برطانوی سامراجی ایسٹ انڈیا کمپنی نے
مسلمان کی صفوں میں گھسے ہوئے میر جعفر و میر صادق جیسے غداروں کی وساطت سے
مسلمانوں کا بھارت پر سات سو سالہ اقتدار چھین لیا۔تقریباً دو صدی حکمران
رہ کر صرف مسلمانوں کی تباہی و برباد ی کرتے رہے اور ہندو بنیے بے ضمیر بن
کر ان کی تابعداریاں کرتے رہے جب1947میں انگریز یہاں سے جانے پر مجبور
ہوگئے پھر ایسا بٹوارا کیا کہ جس میں صرف مسلمانوں کو ہی گھاٹا رہا۔ کئی
مسلم ریاستیں جو نا گڑھ ،دکن وغیرہ پاکستان کو دی ہی نہ گئیں۔کشمیر کو بھی
دولخت کرڈالاا سی طرح بنگال پنجاب سندھ کے بھی دو دو ٹکڑے کرکے عجیب بندر
بانٹ اس لیے کی کہ مسلمان لڑ لڑ کر کمزور ہوتے رہیں اصولی طور پر آج تک
پاکستان کو کبھی بھی بھارتی نیچا نہیں دکھا سکے۔مقبوضہ کشمیر پرپاکستانی
افواج تقریباً قابض ہو چلی تھیں کہ بھارت نے اقوام متحدہ میں مسئلہ لے جا
کر جنگ بندی کروڈالی اور مقبوضہ کشمیر کے لیے حق خود ارادیت کی بنیاد پر
آخری فیصلہ ہو نا طے ہوا مگر اب بھارتی اپنی مکاری کی وجہ سے اسے تسلیم
نہیں کر رہے۔1965میں بھارتیوں نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستانی صدر ایوب
خان نے اپنے سارے آمرانہ کردار کے باوجود ریڈیو پر تقریر کے ذریعے بھارتیوں
کو للکارا اور مسلمانوں کو اﷲ اکبر پر پورا یقین رکھتے ہوئے بھارتیوں کو
منہ توڑ جواب دینے کے لیے اپیل کی تاکہ انھیں پتا چل جائے کہ انہوں نے کس
قوم کو للکارا ہے ۔پوری قوم فوج کی پشتیبان بن گئی اور پورا ملک جہادی
ترانوں سے گو نج اٹھا۔آمر ہونے کے باوجود ایوب خان محب وطن اور باکردار صدر
تھے سیالکوٹ اورلاہور کے بارڈروں پر گھمسان کا رن پڑا پاکستانی فوجی بم
باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ کر شہادت پاگئے بھارتیوں نے خود شکست تسلیم
کرلی پھر1971میں مشرقی پاکستان کے اندر اور باہر مسلم سپاہ سے دست پنجہ
شروع کیا ۔مکتی باہنی ،راء اور مقتدر شرابی زانی جنرل یحییٰ کی مزید
صدررہنے کی پلاننگ جس میں مغربی پاکستانی لیڈر بھی شامل ہوا تو مرکزی کمان
نے حکماً ہتھیار ڈلوادیے نامزد وزیر خارجہ اگر سلامتی کونسل میں پولینڈ کی
جنگ بندی کی قرارداد نہ پھاڑتے تو بھارتی مشرقی پاکستان کی سر حدوں سے نکل
جاتے اور ہماری98ہزار فو ج کو ہندو گرفتار کرکے بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے
ہوئے بھارت لیجا کر قید نہ کرسکتے۔حکمران بننے اور اس وقت کی صدار ت برقرار
رکھنے کی خواہشیں رکھنے والوں نے ملک کو توڑااور قابض ہوگئے وگرنہ بطور
مسلمان قوم شکست نہ ہو سکتی تھی۔ضیاء الحق کے دور میں پھر بھارتیوں نے
افواج بارڈر پر لا پھینکیں۔صدر ضیاء کرکٹ میچ کے دوران بھارت پہنچے بھارتی
اقتدار تک بات پہنچائی کہ چار منٹ کے اندراندر سب بڑے شہر تباہ و برباد
کرنے کی ہم ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں فوراً بزدل بھارتی افواج بارڈر سے ہٹ
گئیں ۔کشمیر کی آزادی کی جدو جہد1931سے جاری ہے اسے پاکستان نے شروع نہیں
کیا۔کیونکہ وہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے اس لئے وہ پاکستان میں ضم ہونے
کی خواہش رکھتے ہیں۔اب برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کشمیری نوجوان بپھر
چکے ہیں اور کرفیو توڑ کر بھارتی فوجیوں کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔
پاکستان میں یوم سیاہ منایا گیا۔خود شہیدوں کے خاندان کے سپوت جنرل راحیل
شریف نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی مستقل شہادتوں پر مذت کرتے ہوئے
