل علم وفن کی صحبت آدمی کو اختیار کرنا ہوتی ہے اور اس کے
لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے، یہ اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی۔
جبکہ دوستوں کی صحبت ہر کس وناکس کو حاصل رہتی ہے، اس میں بس خوب اور خوب
تر کے انتخاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر کسی کا حلقۂ احباب اس کے کردار کی خوبی
وخرابی کا آئینہ ہوتا ہے۔ ہر آدمی کے آس پاس وہی لوگ گردش کرتے ہیں جو اس
کے مزاج، طریقۂ حیات اور اس کی سرگرمیوں سے کسی نہ کسی حد تک مطابقت رکھتے
ہیں۔ دوستی کے باب میں طبیعت ومزاج کی یکسانیت بڑی معنویت رکھتی ہے۔ اسی
لئے کسی نے کہا ہے ’’تم مجھے اپنے دوستوں کے بارے میں بتاؤ میں تمہارے
اخلاق وکردار کے بارے میں تمہیں بتاؤں گا‘‘دوستوں کی صحبت سے اچھا یا برا
جو اثر انسان کی شخصیت پڑتا ہے اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
بڑی اچھی اور آسانی سے سمجھی جانے والی مثال کے ذریعہ بتایا ہے ،آپؐ کا
ارشاد ہے______’’اچھے اور بُرے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی
دھونکنے والے لوہار کی طرح ہوتی ہے کہ مشک بیچنے والے کی صحبت سے تم کو کچھ
فائدہ ضرور پہنچے گا مشک خریدو گے یا مشک کی خوشبو پاؤ گے۔ لیکن لوہار کی
بھٹی تمہارا گھر یا کپڑے جلائے گی یا تمہارے دماغ میں اس کی بدبو پہونچائے
گی‘‘۔ (بخاری، مسلم)دوستی اور دشمنی ایک دوسرے کی ضد ہیں، ہر انسان کو اپنی
زندگی میں ان دونوں سے کسی نہ کسی انداز میں ضرور واسطہ پڑتا ہے۔ دوستی
گرچہ من چاہا سودا ہے تاہم دشمنی نہ چاہتے ہوئے بھی مول لینا پڑتی ہیں۔ یہ
دونوں چیزیں انسانی زندگی کا ایک جز ہیں جب تک انسان ایک دوسرے کے ساتھ مل
جل کر رہ رہا ہے تب تک ان دونوں سے واسطہ نا گزیر ہے۔ اس آزمائشی عرصۂ حیات
میں جو چیز انسان سے مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی فہرست طویل
کرے اور دشمنوں کی فہرست کو کم سے کم کرنے کی شعوری کوشش کرے۔ اگر کوئی
ایسا نہیں کرنا چاہتا یا ایسا کرنے سے عاجزی کا اظہار کرتا ہے تو وہ دین
ودنیا کا نقصان اٹھائے گا اور بربادی اس کا مقدر ہوگی۔ اس باب میں برائی اس
وقت اپنے حدود کو پار کرجاتی ہے جب ہم حد اعتدال سے آگے بڑھنے لگتے ہیں۔
اور میانہ روی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آج کی انسانی دنیا عقل سے کم اور جذبات سے
زیادہ کام لیتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ راہ اعتدال سے ہٹ جاتی ہے۔
لوگ دشمنی کرتے ہیں تو تمام سابقہ رکارڈ توڑ دینا چاہتے ہیں اور جب دوستی
کرتے ہیں تو اس کی گہرائیوں میں بلا سوچے سمجھے اترتے چلے جاتے ہیں۔ ہم
اپنے اس مضمون کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت پر ختم کر رہے ہیں
جو دوستی ودشمنی کی اندھیری گلیوں میں روشن قندیل کی حیثیت رکھتی ہے اور ہر
عقلمند انسان کا یہ حق ہے کہ وہ اس کو حرز جاں بنائے اور برسر راہ عمل رکھے۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے ______أحْبِبْ حَبِیْبَکَ ھَوْناً مَّا عَسٰی أنْ یَکُوْنَ
بَغِیْضَکَ یَوْماً مَا،وأبْغِضْ بَغِیْضَکَ ھَوْناً مَا عَسٰی أنْ یَکُوْنَ
حَبِیْبَکَ یَوْماً مَّا(ترمذی،باب ماجاء فی الاقتصاد فی الحب والبغض)’’جن
سے آپ دوستی کرتے ہیں ان سے دوستی ضرور کیجئے مگر ایک حد کے اندر ہی کیجئے،
کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آج کے دوست کل کے دشمن ثابت ہوں۔ اور جنہیں
آپ پسند نہیں کرتے ان سے بغض وحسد مت رکھئے کیونکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ
آج کے دشمن کل کے دوست ثابت ہوں‘‘۔ دوستی و دشمنی کے باب میں یہ ارشاد حرف
آخر ہے، سو باتوں کی ایک بات اور ہزار نصیحتوں کی ایک نصیحت، پوری ایک کتاب
کے برابر اور پورے ایک دفتر کے ہم پلہ۔ |