عالمی ضمیر کو جنجھوڑا ہے پاکستانی مستقل وزیر خارجہ تک نہ ہے ۔ تاہم مشیر
خارجہ سرتاج عزیزہندوستانی افواج کی مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت گری،دو
ہفتوں سے مسلسل کرفیو کے نفاذکی بھرپور مذمت اور بین الاقوامی فورم پر اسے
پیش کرنے کے بھرپور مطالبات کر رہے ہیں۔پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بھی جلد
قرار داد کے ذریعے بھارتی وحشیانہ و سفاکانہ بربریت کی شدید مذمت کرتے ہوئے
اس کے فوری حل کے لیے تجاویز پیش کرے گا۔ گووزیر اعظم پاکستان مودی کی
تقریب حلف برداری میں جا دھمکے تھے اور اپنے خاندان کے لیے بھارت کے اندر
صنعتیں لگانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں اور اپنی پوتی کی شادی اور اپنی
سالگرہ پر بھی مودی کو دعوت دے ڈالی تھی تاہم بیماری سے اٹھ کر وہ بھی چار
ج سنبھال چکے ہیں اور بھارتیوں کی درندگیوں کے توڑ اورانھیں بھرپور جواب
دینے کے لیے لازماً کو شاں ہوں گے۔کرفیو کے دوران دو ہفتوں کے اندر پانچ
درجن سے زائد شہادتیں اور پانچ ہزار سے زائد کشمیری زخمی ہو چکے ہیں۔ہندو
حکمرانوں نے سکھوں کے ساتھ آج تک جو مظالم کیے ہیں اسکی وجہ سے سکھوں کو
اپنی علیحدہ ریاست قائم کر لینے میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے کیونکہ ہندوازم
دنیا بھر میں بطور مذہب پہچانا نہیں جاتا یہاں تک کہ یہ مکاری ،بے وفائی
خود غرضی اور جعلی تابعداریوں کے ماہرہیں کبھی برطانوی سامراج اور آجکل
امریکنوں کوآقا تسلیم کرکے ان سے مفاد لینے کے لیے ہر قسم کی دھوکہ دہی میں
مصروف ہیں ۔ہندو ڈرپوکیات وبزدلیات میں تو پی ایچ ڈی ہولڈر ہوتے ہی ہیں ان
سے زیادہ خوفزدہ ہو جانے والا کوئی مذہبی گرو ہ روئے زمین پر نہ ہے یہ تو
کسی کا استقبال کریں یا ملیں تو دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے ہوتے ہیں دنیا بھر
میں ایسا عمل و طریقہ صرف معافی مانگنے کی ہی صورت میں ہوتا ہے ۔مسلم قوم
تو صرف اپنی بہادری میدان جنگ میں اپنی دلیریوں اور شہادتوں کی وجہ سے
خوامخواہ دہشت گرد قرار دیے جاتے ہیں ہندوؤں کے ہاں اتنی بد عقیدگی ہے کہ
ہر دسواں آدمی جو گی اور اوتار بناپھرتا ہے جادو ٹونے کالے علم کے
علمبرداروں کی گھاس پھوس کی طرح فصلیں اگی ہوئی ہیں جوتی کا ایک حصہ الٹا
ہو گیا بس سفر پڑ گیا ،کالا کوا دیوار پر بول پڑا سمجھتے ہیں مہمان آرہا ہے،
آٹا گو ندھتے ہوئے باہر گر گیا بس شامت آنے والی ہے ،سفر کرتے ہوئے کالی
بلی آگے سے گزر گئی اب خیرنہیں ۔غرضیکہ فرسودہ رسومات اور ناقابل یقین
کردار کے حامل ہیں ۔امریکہ کے دہشت گردی ختم کرنے میں اتحادی ہونے کے ناطے
پاکستانیوں کا یہ پیغام ہے کہ وہ جس گھوڑ ی پر سواری کرکے اپنی عملداری
بڑھانا چاہتے ہیں وہ ظاہراًگھوڑی ضرور ہے مگر اندرون خانہ بزدلوں کی نانی
اماں کہلاتے ہوئے گیڈر بھی نہیں بلکہ لومڑی ہیں اور خوامخواہ ادھر
اُدھراچھل کود ضرور کرتے ہیں مگر حاصل کچھ نہیں پاسکتے ۔امریکنوں کی مہمان
داری تو کیا کریں گے غلط مشوروں سے ان اور ان کے اتحادیوں کے فوجیوں کا
افغانستان سے نکلنا بھی ناممکن بناڈالیں گے کشمیری فتح کی سمت بڑھ رہے ہیں
جدو جہد تیز کرچکے کہ اب ہماری جنگ آخری مورچہ چھوڑ نہ جائے کوئی۔امریکہ ،پورا
عالم اسلام اور بین الاقوامی قوتیں سلامتی کونسل و اقوام متحدہ کو بھرپور
کردار دا کر کے کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلوانا ہو گی۔عالمی ضمیر
نہ جاگا تو سبھی خدا کی قہرمانیوں سے نہ بچ سکیں گے۔ جنگ عظیم کا انتظار مت
کرو۔آخری فتح تو شہید قوم اور خدا کے نام لیواؤں کی ہی ہوتی ہے۔ |